تبلیغی جماعت اور دہشت گردی

 تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت کے داخلے بند کئے جارہے ہیں، یہ فیصلہ حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کیا۔ چونکہ آجکل دہشت گردی کا سب سے بڑا خدشہ تعلیمی اداروں کو ہے۔ سفاک دہشت گردی کا پہلا حملہ سکول پر ہوا تھا، اور اب اسی قسم کی واردات باچا خان یونیورسٹی چار سدہ میں ہوئی ہے، جس کے بعد جہاں حکومتیں سکولوں کی سکیورٹی کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، ادارے سِیل کئے جارہے ہیں، سکولوں میں ہفتہ بھر کی چھٹیاں کی گئیں۔ اب مزید اقدامات کے طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تبلیغی جماعت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سکیورٹی سکولوں سے بھی مشکل ہے، کیونکہ بہت سے سکول محدود رقبے میں ہیں، جس کی بنا پر اسے چار دیواری کے حصار میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سکول کے باہر ایک گارڈ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مگر یونیورسٹیوں کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی عمارتیں وسیع رقبے پر پھیلی ہوتی ہیں، یقینا مستقبل کی منصوبہ بندی کے مطابق بہت ہی وسیع رقبہ کسی بھی یونیورسٹی کی بنیادی ضرورت ہے، ویسے بھی کھلے ماحول سے طلبا وطالبات کو ذہنی کشادگی اور آسودگی نصیب ہوتی ہے۔ اتنی وسیع جگہ پر چار دیواری کا تعمیر کرنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پھر اس چار دیواری پر نظر رکھنا مزید ایک مسئلہ۔

اگرچہ یونیورسٹیوں میں قوم کے بچوں کی وہ اکثریت جاتی ہے، جنہوں نے اپنی تعلیم کے تمام مراحل طے کر لئے ہوتے ہیں، اور آخری ادارے میں وہ مستقبل کے سہانے خواب سجا کر میدانِ عمل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ لڑکپن کی شوخیوں کو خیر باد کہہ رہے ہوتے ہیں اور اپنے مستقبل کے لئے سنجیدگی سے غور کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ نہیں ہوتا کہ وہ سب کچھ جان گئے ہیں، وہ زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ ہوچکے ہیں، وہ آنے والے ماہ و سال کے اسراز پا چکے ہوتے ہیں، بلکہ یہاں بھی انہیں رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے ، یہاں بھی اساتذہ وہی کردار ادا کرسکتے ہیں، جو پرائمری سکول کے ٹیچر نے کیا ہوتا ہے۔ وہاں انگلی پکڑ کے لکھنا سکھانے اور راہیں متعین کرنے کی بات ہوتی ہے، تربیت کرنے والے اساتذہ بچوں کی یادداشتوں سے چپک کر رہ جاتے ہیں، تو یہاں جذبوں اور دلوں کا رُخ موڑنے کی عمر ہوتی ہے، استاد کو انگلی تو نہیں پکڑنی پڑتی، مگر اپنے فکروعمل کے ذریعے میدان میں اترنے والے نوجوانوں کو نئے راستے ضرور دکھائے جاتے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں طلبا کے مفادات اور معاملات تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں، مذہب ،سماج اور سیاست اس کے ذہن میں جگہ بنا چکی ہوتی ہے، مخلوط نظامِ تعلیم کی بنا پر سرگرمیوں میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ تمام دنیاوی معاملات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مختلف معاملات میں جب لوگوں کے مفادات وابستہ ہوں تو وہاں تنازعات کا جنم لینا فطری عمل ہے۔ ایسے میں دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے جتنے حربے ہو سکتے ہیں، ہر کوئی اپنی صوابدید، ذہنی سوچ اور مالی حالت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ یوں ان اداروں میں ہر نوع کے طلبا اور آزادی کی صورت میں غیر طلبا عناصر بھی اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہاسٹلوں میں مشکوک سرگرمیاں بھی جنم لینے لگتی ہیں۔ بوائز ہاسٹل میں مشکوک لوگ پائے جاتے ہیں، اسلحہ کی نمائش بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے، نشہ آور اشیاء پر ظاہر ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف گرلز ہاسٹلوں میں بھی اسلحہ پایا جانے لگا ہے، لیپ ٹاپ کی چوری کی متعدد وارداتیں سامنے آتی ہیں، ان کے علاوہ بھی کچھ ان کہی اور ناقابلِ تحریر باتیں سامنے آتی ہیں۔ صدمے والی بات یہ ہے کہ جامعات کی انتظامیہ تمام تر دعووں او ر کوششوں کے باوجود اپنے ہاسٹلز کو بدقماش اور بیرونی عناصر سے خالی نہیں کروا سکے۔ یہ الگ داستا ن ہے کہ دہشت گردی کے ضمن میں اسلام اس قدر بدنام ہوچکا ہے کہ بے ضرر اور منظم تبلیغی جماعت کو بھی اداروں میں جانے سے روکا جا رہا ہے۔ تبلیغی جماعت کے بارے میں کسی کو کچھ بھی اختلاف ہو، کم از کم اسے دہشت گردی کے خدشے کے کھاتے میں لانا بلکہ سوچنا بھی زیادتی ہے۔ یہ لوگ سیاست ، فرقہ پرستی اور دیگر کثافتوں سے تقریباً پاک ہوتے ہیں، تشدد پسند کسی بھی واقعہ میں ان کا ملوث ہونا ناممکن کے قریب ہی ہوتا ہے، ان لوگوں کی غیر جانبداری پر مستقل کاربند رہنے کی وجہ ہی ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ سمیت انہیں کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیمی اداروں سے غیر طلبہ عناصر کا خاتمہ کیا جائے، ان کے ہاسٹلوں کا آپریشن کرکے اداروں کو اسلحہ سے مکمل طور پر پاک قرار دیا جائے، بیرونی عناصر ہاسٹلوں میں کسی درجے کے دہشت گرد بن کر ہی رہتے ہیں، جو طلبا وطالبات اور اساتذہ تک کو ہراساں کرکے اپنی دھونس جماتے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473391 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.