ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ابھی ایک دو سال قبل کی بات ہے، جب دہلی میں’’ یو پی اے‘‘ کی سرکار تھی ، اشیاءِ خوردونوش، پیٹرول اور ڈیژل کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ ہی ہورہاتھا،تب موجودہ بی جے پی حکومت کے کارندوں نے سر پرآسمان اٹھا لیا تھا، جگہ جگہ اس کمر توڑ رہی مہنگائی کے خلاف بھاشن اور پرچے بازی کا بازار گرم تھا، عام انسان سے لے کر سیاسی رہنماتک، ہر ایک جی بھر کر کانگریس سرکارکو جی بھر کر کوس رہے تھے اورجب سن2014 میں پارلیمانی انتخاب کا اعلان ہوا ، تو اسی مہنگائی اور بدعنوانی کو مدعا بنا کربی جے پی دہلی میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی ، مگر’’ ہرشاخ پہ الو بیٹھا ہے ،انجامِ گلستاں کیا ہوگا‘‘، یہ پارٹی یو پی اے سے بھی زیادہ جھوٹی اور مکار ثابت ہوئی،اس کا وزیر اعظم سابق کانگریسی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے بھی زیادہ خاموش طبیعت اور غیر ذمہ دار ثابت ہوا، وہ بے چارہ اگر نہیں بولتا تھا ، تو کہیں بھی نہیں بولتا تھا، مگر یہ صاحب موقع دیکھ کر بولتے ہیں اور بولنے میں ماہر ہیں ، بلکہ پھینکنے میں بھی ماہر ہیں،الیکشن سے پہلے کی ان کی تقریروں کو ملاحظہ کریں اور اب کے کارناموں پر نگاہ ڈالیں تو دونوں میں آسمان وزمین کی دوریاں نظر آئیں گی ،آج کل سوشل میڈیا پر ہمارے پی ایم صاحب کی الیکشن سے پہلے کی ایک ویڈیو خوب گردش کر رہی ہے، جس میں انہوں نے یوپی اے سرکار پر طنز کرتے ہوئے روپیے کی قیمت میں گراوٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اور لوگوں کی تالیاں بٹورتے نظر آرہے ہیں، چنانچہ اپنے بیان میں انہوں نے ہندوستانی روپیے کی قیمت کی گراوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ آج روپیے کی قیمت جس تیزی سے گرتی جارہی ہے اس کو دیکھ کر کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ دہلی سرکار اور روپیے کی قیمت کے درمیان ریس چل رہی ہو ،کس کی آبرو تیزی سے گرتی چلی جارہی ہے اور کون آگے جائے گا کوئی نہیں جانتا، اس وقت ان کا انداز ایسا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے دل میں ہندوستان اوراس کی عوام کا کتنا درد سمایا ہوا ہے، بالکل ٹھہر ٹھہر کے اور مغموم لب ولہجہ میں اپنا غم لوگوں سے بانٹ رہے تھے،مگر اب آپ بھی دیکھ لیجیے کہ روپیے کی قیمت میں کتنی گراوٹ آگئی ہے ، اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں کیا پوچھنا ، روز مرہ استعمال میںآنے والی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دیا ہے ، پیاز کی قیمت سو روپیے کے قریب پہنچ چکی ہے ، بس، ٹرین اور ہوائی جہاز کی قیمتیں بھی حد سے تجاوز کرچکی ہیں ، غرضیکہ ہر چیز اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ ہر دن لوگوں کو ایک وقت کے بعد دوسرے وقت کے کھانے کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے، کسان کھیتی سے پریشان ہے، سرکاری نوکری کرنے والے کم تنخواہ پر مہنگائی کو لے کرفکر مند ہیں ، چھوٹے موٹے تاجر اپنی تجارت سے مایوس دکھتاہے ، اس پر مستزاد سرکاری محکمے میں پہلے سے کئی گنہ بدعنوانی بڑھ گئی ہے ، رشوت خوری اور کالابازاری کا بازار گرم تر ہوگیا ہے ، ایک طرف یہ مہنگائی اور بدعنوانی ملک کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے ہیں، تو دوسری طرف اس سرکار میں فرقہ پرستی کی آگ نے پورے ملک کو جھلساکر رکھ دیا ہے ، حالانکہ انہی سب چیزوں کو مدعابناکربی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی، مگر جب کام نکل گیا، تو اپنا کام بنتا بھاڑ میں جائے جنتا، نہ توا نہوں نے فرقہ پرستی پر کوئی قدغن لگایا اور نا ہی انہیں بدعنوانی اور مہنگائی کا خیال رہا، مہنگائی کا خیال آئے بھی تو کیسے آئے،سب عالمگیراورنگ زیب تو بن نہیں سکتے، جو حکومت سے اپنی تنخواہ تک نہ لیتے تھے،یہ تو حکومت کا سارا مال ہڑپ لینا چاہتے ہیں، ان کی ضرورت کی ساری چیزیں حکومت ادا کرتی ہے، انہیں کھانے سے لے کر پینے تک، حتی کہ عیش وعشرت کی ساری سہولتیں مفت اور سبسڈی پر مل جاتی ہیں، بہترین قسم کا چاول، دال اور آنٹا انہیں اتنی معمولی قیمت پر دستیاب ہیں، کہ شاید اتنی کم قیمت میں ایک عام انسان نمک بھی نہ خرید سکے، جب ان کو ان کی ضرورت کی ساری چیزیں کم قیمت پر مہیا ہیں، تو ان کے لیے مہنگائی چہ معنی دارد؟ ان کو مہنگائی کااحساس تو اس وقت ہوتا ہے،جب وہ خود بھی کسی چیز کو اسی قیمت پر خریدتے، جتنے میں عام انسانوں کو خریدنا پڑتا ہے ، پارلیمنٹ کے ہوٹل میں جو کھانا صرف دس روپیے میں ملتا ہے ، وہی کھانا اگر باہر کسی ہوٹل میں کھائیں تو ہزاروں کے بل ادا کرنے پڑیں گے۔ الغرض جن چیزوں کومدعا بناکر،بلکہ لوگوں کو سبز باغ دکھا کر یہ پارٹی حکومت میں آئی تھی ،اس میں یہ کسی بھی حیثیت سے کامیاب نہیں ہے ،جہاں تک وزیرآعظم کا سوال ہے ، تووہ ملک سے زیادہ اپنے سوٹ بوٹ اور سیاحت پر توجہ صرف کرتے ہیں،پی ایم بننے کے بعد ان کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے ہیں؛آج کہیں کا سفر ہے، تو کل کہیں اور کے لیے پرواز، پی ایم بننے کے بعد سے اب تک سو سے زیادہ بیرونِ ممالک کے اسفار ہوچکے ہیں، پوری ہندوستانی تاریخ میں کوئی بھی وزیرِ اعظم اپنی پوری مدت میں اتنے اسفار نہیں کیے، جتنا کہ انہوں نے کوئی دوسال کی کم مدت میں مکمل کردیا ۔ ان کے اسفار کی تعداد تو امریکہ کے صدر براک ابامہ کے اسفار سے بھی کئی گنہ زیادہ ہے ، بین الممالک معاہدہ اور دوستی کے قیام کے نام پر ہر مہینے اربوں روپیوں کا خرچ ہوتا ہے ، گذشتہ سال جب بی جے پی نے اپنا پہلا بل پیش کیا تو آپ جانتے ہیں کہ اس میں اسفار کے اخراجات کتنے تھے؟۳۱۷ کروڑ..... یعنی یوپی اے حکومت سے ۵۹کروڑ زیادہ۔ گذشتہ سال مودی جی کے دبئی کے سفر میں نو کروڑ روپیے سے زیادہ کا صرفہ ہو،اس سے پہلے آپ نے یوکے کا سفر کیا تھا، اس میں بھی اس سے کئی گنہ زیادہ خرچ آئے تھے، اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگاکہ جب سے انہوں نے پی ایم کی کرسی سنبھالی ہے، اگر ان ایام اور ان کے اسفار کا موازنہ کیا جائے ،تو ان کے اسفار کی مدت زیادہ ہوگی !یہ کوئی نہیں کہتا کہ کہ وہ سفر نہ کریں، یا کسی ملک کے وزیر آعظم کو سفر نہیں کرنا چاہیے، نہیں ایسابالکل بھی نہیں ہے، اگرا سفار نہ ہوں، توپھر دو ملکوں کے آپسی معاملات کیونکر طے ہوسکتے ہیں اور ہر ملک کی اپنی ایک خصوصیت ہے، جب باہمی موافقت نہیں ہوگی، تو ہم نہ ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہم ان کی چیزوں سے کوئی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، لیکن اتنے بھی اسفار کی کیا ضرورت ہے جن سے ملک کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہو؟
 
آج ہمارا ہر شہری بھوک ، مہنگائی اور بے روزگاری سے مر رہا ہے، کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہیں، اس ملک کی دیواریں جن کے خون پسینے کے گارے اور محنت ومزدوری کی انیٹوں پر استوار ہیں ، کسی کویہ حق نہیں بنتا کہ وہ اس پر عیش کرے،پھر جب عیش ہی کرنا تھا، تو سادہ لوح غریب انسانوں کو سبز باغ کیوں دکھائے ، جب وہی کرنا تھا جو منموہن سنگھ کرکے گئے، تولوگوں کے سامنے ان کو گالیاں کیوں دی اور جب ملک کی کرنسی اتنی ہی ڈاؤن کرنی تھی تو اس کے خلاف تقریر کرکے تالیاں کیوں بٹوریَ ؟درحقیقت انگریز وں نے یہاں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا جوکارڈ کھیلا تھا، آج کے ہمارے سیاست داں اور لیڈر انہی اصولوں پر کاربند ہیں، انہوں نے ملک کی عوام کو پہلے تو ذات پات میں تقسیم کیا، پھر پارٹی کے نام پرملک کو بانٹا، کہ فلاں کانگریسی ہے، تو فلاں اس پارٹی کاممبر ہے، انہی ناموں پر انہوں نے ایک دوسرے کے جذبات اور اتحاد کاخون کیا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو بھی کسی مذہب وملت سے خواہ ہندو مذہب ہی کیوں نہ ہو کو ئی سروکار نہیں ہے،انہیں تو بس اپنی روٹی سیکنی ہے، چاہے عوام بھوکے مرجائے یا چلی بھاڑ میں جائے۔ آپ ہندوستان میں برپا کیے گئے تما م باہمی اختلافات اورفرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں کہ انہوں نے پہلے چنگاڑی لگائی ، پھربے چارے غریب لوگوں کو روپیے پیسے اور عہدے کا لالچ دے کرانہیں اس آگ میں کودجانے پر مجبور کیا،ہم بھی بیوقوفوں کی طرح ان کے نعروں پر لبیک کہتے ہوئے باہم دست وگریباں ہوگئے ، جس سے اپنا نقصان تو ہوا ہی ملک کو بھی مختلف نقصانات سے دوچار ہونا پڑا،اسی پر بس نہیںآگے اوردیکھیے ،ہم نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے کھیتوں کو سیراب کیا، ان کو قابل کاشت بنایا، گندم ،دھان، آلو، پیاز اور ٹماٹر اگائے اور جب پھل پک گیا تو چلے آئے حصہ لگانے ، خود کو سبسڈی اور ہمیں تحفہ میں پھر وہی مہنگائی ملی،الٹے ہی چال چل گئے دیوان گان سیاست !یقیناًاس کو بیوقوفی ہی کہنا پڑے گا، کہ کسی بھی پارٹی پر مکمل بھروسہ کرکے اس کوپوری حمایت دیدی جائے ! اب جن لوگوں نے بی جے پی کے خوب نعرے لگائے تھے، ان کو سوچنا چاہیے کہ ان کے گھر کیاپیاز سستی آئی ، آلو ٹماٹر سے گھر بھرا اگر نہیں توپھر کیا ملا ان نعروں کا؟؟؟
Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 73464 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.