تعلیمی اداروں پرنظربد:حل اورتدارک

2014کے لوک سبھاالیکشن سے قبل جوخدشات ظاہرکئے جارہے تھے ،اب ایک سوایک فیصددرست ثابت ہورہے ہیں۔انتظامیہ اوراعلیٰ عہدوں پرتوبھگواکنبہ کے افرادکوپہلی فرصت میں ہی براجمان کردیاگیاہے ۔مودی حکومت کامنصوبہ ہے کہ پانچ سال میں ہی مسلمانوں کووہاں پہونچاکرہی دم لیاجائے جہاں کانگریس نے پچاس برسوں میں پہونچانے کی کوشش کی۔ان کی تعلیمی ،معاشی اورسیاسی پسماندگی کے جرم میں کانگریس برابرکی مجرم ہے۔فرق یہ ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے استحصال کیلئے جوعزائم درپردہ رکھے تھے،مودی سرکارکھل کرانہیں عملی جامہ پہنارہی ہے۔بی جے پی کواقتدارمیں آنے کیلئے اتنی محنت نہیں کرنی پڑی جتنی آسانی کانگریس نے فراہم کی۔بی جے پی اورسنگھ پریوارکے لیڈرجو فرضی انکاؤنٹروں اورمختلف حملوں میں ملزم تھے،ان کومکمل ڈھیل دی گئی۔کانگریس سرکارچاہتی توخوداسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اورنہ اس کی اعلیٰ قیادت کوعدالت کے چکرکاٹنے پڑتے ۔پھروہ سوئے چمن آتاہے خداخیرکرے رنگ اڑتاہے گلستاں کے ہواداروں کا۔
2014کے لوک سبھاالیکشن سے قبل جوخدشات ظاہرکئے جارہے تھے ،اب ایک سوایک فیصددرست ثابت ہورہے ہیں۔انتظامیہ اوراعلیٰ عہدوں پرتوبھگواکنبہ کے افرادکوپہلی فرصت میں ہی براجمان کردیاگیاہے ۔مودی حکومت کامنصوبہ ہے کہ پانچ سال میں ہی مسلمانوں کووہاں پہونچاکرہی دم لیاجائے جہاں کانگریس نے پچاس برسوں میں پہونچانے کی کوشش کی۔ان کی تعلیمی ،معاشی اورسیاسی پسماندگی کے جرم میں کانگریس برابرکی مجرم ہے۔فرق یہ ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے استحصال کیلئے جوعزائم درپردہ رکھے تھے،مودی سرکارکھل کرانہیں عملی جامہ پہنارہی ہے۔بی جے پی کواقتدارمیں آنے کیلئے اتنی محنت نہیں کرنی پڑی جتنی آسانی کانگریس نے فراہم کی۔بی جے پی اورسنگھ پریوارکے لیڈرجو فرضی انکاؤنٹروں اورمختلف حملوں میں ملزم تھے،ان کومکمل ڈھیل دی گئی۔کانگریس سرکارچاہتی توخوداسے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے اورنہ اس کی اعلیٰ قیادت کوعدالت کے چکرکاٹنے پڑتے ۔پھروہ سوئے چمن آتاہے خداخیرکرے رنگ اڑتاہے گلستاں کے ہواداروں کا۔
مودی سرکاراقلیت دشمنی پرکھل کرسامنے آگئی ہے۔اسے لفظ سیکولرزم سے سخت نفرت ہے،اقلیتوں کے مفادکی کوئی بات ووٹ بینک کی پالیسی نظرآتی ہے۔آئین ہندکی دفعہ 30نے ہرشہری کواس کاحق دیاہے کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے کھولیں اوراپناتعلیمی انتظام کریں۔حکومت ہندآئین کی اس روح کوختم کرناچاہتی ہے جوکسی بھی صورت میں ناقابل قبول ہے۔ترقی ،مہنگائی ،بدعنوانی کے سارے محاذپرناکام ہونے کے بعدصرف فرقہ پرستی کے سہارے ملک پرراج کرناچاہتی ہے ۔اپنی اسی ناکامی کوچھپانے کیلئے وہ مختلف ایشوزاٹھاکرملک کوالجھاکررکھناچاہتی ہے۔تاکہ عوام کی توجہ ترقیاتی امورسے ہٹی رہے ۔کیاہے جواس حکومت میں نہیں ہوایانہیں ہورہاہے ،بوئے گل،نالہ دل،دودِچراغِ محفل جوتیری بزم سے نکلاسوپریشاں نکلا۔

دہلی یونیورسیٹی میں بی جے پی کے پالیسی سازلیڈرسبرامنیم سوامی نے فرقہ پرستی کوجس طرح ننگاناچ ناچا،وہ اس حکومت کی تاناشاہی کی منہ بولتی تصویرہے۔آپ لاکھ کچھ کہیں ،کچھ کریں ،ان کی صحت پرکوئی فرق پڑنے والانہیں ہے۔دہلی یونیورسیٹی میں رام مندرکامسئلہ اٹھانا،اشتعال انگیزقدم کیوں نہیں ہے۔اس لئے یہ سوال بالکل بجاہے کہ رام مندرکے موضوع کاتعلق کس طرح یونیورسیٹی سے ہے اوروہاں اینٹ پیش کرکے وہ کیاپیغام دیناچاہتے تھے۔دراصل آرایس ایس سرکار تعلیمی اداروں میں جہاں نظام اورنصاب کومتاثرکررہی ہے،نئی تعلیمی پالیسی بناکراس کے قدروں کوپامال کرناچاہتی ہے وہیں طلبہ میں اشتعال انگیزی کوفروغ دے کرنئی نسل کے ذہن اورمزاج میں فرقہ پرستی کازہرگھول رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے جب یہ طلبہ نکلیں اورجس بھی محکمے میں جائیں ،مسلم دشمنی ان کی رگ رگ میں سرایت کی ہوئی ہو۔ویسے آپ کسی محکمے میں جائیں ،اگرداڑھی اورٹوپی کے ساتھ ہیں توان کے رویہ میں فرق بآسانی معلوم ہوجاتاہے۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ جس پریوارکاجنگ آزادی میں کوئی رول نہیں رہاوہ مدارس کوحب الوطنی کاسبق سکھاناچاہتی ہے۔جہاں کے جیالوں نے وطن عزیز کیلئے جانیں قربان کرنے اورحب الوطنی کادرس سکھایاہے،ان پرسوال کھڑے کرنااوربابائے قوم کے قتل کے مجرم گوڈسے کے نظریات کے علمبرداروں کامشورہ ذہنی دیوالیہ پن کی کھلی دلیل ہے۔
اسی طرح اب سنگھ سرکارعلی گڑھ مسلم یونیورسیٹی پرحملہ آورہے۔اسے اس سے تکلیف ہے کہ اس کے نام کے ساتھ’’مسلم ‘‘کیوں ہے،وہ اسے مذہبی بھیدبھاؤقراردے کرختم کرناچاہتی ہے لیکن حکومت کے پاس اس کاکیاجواب ہے کہ بنارس ہندویونیورسیٹی سے لفظ ’’ہندو‘‘کیوں نہیں ہٹناچاہئے۔اے ایم یوکے اقلیتی کردارکے حوالہ سے اس کی دلیل یہ ہے کہ تعلیمی شعبوں میں کسی مذہب کی بنیادپرکوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے لیکن سرکارعیسائیوں اورسکھوں کے کالجزاسی طرح آرایس ایس کی مختلف شاخوں کے ذریعہ چلائے جانے والے تعلیمی مراکزکاکیاکرے گی۔ ویسے تواے ایم یوکے اقلیتی کردارکی موجودہ صورتحال کیلئے یوپی اے سرکاربھی مجرم ہے جس نے اس معاملہ کو لٹکاکررکھا۔اسی لئے بڑی آسانی سے سپریم کورٹ میں دائرپٹینشن اٹارنی جنرل نے واپس لے لی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تین ماہ قبل اعلان کیاتھاکہ انجینئرنگ کے امیدوارطلبہ کاداخلہ اب جے اے ای مینس کے ذریعہ ہوگا۔ دلیل یہ تھی کہ اس سے بہترمعیارحاصل کیاجاسکتاہے۔اس وقت اس خدشہ کااظہارکیاجارہاتھاکہ کہیں یہ جامعہ کے اقلیتی کردارپرحملہ کی خفیہ منصوبہ بندی تونہیں ہے ۔مسلم طلبہ کی یہ استطاعت نہیں ہوتی ہے کہ وہ مہنگی کوچنگ کرکے مقابلہ جاتی امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی درج کراسکیں،ایسی صورت میں اس کے اقلیتی کوٹہ کاکیاہوگانیزان غریب اقلیتی طلبہ کے پاس جامعہ ملیہ کی شکل میں ایک متبادل ہوتاتھا،جے اے ای مینس کے ذریعہ اس آپشن کوخوبصورت عنوان کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ اس وقت حکومت کی نیت کاصحیح اندازہ نہیں لگایاجاسکا۔یہ خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب حکومت نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس کے اقلیتی کردارپرکھل کرحملہ بول دیااورواضح طورپرکہا کہ جامعہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔سرکار تاریخ بدلنے ،نصاب میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کارناموں کوبھی حاشیہ میں رکھنے کی کوشش کررہی ہے ضرورت ہے کہ جہاں حکومت کواس قدم سے بازرکھنے کی اجتماعی جدوجہدکی جائے ،اپنے اسلاف کی قربانیاں جوان دونوں اداروں کی شکل میں آج بھی زندہ ہیں،کے تحفظ کی کوشش کی جائے وہیں ان اداروں میں حکومت کی خفیہ منصوبہ بندی سے بھی ہوشیاررہاجائے ۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ این آئی ٹی اوردیگرمقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم بچوں کافیصدتوپہلے ہی کم ہے۔ایک وجہ تومسلم بچوں کی گائیڈنہیں ہوپاتی،دوسرے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری ویسے بھی نہیں ہے نیز گارجین کوصحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان مقابلہ جاتی امتحانات کی معلومات بھی نہیں ہوتیں اورنہ ان کاذہن اس طرف عموماََجاتاہے۔پھرمسلمانوں کی معاشی حالت مہنگی کوچنگ کی متحمل نہیں ہے۔ایسے حالات میں رحمانی تھرٹی نے آئی آئی ٹی،آئی پی ایم ٹی جیسے مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے مسلم طلبہ کی تعلیمی کفالت کی کامیاب راہ دکھائی ہے۔رحمانی فاؤنڈیشن کے ذریعہ انجینئرنگ،میڈیکل،چارٹراکاؤننٹ جیسے اہم شعبوں کیلئے نہایت حوصلہ افزااقدامات ہوئے ہیں۔حالیہ دنوں میں اولمپیاڈمیں رحمانی تھرٹی کے طلبہ کی شاندارکامیابی،اس بات کی ضمانت ہے کہ اگرمسلم بچوں کی صحیح تربیت،ان کی تعلیمی کفالت اورمقابلہ جاتی امتحانات کیلئے انہیں تیارکیاجائے توبہترنتائج سامنے آئیں گے۔اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔اوریہ کام ہرریاست ،ہرعلاقہ اورخطہ میں بڑے پیمانہ پرکرناچاہئے ۔حکومتیں تورکاوٹیں کھڑی کریں گی،ہماراکام جہاں ایک طرف اپنے حقوق کی بازیابی کی جدوجہدہے وہیں دوسری طرف تعمیری فکرکے ساتھ عصری تعلیمی اداروں اورکوچنگ سنٹروں کاقیام کرکے ایک تعمیری پیغام دیناچاہئے کہ لاکھ راستے دشوارہوں،تعمیرکاسلسلہ جاری رہے گا،گذرگاہ کتنی مشکل ہواپناراستہ ہمیں خودنکالناہے۔راستے توبنائے اورنکالے جاتے ہیں،حوصلہ وہمت اورعزم مصمم ہوتوپہاڑبھی راستہ دے سکتاہے۔ویسے بھی ہمارے پاس پہلے تھاہی کیا،جولٹ جانے کاغم ہو،لیکن جوکچھ ہے اسے بچانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی طرف بھی دیکھناہوگا۔گھرمیں تھاکیاکہ تراغم اسے غارت کرتا وہ جورکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر،سوہے۔

ایک دوسرے پرطعن وتشنییع بہت چکی،منفی ذہنیت اورتخریبی فکر نے اب تک ملت اسلامیہ کوبہت نقصان پہونچایاہے۔لیکن جوہوچکا،جانے دیجئے ۔آئیے آگے بڑھ کراختلافات کوبھلاکرتعمیری فکرکے ساتھ آگے بڑھیں۔مسلمانوں کے درمیان تعلیمی بیداری کیلئے ورکشاپ کااہتمام کریں اورملت کے سرمایہ کوملی مفادمیں خرچ کرنے کے عادی بنیں۔نشیمن پرنشیمن اس قدرتعمیرکرتاجا کہ بجلی گرتے گرتے آپ خودبیزارہوجائے ۔امیرشریعت سابع مولانامحمدولی رحمانی دامت برکاتہم جو رحمانی فاؤنڈیشن اورحمانی تھرٹی کے ذریعہ تعلیمی بیداری پیداکرکے مسلمانوں کوپہلے ہی ایک نئی جہت دے چکے ہیں اورمختلف طرزپرسماجی اورتعلیمی کام کررہے ہیں ، امارت کے پلیٹ فارم سے بھی وہ ان میدانوں میں مزیدپیش رفت کریں گے چنانچہ انتخاب کے بعدپہلی ہی مجلس عاملہ میں امیرشریعت سابع نے جہاں امارت کے نظم وضبط کاتفصیلی جائزہ لیا،وہیں اہم فیصلہ کرتے ہوئے سی بی ایس ای کے طرزپرمختلف اضلاع میں اسکول کھولنے ،تکنیکی اداروں اورمیڈیکل کالج کے قیام کافیصلہ بھی کیاہے جونہایت خوش آئندقدم ہے۔امیرشریعت بڑی سنجیدگی کے ساتھ امارت شرعیہ کے وقارواعتبارمیں اضافہ ،اس کی خدمات کی توسیع اورسماجی مشن کے فروغ میں لگے ہیں۔رامارت شرعیہ امیرشریعت دامت برکاتہم کی سربراہی میں اہم اقدامات کرے گی ۔ہماری ذمہ داری ہے کہ امارت کے تعلیمی وسماجی مشن کاساتھ دیں۔اس کے علاوہ دیگرملی تنظیموں کوبھی چاہئے کہ اس سمت میں اپنی اپنی سطح پرکوششیں کریں۔حکومت اس پالیسی پرگامزن ہے کہ مسلمانوں کے تشخص اوران کی پہچان مٹادی جائے۔انہیں دوسرے ہی نہیں ،تیسرے نمبرکاشہری بنادیاجائے۔وہ مسلمانوں کوانہی چیزوں میں الجھاکرکوئی تعمیری کام نہیں کرنے دیناچاہتی اورپانچ برسوں میں وہ سب کرناچاہتی ہے جس کی منصوبہ بندی ساٹھ برسوں سے جاری تھی۔جوقت آگیاہے کہ ہم بیدارہوکراپنے حقوق کی بازیابی کی کوشش کریں اور مثبت فکرکے ساتھ آگے بڑھیں۔
محمدشار ب ضیاء رحمانی
About the Author: محمدشار ب ضیاء رحمانی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.