غریب عوام کی پکار

ایک خبر کے مطابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدار ت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں صف اول کے حکومتی ذمہ داران نے شرکت کی ۔ اس منعقدہ اجلاس میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان میں کرپشن سے متعلق رپورٹ بھی زیر بحث آئی۔اس اجلاس میں شریک تمام ارکان نے مذکورہ رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور خوشی کے شادیانے بجائے کہ ان کی کوششیں بارآور ثابت ہو رہی ہیں اور پاکستان کرپشن کی دلدل سے سر نکالنے لگا ہے ۔ساتھ ہی میاں صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ اداروں میں شفافیت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ میں بصد احترام میں حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ کیا کرپشن میں محض چند درجے ترقی پر ہی ہم رقص کرنا شروع کر دیں اور ان تمام خرابیوں کو در خور اعتنا نہ سمجھیں جنہوں نے عوام الناس کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔اب بھی پاکستان کا کوئی ایسا ادارہ نہیں جو کرپشن سے پاک ہو۔جہاں ناانصافی کا دور دورہ نہ ہو ۔جہاں میرٹ کی دھجیاں سر عام نہ بکھرتی ہوں ۔ جہاں قابل،دیانت دار اور محب وطن افراد کھڈے لائن نہ لگے ہوں۔جہاں خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی چاروں انگلیاں گھی میں نہ ہوں اور وہ پرکشش عہدوں پر فائز نہ ہوں۔عوام کو اچھی طرح یاد ہے مسلم لیگ ن نے معاشی بہتری کے نعرے پر سوار ہو کر مسند اقتدار کی راہ ہموار کی۔بلند و بانگ دعووں اور نعروں کے سنگ انتخابی جلسے سجائے گئے جہاں انقلابی منشور پیش کیے گئے اور عوام کو مستقبل کے سنہرے سپنے دکھائے گئے اور سادہ لوح عوام بھی ان وعدوں اور نعروں کے سحر میں جکڑ گئے اور آپ کو آنکھوں کی پلکوں پر بٹھا کر اچھے دنوں کے انتظار میں محو خواب ہو گئے۔آپ نے قوم کو لوڈشیڈگ سے جلد نجات کی نوید سنائی اور کبھی حکومتی اسرار و رموز میں اپنی تجربہ کاری کے قصے سنائے اور کبھی وطن عزیز کو ایشین ٹائیگر بنانے کا مژدہ سنایا۔کبھی لاہور کو پیرس اور کراچی کو امن کی فاختہ بنانے کا عزم دہرایا اور اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ہمیں آپ کی نیت پر تب شک تھا نہ اب ہے اسی لیے تو ہم ایک مرتبہ پھر آپ کی سیاسی کشتی میں سوار ہو گئے اور آپ واضح اکثریت سے کامیاب ہوکر تیسری مرتبہ وطن عزیز کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔پھر آپ کی حکومت نے اپنا پہلا سال پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کو دہراتے گزار دیا اور فرمایا کہ ان کے پیدا کردہ مسائل ہی اس قدر گھمبیر ہیں کہ ان کو حل کرنے میں وقت لگے گا ۔ہم نے من و عن اس بات پر بھی یقین کر لیا۔ دوسرے سال ملکی ترقی کی مدہم رفتار کو تحریک انصاف کے کھاتے میں ڈال دیا گیا جسے چارو ناچار ہم نے پھر تسلیم کر لیا۔عالیجاہ۔ اب تو حکومت سنبھل چکی ہے نہ عمران کی للکار کا خوف ہے اور نہ ہی قادری صاحب کی شعلہ بیانیوں کا سامنا۔ شاہراہ دستور بھی ٹھنڈی ٹھار ہے کوئی شورو غوغا برپا نہیں۔ سب اچھا کی رپورٹ ہے۔گلیاں سنجیاں ہیں جہاں مرضی مرزا یار پھرے۔پھر کیا وجہ ہے حکومتی کارکردگی کا گراف اس سطح کو چھونے سے قاصر ہے جس کی توقع عوام آپ سے کر رہی تھی۔لوڈ شیڈنگ جوں کی توں ہے بلکہ اب تو آئے دن گرڈاسٹیشنوں کے بریک ڈاون کے واقعات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں۔اور پھر مذید تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب تو عوام پر مسلط تھا ہی اب گیس بھی اڑن چھو ہو چکی ہے جبکہ رہی سہی کسر پانی کی کم یابی نے نکال دی ہے اور اس مسلہ نے بھی وطن عزیز کے باسیوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں اور کم و بیش تمام ہی حکومتوں نے اسکے ثمرات عوام تک منتقل کر دئیے ہیں لیکن حکومت پاکستان ان ثمرات کو عوام تک منتقل کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے ۔غریب جس کے تن پر کپڑا ہے نہ پیٹ میں روٹی۔ گھر میں گیس ہے نہ بجلی اور پانی۔کشا کش زیست میں جہنم رسید ہے ۔
 
اب اگر صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو صورتحال کچھ یوں ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ حکومت تو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکروں میں کچھ نہ کچھ ہاتھ پاوں مارتی دکھائی دے رہی ہیں مگر صوبہ سندھ اور بلوچستان کی کارکردگی جوں کی توں ہے ۔ ساکت اور جمود کا شکار ہے۔پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتحال کو جس طرح کنٹرول میں رکھا ہوا ہے قابل ستائش ہے اور ساتھ ساتھ منفرد عوامی منصوبوں کے حوالے سے خبریں بھی خوش آئند ہیں لیکن اگر ان منصوبوں کی تشہیر میں جو پیسہ برباد کیا جا رہا ہے اس پر بھی قدغن لگ جائے تو زیادہ قابل قدر بات ہو گی۔دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخواہ میں پولیس کی کارکردگی میں نمایاں بہتری کی خبریں زیر گردش ہیں اور اداروں کو مزید مربوط بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے جو حوصلہ افزا بات ہے۔ لیکن وہ تبدیلی جس کی تلاش میں خیبر پختونخواہ کے عوام سرگرداں ہیں ہنوز خواب و خیال ہے ۔اب اگر جائزہ لیا جائے بلوچستان اور سندھ حکومتوں کا تو وہ کارکردگی کے اعتبار سے بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہیں۔بالخصوص سندھی سائیں کی سرکار تو لا پرواہی کے ریکارڈ توڑ رہی ہے ۔ بے حسی کی نت نئی نئی ہوشربا داستانیں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں جن میں تازہ ترین اضافہ تھر کی ناگفتہ بہ صورتحال ہے جہاں بچے پانی کی اک اک بوند کو ترس رہے ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں ۔ ادویات اور ڈاکٹروں کی سہولت بھی متاثرہ خاندانوں کو حاصل نہیں ہے اور درجنوں بچے روزانہ مٹھی کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ پارکنگ کے لیے بے گھر کیے گئے غریبوں کی حال پکار کی بازگشت بھی میڈیا میں سنی جا سکتی ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ کرپشن کی صفائی مہم میں بھی سندھ حکومت روڑے اٹکا رہی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیر داخلہ چودھری نثار اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ زوروں پر ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر چوہدری نثار کے الزامات اور خورشید شاہ کے جوابی وار میڈیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سیاسی ڈرامہ تو چند روزہ ہے اور ختم ہو جائے گا کسی مشترکہ دوست کی مداخلت سے فریقین ایک مرتبہ پھر باہم شیرو شکر ہو جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ غریب عوام کس کے در پر دستک دے۔ کس سے سراپا سوال ہو ۔ کس پر اپنی بدحالی کا الزام لگائے۔نہ جانے حکمرانوں کو اس حقیقت کا ادراک کیوں نہیں ہے کہ انہیں مختصر عرصہ کے لیے تاج پہنایا گیا ہے ۔ ابدی حکمران تو قادر مطلق ہے۔ جو بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے۔ یہ دنیاوی بادشاہ اس کی عدالت میں جواب دہ ہیں۔ ان کی باز پرس ہو گی ۔پھر کیوں یہ اپنے اس مختصر وقت کو قیمتی نہیں بناتے ۔ عوام کی خدمت کر کے دونوں جہانوں کی بادشاہت کو اپنا مقدر کیوں نہیں بناتے ۔ لا محالہ عوامی خدمت بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔ جن حکمرانوں نے عوامی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے اور انشااللہ خدا کے حضور بھی سرخرو ہوں گے۔
abdulrazzaq choudhri
About the Author: abdulrazzaq choudhri Read More Articles by abdulrazzaq choudhri: 96 Articles with 66589 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.