کمبل تو چپکے گا بھئی!
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی ’’رہنما‘‘پالیسی
میں تبدیلی کی ہے اور آج کل اس پالیسی پر سختی سے کاربند نظر آتی ہے کیونکہ
عزیر بلوچ کے معاملے میں لاتعلقی اس کا واضح ثبوت ہے جبکہ قرائن اور شواہد
چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ عزیر بلوچ ان ہی کی صفوں سے نکلا ہوا وہ زہریلا
تیر ہے جس نے انسانیت اور بالخصوص پاکستانیوں کی معاشرت معیشت میں اپنا زہر
گھول دیا ہے وہ زرداری کے ساتھ ہاتھ ملاتا ہوا نظر آتا ہے تو کہیں فریال
تالپور کو ان کی خواہشات و منشااور عادات کے مطابق تحفے پیش کرتا دکھائی
دیتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے پہلو میں نمایاں طور پر براجمان ہے تو
کبھی قائم علی شاہ المعروف سوئی ہوئی سرکار کے گرد طواف کرتا پایا جاتا ہے
لیکن مذکورہ بالا تمام احباب اس بات کی سختی سے نفی کررہے ہیں۔زرداری صاحب
نے جس طرح ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کو بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگادی
اپنی اور پارٹی کی رہی سہی عزت کو بھی سرعام نیلام کرکے سٹینڈ لیاباوجود اس
کے کہ وہ دونوں رنگے ہاتھوں کرپشن ملک دشمنی میں پکڑے گئے جبکہ ڈاکٹر عاصم
تو دہشت گردوں کے سہولت کار کے طورپر بھی ثابت ہوچکے ہیں ان کو ہسپتال میں
ٹریٹ منٹ دینے کے الزام بھی بھگت چکے ہیں لیکن پھر بھی آصف علی زرداری کی
سوئی اس میں اٹکی ہوئی ہے۔لیکن عزیر بلوچ کے معاملے میں بالکل لاتعلق بنے
پھرتے ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ عزیر بلوچ سے کتنا قریبی تعلق رہا ہے
اسی طرح موصوف کی ہمشیرہ فریال تالپور جن کے بارے میں مشہور ہے کہ بے نظیر
کے اس دنیا سے جانے اور آصف رزداری کے اقتدار میں آنے کے بعدپارٹی کا تمام
’’لین دین‘‘ان کے ذمہ تھا اور تحفے تحائف لینا پارٹی کے ٹکٹ بیچنا ان کی
ذمہ داری تھی وہ بھی عزیر بلوچ سے تحفے وصول کرتی منظر عام پر آچکی ہیں وہ
فرماتی ہیں کہ میں کسی عزیر کو نہیں جانتی ۔ اپوزیشن لیڈر اور پی پی پی کا
سب سے سیانا رہنما خورشید شاہ فرماتا ہے کہ دور جدید ہے سلفی کا زمانہ ہے
کسی نے تصویرمیں میرے ساتھ اتار لیا ہوگا اور ویسے بھی آجکل وی آئی پی
شخصیات کے ساتھ تصاویر بنوانا کریز کی حد تک بڑھ چکا ہے لہذامیں کسی عزیر
بلوچ کو نہیں جانتااور نہ ہی کوئی تعلق واسطہ ہے۔نثار کھوڑو عزیر بلوچ کے
نام پر تعجب و استعجاب کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پوچھنے والے سے cross
question کرتے بیٹھتے ہیں کہ یہ عزیربلوچ کون موصوف ہیں میں تو ان کو نہیں
جانتا-
بات یہ ہے کہ ایان علی ڈاکٹر عاصم اور عزیز بلوچ پیپلزپارٹی سے ایک خاص
نسبت رکھتے تھے اولذکر دونوں کیلئے تو پارٹی بھرپور انداز میں لنگوٹ کس پر
برسرپیکار ہے اور انہیں ریلیف بھی دلوادیا گیا لیکن آخر الذکر عزیر بلوچ کے
حوالے سے اول دن سے ہی میں نہ مانوں میں نہ جانوں کی رٹ لگی ہوئی ہے وہ تو
کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن کمبل ہے کہ انہیں چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے
رہا ہے ان کی جان بخشی کرنے پر رضامند ہی نہیں ہے بلکہ اب تو ایسا محسوس
ہورہا ہے کہ فیوی کول سے پارٹی کے ساتھ چپک گیا ہے عزیر بھی سوچ تو رہا
ہوگا کہ
کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی
کبھی ہم تم بھی تھے آشنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مگر مجھے یاد ہے سب کچھ ذرا ذرا۔محبت اخلاص تعلق دوستی اور بھائی چارے کے
بارے میں اصل حقائق اس وقت منظر عام پر آتے ہیں جب کوئی بھی شخص مصیبت اور
مسائل کاشکار ہوتا ہے اچھا دوست وہی ہوتا ہے جو برے وقت میں کام آئے نہ کہ
درخت پر چڑھ جائے۔یہی کچھ عزیر بلوچ کے ساتھ بھی ہورہا ہے کہ جن پر تکیہ
تھا وہ پتے ہوا دے رہے ہیں بلکہ جکھڑ چلارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک اور
دورائے نہیں کہ عزیر بلوچ بذات خود ننگ انسانیت ہے اور جس طرح سے اس نے ،اس
کے گروپ کے لوگوں نے ،اس کے سہولت کاروں اور یاروں نے ملک میں نفرت کا بیج
بویا انتشار کی فضا چروان چڑھائی عدم تحفظ کو فروغ دیا بدامنی اور
لاقانونیت کو عام کیا قتل و غارت گری سے وحشت و بربریت کی داستانیں رقم کیں
دہشت گردی کے عفریت کو بے لگام کیااور خون خرابے کا ماحول پیدا کیا خون و
بارود کی بو سے سانسوں کو متعفن کیا، نہ تو لائق ہمدردی ہے اور نہ ہی کسی
رو رعایت کا مستحق،معافی جیسے الفاظ کا تو اس سے دور پرے کا واسطہ بھی گناہ
کے زمرے میں آتا ہے جو شخص 400 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کا
اعتراف کررہا ہو گینگ وارکی سربراہی کا معترف ہووہ یقینا قابل نفرین ہے
انسان کہلوانے کا حق دار بھی نہیں اسے تو سرعام تختہ دار پر لٹکادینا چاہئے
نشان عبرت بنادینا چاہئے۔مگر اس سے قطع نظر جو لوگ اس کے اچھے وقت میں اس
کے ساتھی میں ہم پیالہ ہم نوالہ تھے دوستی کا دم بھرتے تھے یاری کا ورد
کرتے تھے آج اس سے نظریں چرارہے ہیں حالانکہ یہ سب بے فائدہ اور لاحاصل ہے
جس طرح سے وہ عزیر بلوچ وعدہ معاف گواہ بننے جارہا ہے اگر ایسا ہوا تو بہت
سوں کے سر پر تو ننگی تلوار لٹکانے کے مترادف ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ
سابقہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی اور اسکے کرتا
دھرتا عزیربلوچ کے معاملے پربھی سٹینڈ لیتے اور اسے بھی ایان علی،ڈاکٹر
عاصم و دیگر کی طرح بچانے کی کوشش کرتے اور ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت
کے مترادف ساتھ ساتھ ہوتے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ لوگ بھی تھک چکے ہیں
اکتاہٹ اور یکسانیت کا شکار ہوچکے ہیں کہ یار آخر کتنے لوگوں کو ،کن کن
لوگوں اور کس کس معاملے میں سابقہ صدر ان کے اہل خانہ ان کے دست راست یاروں
کو بچائیں گے لہذا اپنی جان بچائیں اور اس بات کا ورد کریں کہ میں نہیں
جانتا میں نہیں مانتا کیونکہ جان ہے تو جہاں ہے پیارے۔ |
|