تعلیمی اداروں کی بندش مسئلہ کا حل نہیں
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کالم نگاری میرا شوق ہے ذریعہ معاش نہیں،
یہ’ سیلف امپوز‘ ذمہ داری ہے اسے میں اسی طرح ادا کرتا ہوں جس طرح میں اپنے
کام دورانِ ملازمت کیا کرتا تھا۔ عام طور پر دو دن میں ایک کالم لکھتا ہوں،
آج دوسرا دن ہوگیا تھا ،میں کچھ خامو ش خامو ش سا تھا ،لکھنے کی جانب طبیعت
مائل نہیں ہورہی تھی ۔میری بہو ڈاکٹر ثمرا کچھ محسوس کرتے ہوئے گویا ہوئی
کہ ابو لگتا ہے کہ آپ اپنے کالم کے بارے میں کچھ سوچ رہے ہیں، میں خاموش
ہورہا، پھر بولی ابو ایسا کریں کہ تعلیمی اداروں کی جبری بندش کے حوالے سے
کچھ لکھیں ،اس موضوع پر آپ نے ابھی تک نہیں لکھا۔ میرے ذہن میں کوئی اور
موضوع تھا لیکن میری سوچ کا دھارا اس جانب ہوگیا۔ حکومت پنجاب نے اسکولوں
کوجبری بند کیوں کیا؟ اس حوالے سے یہ خبر میری نظر سے گزر چکی تھی کہ پنجاب
میں تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ افغانستان سے13خود کش بمبار پاکستان
میں داخل ہونے کی اطلاع پر کیا گیا۔ پاکستان فوج کے زیر انتظام تعلیمی
ادارے ، پنجاب کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروے بند کردیے گئے۔ ، اس کے
علاوہ ملک بھر میں جامعات ‘ کالجوں اور اسکولوں میں سکیورٹی الرٹ کردی
گئی۔فوری طور پر یہ اقدام درست تھا، کسی بھی حادثہ سے بچاؤ کا ایک یہ بھی
راستہ تھا جو اختیار کیا گیالیکن سوچ نے بات یہ ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے
واقعہ کو ابھی ایک سال ہی گزرا ہے کہ پشاور کے ایک اور تعلیمی اداروے میں
اسی نوعیت کا واقع رونما ہوگیا۔ 16دسمبر2014 ء سے 20جنوری 2016ء کے درمیان
ایک سال ایک ماہ تین دن میں سکیورٹی کے حوالے سے ہم نے کیا اقدامات کیے۔
امریکہ میں 9/11کے بعد دہشت گردی کاکوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا،
برطانیہ نے 7/7کے بعد آخر ایسے کون سے اقدامات کیے کہ دہشت گردوں نے ادھر
کا رخ نہیں کیا، اب فرانس میں بھی شاید ہی کوئی اور واقعہ دہشت گردی کا ہو
لیکن ہم کیسی قوم ہیں، کیسی حکومت ہے ہماری کہ ہم اس حوالے سے وہیں کہ وہیں
کھڑے ہیں، دہشت گرد آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوئے کاروائی کی ، جان دی اور
چلتے بنے، ایک سال بعد باچا خاں یونیورسٹی میں آئے کاروائی کی ، جان دی اور
کام کردکھا یا۔ ہم نے پہلے بھی زبانی جمع خرچ کیا اور اب بھی وہی کچھ کر
رہے ہیں۔
دہشت گردوں کا تعلیمی اداروں کے معصوم بچوں کو نشانہ بنا نا اس قدر گھناؤنا
فعل ہے کہ اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ دہشت گرد
اس قدر سفاک اور سنگ دل ہیں کہ معصوم اور پھولوں پر گولیاں برساتے ہوئے ان
کی ہاتھ نہیں لرزتے، ان کا ضمیر کس طرح انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ
وہ پھولوں کو خون میں نہلا دیں۔ لیکن ایسا ہوا ، پشاور کے آرمی پبلک اسکول
میں دہشت گردوں نے نہتے ، معصوموں کو خون میں نہلا دیا، ان پر اس قدر گولیا
ں برسائیں کہ وہ پھول اپنے اساتذہ کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت
ہوگئے۔ 16دسمبر2014ء جس دن دہشت گردوں نے سفاکیت ، بربریت کی ایسا مثال
قائم کی تھی کہ دنیا میں شاید ہی کوئی اور مثال ایسی مل سکے۔ اس دن کتنی ہی
ماؤں کے لخت جگر خون میں نہالا دیے گئے، ماؤں پر قیامت گزر گئی، زمین کانپ
اٹھی تھی، آسماں لرزگیا تھا ، شجر تھر ا گئے تھے، پہاڑ
بیقراری کے عالم میں آگئے تھے، انسان تو انسان جانوروں نے بھی اس بر بریت
پر اشک بہائے ہوں گے، پھولوں کو لہو لہان دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار ہوئے
بغیر نہ رہ سکی۔132 معصوم بچے اوردیگر 9 افراد شہید کر دیئے گئے تھے۔کمسن
معصوم پھول دہشت گردوں کے ہاتھوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے لیکن اپنے
پیچھے ایک ایسی درد ناک داستاں چھوڑگئے جو زندگی بھر ان کی یاد دلاتی رہے
گی۔ مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو پل پل یاد کرتی رہیں گی، اشک بہاتی رہیں
گی، بہنیں معصوم بھائیوں کو یاد کر کے خون کے آنسوں بہائیں گی۔ باپ اپنے
جگر گوشوں کی یاد کے آنسوں اپنی آنکھوں سے باہر نکلنے نہ دیں گے بلکہ ان کی
آنسوں کا سمندر ان کے جگر کو اندر ہی اندر چھید ڈالے گا۔ معصوم پھولوں کے
جنازے اٹھے تو ایک کہرام بپا ہوا، اشکوں
کا سیلاب رواں تھا، آہواور سکیوں میں پھولوں کے جنازوں کو ان کی آخری آرام
گاہ تک پہنچا یا ۔ ابھی اس غم کو ایک سال ہی گزرا تھا کہ دہشت گردوں نے
20جنوری2016 ء کو خیبر پختونخواہ کے شہر چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے
طلباء، اساتذہ اور عملے کو نشانا بنایا۔ جس میں دو درجن سے زیادہ طالب علم
، استاد اور دیگر شہید ہوئے جب کے بے شمار زخمی ۔ یکم فروری کو کراچی کے
ایک نجی اسکول کے باہر کچھ پوسٹر دیکھے گئے جس میں دہشت گردوں نے دہشت گردی
کرنے کی دہمکی دی جس کے باعث اسکول میں خوف و ہراس پھیل گیا والدین اپنے
بچوں کو فوری طور پر اسکول سے گھر لے گئے۔ دہشت گردی کی تمام کاروائیوں میں
دہشت گرد تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتے ہیں یعنی ہماری لاء انفورسمنٹ
ایجنسیز انہیں جہاں تک ممکن ہوتا ہے کم سے کم وقت میں ان کا صفایا کردیتی
ہیں لیکن دہشت گرد تو اس ارادے سے ہی کاروائی کرنے کے مقام پر داخل ہوتے
ہیں کہ انہیں اپنی جان دینی ہے، اگر کوئی دہشت گرد پولیس اور فوج کے ہاتھوں
بچ بھی جاتا ہے اور اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اسے اب پکڑلیا جائے گا تو وہ
اولین فرصت میں خود کو بم سے اڑا لیتا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی میں دہشت
گردی کے بعد مختلف قسم کی دہشت گردی کی خبریں گردش کرتی رہیں جس کے باعث
اسکولوں کو بند کرنا پڑا ، خاص طور پر پنجاب میں اسکولوں کی حفاظتی اقدامات
، نہ مناسب سکیو رٹی کے باعث اسکولوں کو بند کردیا گیا، گو اب یہ کھل چکے
ہیں، نجی اسکولوں کے مالکان نے حکومت کو سکیو ریٹی فراہم کرنے کا مطالبہ
کیا اور اس وقت تک اسکولوں کو بند رکھنے کا کہا جب تک حکومت اسکولوں کو فو
ل پروف سیکیوریٹی فراہم نہیں کردیتی۔
پنجاب حکومت کے اس اقدام کو جس میں تمام اسکولوں کو بند کردیا گیا نہ مناسب
قرار دیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ نے حکومت پنجاب کے اس اقدام پر تنقید کی،
میاں نواز شریف نے بھی اس اقدام کو غیر مناسب قراردیا۔ حکومت پنجاب کے اس
عمل سے صوبے میں خاص طور پر بچوں میں خوف و حراس ، بے یقینی کی کیفیت پیدا
ہوجانا قدرتی عمل تھا۔ اس لیے کہ دہشت گردی پختونخواہ میں ہوئی اور پنجاب
کی حکومت نے اسکولوں میں مناسب سکیو ریٹی انتظامات نہ ہونے کے باعث بند
کردیا، یہی نہیں بلکہ پنجاب میں ایسی باتیں بھی سامنے آئیں کہ جن سے استاد
کے مرتبے کی توہین ہوئی، استاد کا وقار مجروح ہوا۔ سکیوریٹی سے ایک استاد
کاکیا تعلق یہ تو حکومت یا نجی اسکولوں کی انتظامیہ کا کام ہے۔ تعلیمی
اداروں کی بندش مسئلہ کا حل نہیں ، یہ تو بہت ہی عارضی اور کمزور حکمت عملی
کا اظہار ہے، دشمن اور دہشت گرد یہی تو چاہتا ہے کہ اس کے اقدامات سے خوف
پھیلے، بے یقینی کی فضاء پیدا ہو اس عمل سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔
مسئلہ کی بنیاد ، اصل کاز کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ کیڑا لگے درخت کے
پتوں، ٹہنیوں حتیٰ کے تنے کا علاج نہ کریں بلکہ درخت کی جڑوں کے علاج کی
ضرورت ہے ۔ضرب عضب کے ذریعہ دشمن اور دہشت گرد کے ٹھکانوں پر مسلسل کاروئی
کی جارہی ہے، انہیں نیست و نابود کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں ، بے شمار
دہشت گرد مارے جاچکے ہیں لیکن یہ ایسا ناسور بن چکا ہے کہ قابو میں آئے
نہیں آتا۔ فوج کو جو کرنا ہوتا ہے کرتی ہے۔ اس کے تمام تر اقدامات کا نتیجہ
ہے کہ دہشت گرد اپنی کاروائیوں میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔
عارضی طور پر تعلیمی اداروں کی بندش کوئی بڑی بات نہیں لیکن کیا اس بندش کے
دوران وہ اقدامات کر لیے گئے جن مقاصد کے حصول کے لیے تعلیمی اداروں کو بند
کردیا گیا تھا۔ اگر نہیں تو یہ عمل طالب وعلموں میں دہشت اور خوف کو بڑھانے
کا باعث ہوا، اس سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے
ایک بڑے گروہ نے اسکول دوبارہ کھولنے سے منع کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ
انہیں حفاظتی انتظامات درکار ہیں جو حکومت انہیں فراہم کرے۔ کسی تجزیہ کار
نے رائے دی کہ پرائیویٹ اسکول ہر طالب علم سے اضافی رقم لیں اور اس رقم سے
وہ اسکول کے بچوں کے حفاظتی اقدامات کر لیں۔ اگر اس کی اجازت دے دی گئی تو
پرائیویٹ اسکول اسے بنیاد بنا کر خوب رقم بٹوریں گے۔ نجی تعلیمی اداروں کی
آمدنی پہلے ہی ماشاء اﷲ بہت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
ایک اسکول سے دو اور دو سے تین حتیٰ کہ مختصر وقت میں یہ تعداد درجنوں میں
پہنچ جاتی ہے۔ اسکولوں میں اضافہ مالکان کہا سے کرتے ہیں ، یہ وہ منافع ہی
تو ہے جس سے وہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین سے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے
لیے اس قسم کا مشورہ مناسب نہیں۔ حکومتی تعلیمی اداروں میں جہاں دہشت گردی
ہوسکتی ہے وہاں فوری طور پر ضروری اقدامات کیے جائیں۔ جیسے جامعہ کراچی کی
وہ دیوار جو اسکیم 33اور سچل گوٹھ کی جانب ہے اونچی کی جارہی ہے اور اس پر
خاردار تار نصب کیے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں اکثر تعلیمی اداروں نے اپنی چار
دیواری کے باہر فٹ پاتھ پر نرسریاں بنانے کی اجازت دی ہوئی ہے جیسے کراچی
یونیورسٹی روڈ پر دیوار کے کنارے کنارے بے شمار نرسریاں بنی ہوئی ہیں۔ نہیں
معلوم یہ کرایہ پر دی ہیں یا خدمات خلق ہے۔ رات کے اوقات میں یہ نرسریاں
غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ جامعہ کراچی اہم شاہراہ ہے جو چارصدہ واقعہ سے قبل تک
رات میں تاریک ہو ا کرتی تھی، چارسدہ واقعہ سے کراچی یونیورسٹی روڈ کی قسمت
روشن ہوگئی اور وہاں لائٹیں لگا نے کا عمل شروع کردیا گیا ۔ کاش ہم کسی
نقصان سے قبل ہی کوئی کام کرنے کے عادی ہوجائیں ہمیں اس وقت ہوش آتا ہے جب
پانی سر سے گزر جاتا ہے اور نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کو یقینی بنا یا جائے۔ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کی
ضرورت ہے جبری بندش مسئلہ کا حل نہیں۔ |
|