9 فروری یومِ شہادت افضل گرو

9فروری افضل گورو شہید کی برسی کا دن ہے۔ بھارتی نظام انصاف کے ڈھول کا پول کھولنے کے لئے افضل گورو کی پھانسی خون ناحق کی بدترین مثال ہے۔ جہاں افضل گورو کو جرم مسلمانی میں محض عوامی جذبات ٹھنڈے کرنے کے لئے انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بھارتی نظام انصاف کی کشمیریوں سے ناانصافیوں کی داستان طویل ہے۔ بیگناہ انجم زمرد حبیب نے اپنی کتاب ’’قیدی نمبر 100‘‘ میں بھی بھارتی نظام انصاف سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ بہرحال علامہ اقبال نے آج سے پچھتر سال قبل کشمیری مسلمانوں کی جن محرومیوں اور مجبوریوں کا ذکر ارمغان حجاز میں کیا تھا وہ آج بھی اسی طرح برقرار ہیں بلکہ ان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،بھارت کے ہاتھوں افضل گورو کی پھانسی صرف ایک کشمیری مجاہد کی موت نہیں بلکہ یہ مرگ ہے امن کے خواب کی۔ افضل گورو تو پھانسی پر چڑھ گئے مگر ان کا لہو آزادی کے ٹمٹماتے چراغوں کو ایک نئی جلا دے گیا ہے۔ افضل گورو کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کشمیری مسلمان تھے، انتہائی دھمیے مزاج والے افضل گورو موسیقی اور غالب کی شاعری کے دیوانے تھے۔ بیٹے کا نام بھی غالب رکھا ، دلی سے اکنامکس میں ماسٹر کرنے والے افضل گورو بینک آف امریکہ میں ملازمت بھی کرتے رہے ہیں، سری نگر میں کشمیری خواتین کے ساتھ بھارتی فوج کی اجتماعی درندگی کے واقعے نے افضل گورو کی دنیا بدل ڈالی اور وہ جموں کمشیر لبریشن فرنٹ میں شامل ہو گئے۔ کئی سالوں تک کشمیر کی آزدی کیلئے سرگرم رہنے کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے مگر کچھ ہی عرصے بعد واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے جہاں بھارتی حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا۔ دسمبر دوہزار ایک میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے سے پہلے ہی وہ بھارتی سیکورٹی فورسز کی حراست میں تھے۔ مگر اسکے باوجود انہیں اس حملے میں ملوث کر کے بھارتی حکومت اور پھر انہیں موت کی سزا دیکر بھارتی عدالت نے بھی ثابت کر دیا ہے کشمیریوں کے ساتھ بھارت میں کبھی انصاف نہیں ہو سکتا۔ بھارتی دانشوروں نے بھی تسلیم کیا تھاکہ افضل گورو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے میں ملوث نہیں تھے اور بے گناہ تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی افضل گورو کی پھانسی کو انصاف کی موت کہہ رہی ہے۔ اگر افضل گورو مجرم تھے تو پھر وہ کیا خوف تھا جس نے بھارت کو مجبور کیا کہ ایک بے گناہ شخص کو چپ چاپ پھانسی دے کر تہاڑ جیل میں ہی دفن کر دے، کیوں ان کی لاش کو اہل خانہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا گیا، ان کی پھانسی سے قبل مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور تمام فون لائنز بند کر کے پوری وادی میں کرفیو لگا دیا گیا۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارتی حکومت نے صرف الیکشن جیتنے اور بی جے پی کا منہ بند کرنے کیلئے ایک بے گناہ کشمیری کو پھانسی دے دی تھی۔ افضل گورو کی شہادت نے کشمیر میں جاری تحریک کو ایک نئی قوت عطا کی ہے۔ اب وادی میں بھارت سے پرامن مذاکرات کرنے کے خواہشمندوں رہنماوں کی جگہ ہتھیاروں کی زبان میں بات کرنیوالے لیڈر لے لیں گے، خود بھارتی تجزیہ کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ افضل گورو کی پھانسی سے کشمیر میں مسلح مزاحمت دوبارہ مقبولیت حاصل کرلے گی۔

بھارت نے اپنے اس عمل سے واضح کر دیا ہے کہ نہ تو وہ پاکستان کیساتھ امن اور نہ ہی مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔ بھارت نے افضل گورو کو پھانسی نہیں دی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے رہنماوں کی پرامن مذاکرات کی امید اور خواہش کو تہاڑ جیل میں پھانسی گھاٹ پر چڑھا دیا۔

9فروری کو میں سٹپ اِن سکول میں کشمیر کہانی اپنے طلباء کو سنانے کا اہتمام کررہی ہوں ویسے میرا بھی کشمیرکی آزادی کی تحریک سے میرا پہلا تعارف نو دس برس کی عمر میں ہوا تھا ، سکول میں کشمیر کی حالت پر ایک ٹیبلو پیش کیا جانا تھا۔ مجھے اس میں سورج کا کردار دیا گیا تھا جوکشمیر کی وادی میں ہونیوالے تمام بھارتی مظالم کا گواہ تھا اور آزادی کی علامت کے طور پر وادی پر چمکتا تھا۔ میری ٹیچر جو اس ٹیبلو کیلئے ہمیں تیاری کروا رہی تھیں اور وہ خود بھی بہت پرجوش تھیں انہوں نے ہمیں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور آزادی کی آواز دبانے کیلئے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے اور ہمارا حوصلہ بڑھانے کیلئے کہا کہ ہمارے اس ٹیبلو سے کشمیر کاز کو بہت فائدہ ہو گا۔ جس صبح ٹیبلو پیش ہونا تھا اس ساری رات مجھے نیند نہیں آئی مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں خود کشمیر کی آزادی میں حصہ لے رہی ہوں اور اس ظلم و ستم کی داستان کا ایک حصہ ہوں کشمیر کی آزادی کا ایک کردار ہوں ، اس رات پہلی بارمجھے کشمیر سے اس رشتے کا احساس ہوا جو شاید ہر پاکستانی کے دل میں ہوتا ہے، صبح اس ٹیبلو میں حصہ لینے والی تمام بچیاں بڑے جذبے کیساتھ ان مناظر کی عکاسی کر رہی تھیں جن کا سامنا بھارتی مظالم کے ستائے کشمیری مسلمانوں کر رہے ہیں میں بھی بڑے جوش و ولولے کیساتھ سورج کا کاسٹیوم پہنے پہنے بڑی تیزی کیساتھ اپنی رنگ برنگی کرنوں کو تبدیل کر رہی تھی، مجھے لگ رہا تھا کہ میرے اس طرح تیزی سے چمکنے سے کشمیریوں پر چھائی غلامی کی تاریک رات ختم ہو جائیگی۔ مجھے آج تک وہ دن یاد ہے تالیوں کی گونج میں مجھے اور میری ساتھیوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ اس ٹیبلو سے ہم سب نے نجانے کشمیر کی آزادی کا کتنا بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔ اور آج میں سوچتی ہوں کہ یہ معرکہ ہی تھا جس سے ہم سب بچیوں کے ذہنوں پر ہمیشہ کیلئے نقش ہو گیا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے مگر کشمیریوں نے بھارت کے آگے سر جھکانے سے انکار کر دیا ہے اور ہم سب پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں اور بزرگ حریت رہنماء سید علی گیلانی کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ جب وہ سرینگر میں کشمیریوں کو کہتے ہیں ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ یہ منظر یوم یکجہتی کشمیر پر بھی دنیا دیکھ چکی ہے۔

مگر آج میں دیکھتی ہوں کہ ہمارے نئی نسل کے ذہن سے مسئلہ کشمیر کھرچنے کی کوشش ہو رہی ہے، انہیں آج سلمان خان، شاہ رخ خان کا تو پتہ ہے مگر مقبول بٹ ، میر واعظ محمد فاروق اور افضل گورو کون ہیں انہیں کچھ علم نہیں۔ کوئی بھی قوم اپنی تاریخ کو بھلا کر کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ حقائق سے کس طرح منہ چھپایا جا سکتا ہے۔ ہم کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے کیسے پھر سکتے ہیں اور اگر سب کچھ بھلا نے کی کوشش بھی کی جائے تو راستے میں مقبول بٹ کا لہو یا پھانسی پر جھولتے افضل گورو کی لاش آجاتی ہے ،ہم ان سب سے نظر چرا کر کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا اس رشتے کو جو پاکستان کا کشمیر کیساتھ ہے۔ ہمیں ہر قیمت پر کشمیریوں کا ساتھ دینا ہو گا اس امید کیساتھ کہ انشاء اﷲ اے وادی کشمیر آزادی کشمیر نعرہ نہیں حقیقت بن کر جلد ہمارے سامنے آئے گا۔
Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 15 Articles with 10644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.