کشمیر یوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ابتدا
16 مارچ 1846ء کو ہوئی جب نگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ ’’معاہدہ امرتسر‘‘
کی کے ذریعے کشمیر کا سودا کیا گیا ۔جولائی 1931ء کو سری نگر جیل کے احاطے
میں کشمیریوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں 22 مسلمان شہید اور 47 شدید
زخمی ہوئے تو آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے
’’کشمیر کمیٹی‘‘ قائم کی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سربراہ
مقرر کیا۔ 1934ء میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار
یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی تھی۔ سنہ
1946ء کا ذکر ہے قائد اعظم نے سرینگر کا دورہ کیا۔اسی دورے کے دوران انہوں
نے کشمیر کو پاکستان کی’’شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا۔ سردار ابراہیم خان کے گھر
سری نگر میں19 جولائی1947ء کو باقاعدہ طورپر ’’قرار داد الحاق پاکستان
‘‘منظورہوئی ۔جسے نظر انداز کر دیا گیا۔تو مولانا فضل الہی کی قیادت میں 23
اگست 1947 ء کو نیلابٹ کے مقام سے مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ 15 ماہ کے
مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ اس پرپنڈت جواہر لعل نہرو
اقوام متحدہ پہنچ گئے اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست میں
رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی عوام کی خواہشات کے
مطابق کریں گے ۔ بھارت اپنے اس وعدے سے منحرف ہو چکا ہے ۔
چند دن قبل میرا ایک جنرل سٹو کی دکان پر جانا ہوا ۔دیوار پر ایک بورڈ
آویزاں تھا ۔جس پر لکھا ہوا تھا ۔’’کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے‘‘اس
فقرے نے مجھے جکڑ لیا ۔کیا ہم نے ذہنی طور پر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ
’’کشمیر آزاد نہیں ہوگا ‘‘اس فقرے کا تو یہ ہی مطلب بنتا ہے کہ نا کشمیر
آزادہوگا اور ناہی ادھار دینا پڑے گا ۔پاکستان کی شہہ رگ کشمیرکب آزاد
ہوگا؟ہر سال 5 فروری کو یہ سوال پاکستان میں ہر بچے ،بوڑھے اور جوان کی
زبان پر ہوتا ہے ۔کشمیر کے ساتھ اس لفظ مقبوضہ کولگے ہوئے ایک طویل عرصہ
گزر چکا ہے۔ اور نہ جانے ابھی کتنی دیر تک یہ لفظ یونہی رہے گا۔ایک دن
کشمیر ضرور آزاد ہوگا ۔اور وہ دن دور نہیں ہے ۔کسی بھی قوم کو دوسری قوم
ہمیشہ جبر کے ذریعے اپناغلام بنا کرنہیں رکھ سکی ۔تاریخ عالم اس کی گواہ ہے
۔کل کی ہی بات ہے کہ روس سے چھ سے زائد ممالک نے آزادی حاصل کی ہے ۔بھارت
اور پاکستان بھی کبھی غلام تھے ۔اس سے پہلے اس دنیا پر بڑے بڑے ظالم ،جابر
آئے اور مٹی میں مل گئے ۔تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے ،اور موجودہ زمانہ میں
اقوام عالم کے بدلتے رنگوں ،کشمیر میں بھارت کے بڑھتے ظلم وستم ،کشمیر یوں
کی آزادی کے لیے تڑپ اور قربانیاں ایک دن رنگ لائیں گئیں ۔اور آزادی کی صبح
طلوع ہوگی ۔
دوسرا سوال جو ہمارے ذہنوں کو بے قرار کرتا ہے وہ ہے ۔کیاکشمیر کے مسئلہ کا
حل ممکن ہے ؟
جی بالکل مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔کشمیر کو آزاد کروانے کے لئے عملی
اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں،
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسا لائحہ عمل اپنائیں، جس کی وجہ سے کشمیری
بھائی آزادی سے ہمکنار ہو سکیں۔سب سے پہلے تو وزرات کشمیر کو ایکٹو کیا
جائے ۔ کشمیر کمیٹی کے عرصہ دراز سے مولا نافضل الرحمن چیئرمین چلے آ رہے
ہیں ۔پاکستان اپنے ہم نوا ممالک سے مل کر کشمیر کے مسئلہ کے لیے پورے زور
سے عالمی سطح پر آواز اٹھائے ۔کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے ۔مقصد یہ ہو کہ
کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دیا جائے ۔ کشمیری جس ملک کے ساتھ چاہتے ہیں
،اس سے الحاق کر لیں۔ یا اگر وہ الگ ریاست بنانا چائیں تو ان کے اس حق میں
رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔اقوام متحدہ پر زر دیا جائے کہ وہ خود اپنی فوج کشمیر
میں بھیج کر رائے شماری کرائے ۔ تحریک آزادی کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر کے
عین مطابق ہے اور پاکستان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ حکومت اعلان کرے کہ
ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر کوئی اندرونی یا بیرونی
دباؤ قبول نہیں کریں گے ۔کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ 30لاکھ عوام
ہندوستان سے آزادی چاہتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں ہندوؤں کی غلامی قبول
کر نے کو تیا ر نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ جو استصواب رائے کروائے اس رائے شماری میں چار آپشن ہوں ،کیا
کشمیری اپنا الحاق بھارت سے کرنا چاہتے ہیں ،پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں یا
چین سے اس کے علاوہ کیاوہ آزاد الگ ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔یہ سوال کشمیر
کے تینوں حصوں میں بسنے والے کشمیریوں سے ہو ۔جس میں مقبوضہ کشمیر ،آزاد
کشمیر ،گلگت ،بلتستان ،اور اکسائی چن کے علاقے شامل ہیں ۔ اس وقت وادی
کشمیر کے تین حصے ہو چکے ہیں ۔
ایک مقبوضہ کشمیر اس پر بھارت کا قبضہ ہے ،اس کا دارالحکومت سری نگر ہے
۔بھارت کے زیر تسلط وادی کشمیر کا سب سے بڑا حصہ یعنی 387101 مربع کلومیٹر
پر ہے ۔مضبوضہ کشمیر میں 8لاکھ بھارتی فوجی و نیم فوجی تعینات ہیں ۔دوم
آزاد کشمیر یہ پاکستان سے ملحق ہے ،اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے ۔پاکستان
کے زیر انتظام 84685 مربع کلو میٹرکا علاقہ ہے۔سوم اکسائی چن کشمیر ،یہ چین
کے زیر انتظام ہے ۔ اس کا رقبہ 55537 مربع کلومیٹر ہے ۔مقبوضہ کشمیر
پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے ۔پاکستان اسے اپنی شہہ
رگ اور بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت
رکھتے ہیں، اب تک ان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں ۔1947ء کی جنگ ، 1965
ء کی جنگ اور کارگل کی 1999 ء کی جنگ ہو چکی ہے ۔
یوم یکجہتی کشمیر کی ابتدا امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے 5جنوری
1989ء کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے کی تھی ۔اس کے بعد اب تک
ہر سال 5 فروری کو آزاد و مقبوضہ کشمیر ‘ پاکستان اور دنیا بھر میں یوم
کشمیر منایا جا رہا ہے اور ان شا اﷲ کشمیرکی آزادی تک یہ سلسلہ جاری رہے
گا۔ |