صحافت کے طفیلے

پی ٹی وی میں بھرتی کیلئے سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ملازمت کا خواہشمند کس سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں-مکھن لگانے کی اضافی صلاحیت ہے جس میں جو جتنا ماہر ہوگا اتنا ہی ہی آگے جائیگا - ہمارے کچھ مخصوص دوست جن کی سب سے بڑی خوبی "مکھن جیب میں لئے پھرنے اور لگانے کی عادت "تھی
کچھ عرصہ قبل کی بات ہے سابق چیف جسٹس پشاو ر ہائیکورٹ جسٹس دوست محمد خان جوڈیشل اکیڈیمی پشاور میں ججز کے تربیت کے حوالے سے پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے آئے ہوئے تھے تقریب میں پشاور ہائیکورٹ کے ججز سمیت وکلاء بھی بڑی تعدا د میں موجود تھے- اس پروگرام کی کوریج کیلئے نجی ٹی وی چینل سمیت پی ٹی وی کو بھی کوریج کیلئے کہا گیا تھا تقریب کے باقاعدہ آغاز سے قبل تربیت لینے والے ججز تقریر کررہے تھے - اس دوران پی ٹی وی کا کیمرہ اور ایک رپورٹر کوریج کیلئے پہنچ گیا- ان کے آنے سے قبل دو نجی ٹی وی چینل کے نمائندے آئے ہوئے تھے اور ڈائس پر ہمارے چینل کے لوگو ) مائیک (پڑے ہوئے تھے پی ٹی وی کے کیمرہ مین نے آتے ہی یہ کہہ دیا کہ بھائی یہ پرائیویٹ ٹی وی چینل والے اپنا لوگو ڈائس سے اٹھا دیں- میں نے استفسار کیا کہ کیوں بھائی ڈائس سے لوگو کیوں اٹھائیں - تو کیمرہ مین صاحب جو کیمرے کو ہینڈی استعمال کررہا تھا اور بغیر سٹینڈ کے نیوز کیلئے فوٹیج بنا رہا تھا نے فرما دیا کہ چونکہ وہ پی ٹی وی کا لوگو نہیں لایا-اس لئے اسے مسئلہ ہے کیونکہ پھر دفتر میں اس سے پوچھا جائیگا کہ نجی ٹی وی چینل کا لوگو پڑا ہے اور پی ٹی وی کا لوگو کیوں نہیں ہے- اس لئے نجی ٹی وی چینل والے اپنا لوگو اٹھا لیں کیونکہ پی ٹی وی کو مسئلہ ہے- میں نے ان صاحب سے پھر پوچھا کہ آپ لوگو کیوں نہیں لائے تو وہ کوئی جواب تو نہ دے سکے البتہ کہا کہ یہ میرا کام نہیں-

جس پر میں نے پی ٹی وی کے کیمرہ مین کو کہہ دیا کہ بھائی اگر لوگو لانا آپ کا کام نہیں تو پھر میرے لوگو کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں- اگر آپ لوگو نہیں لاسکتے تو پھر ہمارے لوگو پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں- ان کے ساتھ بیٹھے ایک صحافی سے میں نے پوچھا کہ بھائی تمھارے کیمرہ مین کی تنخواہ کتنی ہے تو بتایا گیا کہ یہ پچاسی ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہے - جس کے جواب پر میں نے کہا کہ اگر پچاسی ہزار روپے میں اگر یہ لوگو نہیں اٹھا سکتا تو یہ کیا کرسکتا ہے اس سے آدھی تنخواہ میں لوگ کیمرہ ٗ سٹینڈ سمیت بیگ بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں- تو جناب یہ کیا طریقہ ہے- جس پر متعلقہ صحافی نے جواب دیا کہ پرائیویٹ ٹی وی چینل والوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہم اگر کہیں جائیں بھی تو پہلے اجازت لینی پڑتی ہے پھر گاڑی لینی پڑتی ہے اگر گاڑی نہ ہو تو ہم نہیں آسکتے ویسے برائے مہربانی آپ یہ لوگو اتار دیں جب میں نے وجہ جانناچاہی تو متعلقہ صحافی نے بتا دیا کہہ بھائی سینارٹی کی وجہ سے لحاظ کرو- میں نے اسے کہہ دیا کہ بھائی سینارٹی کی اگر بات کرتے ہو تو شائد اس وقت میٹرک میں تھے جب میں فیلڈ میں کام کرتا تھا جس پر صحافی کا رنگ سرخ ہوگیا اور کہنے لگاکہ میرا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی وی سینئر ہے اور چونکہ پرائیویٹ ٹی وی چینل بعد میں آئے ہیں اور یہ جونئیر ہیں اس لئے آپ اپنے ٹی وی چینل کا لوگو ہٹا دیں- میں نے معذرت چاہی اور کہہ دیا کہ بھائی اس فیلڈ میں سینئر و جونئیر کا کوئی تصور نہیں جو کام کرنا چاہتا ہے اور کریگا وہی رہے گا جو نہیں کرنا چاہتا وہ نہ کرے- آپ لوگوں کو پی ٹی وی کا لوگو نہیں اٹھا سکتے حالانکہ آپ لوگوں کو اس چیز کی تنخواہ ملتی ہیں یہ تم لوگوں کا مسئلہ ہے ہمارا مسئلہ نہیں- جس پر متعلقہ صحافی اور کیمرہ مین نے منہ بنا لیا-

یہ صرف ایک واقعہ نہیں - متعدد ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ پی ٹی وی کے نیوز سے وابستہ ملازمین جن کی تنخواہیں اچھی خاصی ہیں اور پرائیویٹ ملازمت میں صحافت بھی ٹھیک ٹھاک کررہے تھے-پی ٹی وی میں داخل ہو نے کے بعد "حرام خور"ہوگئے ہیں- کام تو کرتے ہی نہیں- فیلڈ میں بھی نظر نہیں آتے-ہاں بابوگیری اچھی طرح سے کرلیتے ہیں صبح آٹھ بجے سے پانچ بجے تک کی ڈیوٹی میں صرف اس وقت نظر آتے ہیں جب کوئی وفاقی وزیر ہو یا پھر گورنر کی تقریب ہو ٗ ورنہ آرام سے دفتر میں بیٹھے رہتے ہیں- ہاں کہیں اگر ایمرجنسی ہو جائے تو پھر پی ٹی وی سے وابستہ افراد جو اپنے آپ کو صحافی تو کہتے ہیں لیکن اصل میں "بابو صاحبان"ہوتے ہیں بھاگتے نظر آتے ہیں سارا دن میں صرف ایک پروگرام کور کرتے ہیں اور پھر"شام پانچ بجے سے نو بجے تک کی خبروں میں متعلقہ وزیر کی " انہوں نے فرمایا ٗ ہو جائیگا اور کردیا جائیگا جیسے جملوں کی گردان سننے کو ملتی ہیں-اس طرح کی خبریں ہی ٹی وی پر چلتی ہیں کبھی کسی مسلے پر عوام نے کوئی تحقیقاتی رپورٹ نہیں دیکھی ٗ البتہ یہ خبریں سننے اور دیکھنے کو ضرور ملتی ہیں کہ صاحب نے دورہ کرلیا - پی ٹی وی عوام کے ٹیکسوں سے چلتا ہے لیکن حال یہ ہے کہ عوام کے مسائل سے نہیں کوئی دلچسپی ہی نہیں-سارا دن "نیشنل انٹرسٹ"جو اصل میں پتہ ہے بھی کہ نہیں ٗ کیونکہ وقت کیساتھ یہ نیشنل انٹرسٹ بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے - اسی کے حوالے سے خبریں سننے کو ملتی ہیں-

یہ حال ہے سرکاری مشینری کا ٗ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سرکاری ملازمین کا ٗ جنکی تنخواہیں بجلی کے بلوں میں ٗ گیس کے بلوں میں ٗ ٹیکسوں میں غریب عوام کے جیبوں سے نکلتا ہے -میرے ایک دوست جو پی ٹی وی میں ملازم تھے ٗ آج کل مرحوم ہو چکے ہیں- اللہ تعالی اس کی مغفرت کرے - غنی خان کے شاعری کے بقول جب کچھ نہ رہا تو پھر" آخر میں جائے نماز " کا سہارا لے لیا- ایک دوست جو ابھی بھی اس ادارے سے وابستہ ہیں کے بقول ایسے لوگ بھی اس ادارے میں کام کررہے ہیں جو روزمرہ دنوں میں "جمعہ خان" ہیں لیکن جب پی ٹی وی میں ڈیوٹی ہو اور عصر کا وقت ہو جائے تو بارہ بجے نماز کیلئے چلے جاتے ہیں اور پھر دو بجے واپس آتے ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کوٹہ سسٹم میں بچوں کو بھرتی کرنے کے بعد اب " باریش"ہوگئے ہیں اور اب اپنی ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتے ہیں-

پی ٹی وی میں بھرتی کیلئے سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ملازمت کا خواہشمند کس سیاسی پارٹی سے وابستہ ہیں-مکھن لگانے کی اضافی صلاحیت ہے جس میں جو جتنا ماہر ہوگا اتنا ہی ہی آگے جائیگا - ہمارے کچھ مخصوص دوست جن کی سب سے بڑی خوبی "مکھن جیب میں لئے پھرنے اور لگانے کی عادت "تھی اسی کی بنیاد پر مستقل ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور آج کل"جی حضوری"کرتے دکھائی دیتے ہیں- اس ادارے کی مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ بھی قائم مقام ریجنل سربراہ بن کر آگئے ہیں جن کا تعلق زندگی میں کبھی خبر سے رہا ہی نہیں کسی زمانے میں وڈے چوہدری ٗاور چھوٹے چوہدری کے آگے پھرنے والے آج بڑے بن بیٹھے ہیں کسی زمانے میں ہیومن رائٹس ڈیپارٹمنٹ میں کلرک بھرتی ہو کر آنیوالے آج لاکھوں کی تنخواہ لے رہے ہیں اور بدلے میں کچ بھی نہیں کررہے -ایسے میں ان سے کوئی کیا توقع کرسکتا ہے کہ یہ خبر لیکر آئینگے اور انکی خبریں چھپیں گی-

آج کل حکومت ویسے بھی پرائیویٹائزیشن کے چکر میں ہیں کیونکہ ملک نقصان میں جارہا ہے اور اخراجات پورے کرنا حکومت کی بس کی بات نہیں رہی-کیا انہیں یہ ادارہ نظر نہیں آتا جہاں پر نااہل افراد بھرتی ہوکر عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں پر عیاشی کررہے ہیں کیا حکومت اس ادارے پر آنیوالے اخراجات ٗ ملازمین کی تنخواہیں ٗ اضافی لوگوں کے بارے میں بھی کچھ بتا سکیں گی یا پھر یہاں بھی "نیشنل انٹرسٹ" ہی سامنے آئیگا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498038 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More