غربت و مہنگائی
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
2013ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت
برسر اقتدار آئی تو اسے دہشتگردی، زوال پزیر معیشت، لاقانونیت، بجلی و گیس
کی قلت، کرپشن اور مہنگائی جیسے بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا جو کہ اسے ورثے
میں ملے تھے۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اور سوئی گیس کی قلت کا عذاب پیپلز
پارٹی کے دور میں سامنے آیا۔ رینٹل پاور منصوبوں میں کرپشن ثابت ہوئی اور
سپریم کورٹ کے حکم پر اربوں روپے قومی خزانے میں جمع بھی کروائے گئے۔ پیپلز
پارٹی کی حکومت کے دوران ہی کئی لیڈروں پر بدعنوانی کے مقدمات درج ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی گورننس پر اعتراضات ہوئے تو اس کی طرف سے اپنی کارکردگی کو
سراہا جاتا اور کہا جاتا کہ اگر اس کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں تو
وہ آئندہ انتخابات میں احتساب کر لیں گے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے
دوران مسلم لیگ ن نے زیادہ عرصہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 2013ء
میں انتخابات سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت نے
پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کی کرپشن بے نقاب کرتے ہوئے کرپٹ لوگوں
کو گھسیٹنے اور لٹکانے کے پرزور اور پرجوش اعلانات کئے گئے۔ بجلی اور گیس
کی لوڈشیڈنگ وکرپشن کو پی پی پی حکومت کی نا اہلی کا باعث قرار دیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف ہر انتخابی جلسے میں شرکاء کو بجلی کی لوڈشیڈنگ باور
کراتے اور سی این جی سٹیشنز پر گاڑیوں کی قطاروں کی طرف توجہ دلاتے۔ اس کے
ساتھ ہی عوام کو تمام مسائل حل کرنے کا یہ کہہ کر یقین دلاتے تھے کہ ان کے
پاس تجربہ کار ٹیمیں موجود ہیں۔ جبکہ نچلے درجے کی قیادت بھی عوام کو خوش
کن اعلانات سے اپنی طرف مائل کرتی رہی۔ مصائب و مشکلات میں گھرے عوام نے
مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے دعوؤں، وعدوں اور اعلانات پر اعتبار کیا، اس
پارٹی سے اپنے مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کیں اور مئی 2013ء کے انتخابات
میں مسلم لیگ (ن ) کا دامن ووٹوں سے بھر دیا۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی
، آج عالم یہ ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اپنی جگہ بدستور موجود ہے، اور عوام
کو سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی بھگتنا پڑرہا ہے۔ گیس لوڈ شیڈنگ کے
باعث گھریلو صاصارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ، سارا سارا دن سوئی گیس
غائب رہنا معمول بن گیا ہے ، غریب عوام کا چو لہا بجھ چکا ہے ، لکڑیوں اور
ایل پی جی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ جبکہ موجودہ حکومت سے انرجی
بحران کا خاتمہ تو درکنار، ناقص حکمت عملی کے باعث اس میں مزید اضافے کا
خدشہ منڈلا رہا ہے۔ بجلی کے بحران کے حل کے لئے موجودہ دور حکومت میں کئی
پراجیکٹس کا آغاز ہوا‘ مگر اب تک کوئی ایک بھی ٹھیک طور پر سرے نہ چڑھ سکا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت دہشت گردی کے علاوہ کسی ایک چیلنج سے بھی بہتر طور پر
نہیں نمٹ سکی۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی بہادر مسلح ا
فواج کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کی بیشتر قیام گاہیں، ان کے
اسلحہ خانے، کنٹرول اینڈ کمانڈسسٹم تباہ کر دیا گیا ہے، جاری آپریشن ضرب
عضب میں اب تک پاک فوج کے سپوت اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔
سول گورنمنٹ کی کارکردگی انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے، جبکہ ملکی خارجہ
پالیسی دگرگوں ہے۔بھارت کی پاکستان میں افغانستان کے ذریعے مداخلت مسلمہ ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت قوم، اقوام متحدہ اور امریکہ کو اس بارے میں آگاہ کرتی
رہی ہے۔ مگر اب وزیراعظم نواز شریف بھارت پرریشہ خطمی ہوئے جا رہے ہیں۔
اِدھر بھارت نے پٹھان کوٹ حملوں میں پاکستان کو ملوث قرار دیا ادھر
وزیراعظم نے اجلاس بلا کر جیش محمد کے قائد کو پٹھان کوٹ حملے میں ممکنہ
ملوث قرار دے کر گرفتار کرا دیا۔ اس کے باوجود بھارتی آرمی چیف اور وزیر
دفاع پاکستان کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر بھارت آئے تو پاکستان
کو پٹھان کوٹ حملے میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے کا درس دے گئے۔ جاتے ہوئے
بھارت کے ساتھ لڑاکا جہازوں کی فراہمی سمیت 14 دفاعی معاہدے بھی کر گئے۔
اوبامہ بھی پٹھان کوٹ حملے میں بھارت سے تعاون کا حکم دے رہے۔ چارسدہ حملے
کی پلاننگ افغانستان میں ہوئی جس میں جلال آباد کا بھارتی قونصلیٹ بھی شامل
تھا۔ اس پر تو بھارت سے حکومت نے کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ وزیراعظم بھارت
سے بہترین تعلقات اور دوستی کی خوش گمانی میں مبتلا ہیں۔ وزیر اعظم نواز
شریف کہتے ہیں ایران سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ سعودی
عرب جس نے آپ کے شانہ بشانہ ہونے کا اعلان کیا اس کی طرف سے ثالثی کی تردید
کر دی گئی یہ سب کچھ کمزور خارجہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔
سینکڑوں نئے منصوبوں اور سرد موسم کے باوجود لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں کوئی
کمی واقع نہیں ہوسکی۔ ملک میں غربت و مہنگائی کے عفریت کے باعث لوگ خود
کشیاں کررہے ہیں ۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 40 فیصد آبادی کو پیٹ بھر کر
کھانا نصیب نہیں ہو رہا۔ وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں کہ 2013ء کے مقابلے میں
پاکستان زیادہ خوشحال ہے۔ پاکستان کے ذمے قرضوں کا جائزہ لیں اور مسلم لیگ
ن کی حکومت کے دوران حاصل کردہ قرضوں پر نظر ڈالیں تو زر مبادلہ کے ذخائر
کی قلعی کھل جاتی ہے۔ایسے بھرے ہوئے خزانے کا کیا فائدہ جس کے ہوتے ہوئے
لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوں۔
لوگ لاقانونیت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور کرپشن کا حقیقی خاطور پر
خاتمہ چاہتے ہیں۔ جبکہ عالمی سطح پر بدعنوانی میں چند سٹپ پیچھے آنے پر
چیئرمین نیب اور ہر حکومتی شخصیت فخر کا اظہار کر رہی ہے۔ ان سے پوچھا جائے
کہ کیا کرپٹ لوگوں کے پیٹ سے کرپشن کا مال نکلوالیا گیا ہے؟ پاکستان اب بھی
کرپشن کے حوالے سے 126 ویں نمبر پر ہے ،کرپشن کے خاتمے میں سرفہرست نمبروں
میں کیوں نہیں؟ایسا کیا ہے کہ حکومت عوام کے لئے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت
رکھنے کے باوجود کچھ نہیں کررہی ہے۔ تیل کی قیمت میں عالمی مارکیٹ کے مطابق
کمی کرکے مہنگائی کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا مگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں
میں صرف 5 روپے کمی کر کے حاتم طائی بننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک میں
لاقانونیت، کرپشن، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کیلئے بے لچک اور سخت
گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔
موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار کا تقریباً دو تہائی حصہ گزار چکی ہے۔ مگر اب
بھی حکومت کو عوامی مسائل کا احساس نہیں۔ بلدیاتی الیکشن میں عوام پاکستان
نے مسلم لیگ ن پر 2013ء کی طرح اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔یہ امر حکومت کے
لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے ، کیا تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے، کہ موجودہ دور
حکومت میں بھی پیپلز پارٹی فرینڈ لی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے، کیا
موجودہ حکومت کے ساتھ بھی پیپلز پارٹی جیسا انجام ہونے والا ہے ۔ |
|