پی آئی اے ،نوازشریف ،شاہ سلمان بن عبدالعزیز،ملک محمدرفیق رجوانہ ،شہبازشریف ،راحیل شریف
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے
وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ پی آئی اے آپریشنز کی بحالی کیلئے کوششیں
قابل ستائش ہیں۔قومی ادارے کی بحالی کیلئے اقدامات جاری رکھیں گے۔کسی کے
دباؤ میں نہیں آئیں گے۔پی آئی اے کے معاملے پربعض سیاسی جماعتیں سیاست
چمکارہی ہیں۔سڑکوں پر آنیوالے پہلے بھی ناکام ہوئے اب بھی ناکامی ان
کامقدربنے گی۔ماضی کی حکومتوں نے پی آئی اے اوردیگراداروں کوتباہی سے
دوچارکیا۔وزیراعظم نے قومی ایئرلائن کے معاملے پرسیاسی پوائنٹ سکورنگ
پرافسوس کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہرکسی کوہرحال میں ملکی مفادپیش
نظررکھناچاہیے۔اجلاس میں پروازیں بحال رکھنے والے ملازمین کوخراج تحسین پیش
کیاگیا۔وزیراعظم نے اجلاس کے دوران ہدایت کی کہ دیگرشہروں میں بھی آپریشن
کی بحالی کیلئے اقدامات کیے جائیں ۔عوام کودرپیش مشکلات فوری دورکی
جائیں۔چیئرمین پی آئی اے عرفان الٰہی نے بریفنگ میں بتایا کہ دفاترکی
تالابندی ختم ہوچکی ہے۔ملازمین کی دفاترمیں واپسی بھی جاری ہے۔لازمی سروس
ایکٹ کے نفاذ کیبعدذمہ داریاں انجام نہ دینے والے ہڑتالی ملازمین کونوٹس
بھی جاری کیے گئے ہیں۔یہ لازمی سروس ایکٹ کی برکت ہے یانئی ایئرلائن بنانے
کے اعلان کارزلٹ کہ پی آئی اے کی نجکاری کیخلاف احتجاج اب تھم چکا ہے۔پی
آئی اے کے ملازمین نے مذاکرات کیلئے چوہدری نثاراورشہبازشریف پراعتمادکیا
ہے۔توقع کی جاسکتی ہے کہ دونوں سیاسی راہنما اس تنازعہ کافریقین کیلئے قابل
عمل حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے
ہوئے نوازشریف نے کہا کہ قومی ادارے کی بحالی کیلئے اقدامات جاری رکھیں گے
کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ اداروں کی بحالی اورفعالیت سے توکسی
کوانکارنہیں ہوسکتا البتہ اس کے طریقہ کارسے اختلاف ضرورہوسکتا ہے۔ان
کاکہناتھا کہ ہرکسی کوملکی مفادپیش نظررکھنا چاہیے ۔ تمام سیاسی جماعتیں پی
آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کررہی ہیں ۔ نوازشریف نے مذکورہ بالابات کہہ
کران سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ اس عمل کی مخالفت کر کے ذاتی اورسیاسی
مفادحاصل کرنے کی بجائے قومی مفادمیں پی آئی اے کی بحالی میں حکومت کاساتھ
دیں۔کسی بھی قومی ادارے کی نجکاری کا یہ پہلامعاملہ نہیں اس سے پہلے بھی
کئی اداروں کی نجکاری ہوچکی ہے۔نجکاری کیبعد ان اداروں کی کارکردگی بہتر
بھی ہوئی ہے۔پی آئی اے کی نجکاری کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کی جانیوالی
مخالفت سے لگتا ہے کہ حکومت نے اس سلسلہ میں کوئی مشاورت نہیں کی۔جس طرح
نیشنل ایکشن پلان ، کراچی میں امن کی بحالی اورآپریشن ضرب سے پہلے قومی سطح
پرمشاورت کی گئی۔ ان معاملات میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کیبعد لائحہ
عمل بنایاگیا جس پرعملدرآمدجاری ہے۔اسی طرح حکومت کوتمام سیاسی جماعتوں
اورسٹیک ہولڈرزپرمشتمل ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا ۔ جس میں پی آئی اے سمیت
خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی بحالی کیلئے مشاورت کی جاتی۔اس اجلاس
میں ن خسارے میں چلنے والے اداروں کے افسران اورملازمین کوبھی بلایا جاتا ۔
ان سب سے حکومت کہتی کہ ہمیں ادارے بیچنے اورملازمین کوبیروزگارکرنے کاکوئی
شوق نہیں۔یہ ادارے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوجائیں تویہ ملازمین کیلئے بھی بہتر
ہے اورملک وقوم کیلئے بھی۔اب بھی حکومت یہ اجلاس بلائے ان کوبھی مدعوکرے
جوپی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کررہے ہیں۔تمام سٹیک ہولڈرزکوبھی بلایا
جائے ۔ان سے کہا جائے کہ قومی خزانہ ان اداروں کے مسلسل خسارے کابوجھ
برداشت نہیں کرسکتا۔اداروں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے اب بتایا جائے کہ ان
اداروں کی بحالی کیلئے کیاکیا جائے۔پھرسب کی مشاورت سے جوفیصلہ ہواس پرعمل
کیاجائے ۔اس کے بعد کوئی بھی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔
قصریمامہ میں قومی ثقافتی میلے کی ۳۳ ویں سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کاکہنا ہے کہ ہم پورے خطے
میں دیرپاامن اوراستحکام کے خواہاں ہیں۔ہمیں اپنے دفاع کابھرپورحق حاصل
ہے۔مگرہم کسی دوسرے ملک کے اندرونی مداخلت سے کوئی غرض نہیں رکھتے۔ یہی وجہ
ہے کہ ہم دوسروں سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مملکت کے معاملے میں دخل
اندازی سے گریزکریں۔یہ بات ہم تکرارکیساتھ کہہ چکے ہیں۔عرب اورمسلمان ملکوں
کے دفاع میں ان کی مددبھی ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ہم مداخلت نہیں
کرتے تم بھی مداخلت نہ کرو کہہ کرشاہ سلمان بن عبدالعزیزنے یمن اورایران کے
معاملے میں عالمی ردعمل کاجواب دیا ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے درست ہی
کہا ہے کہ ہم کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے کوئی ہمارے معاملات میں
بھی مداخلت نہ کرے۔ ان کااشارہ جرائم پیشہ افرادکودی جانیوالی سزاؤں کی طرف
بھی ہوسکتا ہے۔جس طرح جرم کرنیوالوں کو سزادینا سعودی عرب کااندرونی معاملہ
ہے اسی طرح دہشتگردوں کوسزائے موت دینابھی پاکستان کااندرونی معاملہ ہے
یورپی یونین یاکسی اورکومداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی مطالبہ پوری اسلامی
دنیا کاہے۔شام، عراق، افغانستان، ایران، لیبیا، مصر، پاکستان، لبنان،
فلسطین کس کس ملک کانام لیاجائے جہاں اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں
ہورہی ہے۔جومعاملہ عالمی طاقتیں مسلمان ملکوں کیساتھ کررہی ہیں کیاوہ چاہیں
گی کہ ان کیساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کیاجائے۔ ایسا وہ کبھی نہیں چاہیں
گی۔شاہ سلمان بن عبدالعزیزکوصرف سعودی عرب کا ہی حوالہ نہیں دیناچاہیے تھا
بلکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ عالمی طاقتوں کوواضح الفاظ میں یہ پیغام دیتے
کہ عالمی قوتیں مسلمان ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کاسلسلہ اب
بندکردیں۔عالمی طاقتوں کومسلمان ملکوں کی خالہ جی بننے کی کوئی ضرورت نہیں
ہے۔جن اسلامی ملکوں میں عالمی طاقتوں کی فوجیں موجودہیں وہ فوری سے پہلے
واپس بلائیں اورمسلمانوں کواپنے معاملات خود طے کرنے دیں ۔یہی بات اوآئی سی
کی طرف سے کہی جاتی تواوربات ہوتی۔قومی حمیت اورخودمختیاری کاتحفظ سعودی
عرب سمیت تمام اسلامی ملکوں کا حق ہے۔
پاکستان ریلوے اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والے غیرملکی شرکاء کے وفدسے
گفتگوکرتے ہوئے گورنرپنجاب ملک محمدرفیق رجوانہ نے کہا ہے کہ ذرائع آمدورفت
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کازینہ ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت
انفراسٹرکچر کی ترقی خصوصاًذرائع آمدورفت کوجدیدخطوط پراستوارکرنے کیلئے
کوشاں ہے۔پاکستان ریلوے جوصرف تین برس پہلے تک معیشت پربوجھ تھا اب ترقی کی
جانب گامزن ہے۔بہت جلدیہ اہم ادارہ جدیدسفری سہولتوں کے اعتبارسے پاکستان
کی پہچان بنے گا۔گورنرپنجاب کاکہناتھاکہ دنیامیں معاشی ترقی کے دوماڈلزہیں
سوشل سیکٹرڈویلپمنٹ اورانفرانسٹرکچرڈویلپمنٹ موجودہ حکومت کامعاشی وژن ان
دونوں ماڈلزکاحسین امتزاج ہے۔جس میں نہ صرف عوام کی معاشی حالت بہترکرنے
اورانہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی پرتوجہ دی جارہی ہے بلکہ انفراسٹرکچرکی
ترقی پربھی کام ہورہا ہے۔گورنرپنجاب کاکہناتھا کہ حکومت کی ان معاشی
پالیسیوں کے نتیجے میں ملکی اورغیرملکی سرمایہ کار ی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اور چین کی طرف سے ۶۴ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کے منصوبے سمیت کئی ملک
پاکستان کوسرمایہ کاری کے لئے ترجیح دے رہے ہیں۔وزیراعلیٰ شہبازشریف کی
خصوصی کوششوں سے لوگوں کی استعدادکارمیں اضافے کیلئے فنی تربیت کے مواقع
پیداکیے جارہے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ موجودہ حکومت ملک میں
ا ندرونی اوربیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے اقدامات کررہی ہے۔وزیراعظم
نوازشریف اوردیگرحکومتی ذمہ داربیرون ملک دوروں پرسرمایہ کاروں کو پاکستان
میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں۔سرمایہ کاری میں اضافے سے ملک
ترقی کرتا ہے ،لوگوں کوروزگارکے مواقع ملتے ہیں۔یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہے
تاہم زیادہ سے زیادہ اپنے وسائل پیداکرکے ملک وقوم کی ترقی کیلئے ان وسائل
پرجتنازیادہ انحصارکیاجائیگا۔ ملک وقوم کیلئے اتناہی بہترہوگا۔اللہ تعالیٰ
نے مملکت خدادادپاکستان کوقدرتی وسائل سے مالامال کررکھا ہے ضرورت ان وسائل
کوموثرحکمت عملی سے بروئے کارلانے کی ہے۔فنی تربیت کاسلسلہ بھی اچھا ہے کہ
انسان ہنرسیکھ کراپناروزگارکماسکتا ہے اسے سرکاری ملازمت پرانحصارنہیں
کرناپڑتا۔ملک محمدرفیق رجوانہ کہتے ہیں کہ بے گھرافرادکیلئے آشیانہ ہاؤسنگ
سکیم شروع کی گئی ہے۔جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔آشیانہ ہاؤسنگ سکیم
بے گھرامیروں کیلئے ہوسکتی ہے ۔ بے گھرغریب اس سکیم میں گھرلینے کاسوچ بھی
نہیں سکتے۔اس موضوع پرتفصیلی کالم پہلے لکھ چکے ہیں۔یہ سکیم پسماندہ علاقوں
،لیہ، بھکر، مظفرگڑھ،چولستان، میں بھی بنائی جائے۔ان کاکہناتھا کہ بیرونی
دنیامیں پاکستان کے متعلق غلط پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے جبکہ یہاں آئے ہوئے
غیرملکی ہمیشہ یہاں سے پاکستان کابہترتاثرلے کرجاتے ہیں۔پاکستان کوبدنام
کرنے کاجوسلسلہ نائن الیون کے بعدشروع ہواتھا وہ ابھی تک جاری ہے۔عالمی
میڈیا اس پروپیگنڈہ میں پیش پیش ہے۔دنیا کے سامنے پاکستان منفی امیج ہی پیش
کیاجاتا ہے۔دنیا میں جب بھی دہشت گردی یااورکوئی بھی منفی واردات ہوتی ہے
۔اس کاتعلق کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کیساتھ جوڑنے کی کوشش ضرورکی جاتی
ہے۔ ان ممالک کے اپنے شہریوں، تنظیموں کی طرف سے درجنوں قتل بھی ہوجائیں
توکوئی بات نہیں جبکہ پاکستانی کسی کوایک تھپڑبھی ماردے تو مغربی میڈیااسے
بریکنگ نیوزبنادیتا ہے اوراس تھپڑکوباربارنشرکیاکرکے پاکستان کوبدنام کرنے
کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔پاکستانیوں کوبھی چاہیے کہ وہ بھی بیرون ملک کوئی
ایساکام نہ کریں جس سے ملک وقوم کی عزت پرحرف آئے۔ان کاکہناتھا کہ عوام نے
ہم پرجواعتمادکیا ہے ۔ہماری کوشش ہے کہ اس پرپورااتراجائے۔گورنرپنجاب
کاکہنا ہے کہ اپوزیشن بگاڑکانہیں اصلاح کانام ہے۔اپوزیشن کوحکومت کے عوامی
مفادکے منصوبوں پربے جاتنقیدکی بجائے بہترتجاویزدینی چاہیے۔ملک محمدرفیق
رجوانہ کی یہ بات درست ہے۔حکومت شفافیت کی جتنی بھی کوشش کرے شکایت
کاپہلونکل ہی آتا ہے۔اپوزیشن کوتنقیدکاموقع مل جاتا ہے۔گورنرپنجاب کا
اپوزیشن کویہ درست مشورہ ہے ۔ تاہم یہ بنیادی کام حکومت ہے کہ قومی
مفادکاکوئی بھی منصوبہ شروع کرنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں اورمتعلقہ
سٹیک ہولڈرز کااجلاس بلائے ۔ ان کے سامنے اس منصوبے کے مثبت نتائج
اورمنصوبہ شروع نہ ہونے کی صورت میں جونقصان ہورہا ہواس سے بھی آگاہ
کیاجائے پھرسب کے مشورہ سے لائحہ عمل مرتب کرکے اس پرعملدرآمدکرایاجائے
تاکہ بعدمیں کسی کوتنقیدکرنے کاموقع ہی نہ ملے۔تمام سیاسی جماعتوں کوقومی
مفادکے منصوبوں کی مخالفت اوران پرتنقیدکاسلسلہ اب بندکردیناچاہیے ۔جوسیاسی
جماعت یاکوئی سیاستدان حکومت کاساتھ دیتا ہے تواسے فرینڈلی اپوزیشن کاطعنہ
بھی نہیں دیناچاہیے۔
مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے گفتگوکرتے ہوئے شہبازشریف
نے کہا کہ عوام کی بے لوث خدمت ہمارامشن ہے۔فلاحی منصوبوں پرتیزی سے
عملدرآمدجاری ہے۔پنجاب حکومت نے شفافیت اوراعلیٰ معیارکے ساتھ منصوبوں
کومکمل کرکے نئے رجحان کوفروغ دیا ہے۔صوبہ میں گیس سے بجلی پیداکرنے کے ۳
منصوبوں میں شفافیت یقینی بناتے ہوئے قوم کے ۲۱۱ارب روپے بچائے۔ن لیگ حکومت
کادامن کرپشن سے پاک ہے کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔ منتخب نمائندے عوام سے
رابطہ رکھیں۔منتخب نمائندے عوام سے رابطہ رکھیں یہ وزیراعلیٰ کاحکم ہے
یامشورہ ۔یہ توخودشہبازشریف ہی جانتے ہیںیاوہ ارکان اسمبلی جنہوں نے ان سے
ملاقات کی۔پہلے بھی یہ تجویزلکھی گئی ہے اب پھرلکھ رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی
کیلئے لازمی قراردیاجائے کہ جس دن اسمبلی کااجلاس نہ ہووہ اپنے حلقہ میں
موجودرہیں۔اس میں اضافہ کرتے ہوئے ہمارامشورہ یہ ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے
حلقہ کے دورہ کااس طرح شیڈول بنائیں کہ تین ماہ میں وہ اپنے حلقہ کے
ہرعلاقہ میں ایک بارضرورجائیں۔
غیرملکی میڈیا کیمطابق واشنگٹن میں آرمڈسروسزکمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے
دہشتگردی کیخلاف پاکستان کے اقدامات کے نتیجے میں بڑی تعدادمیں دہشتگرد
بھاگ کرافغانستان میں آگئے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بہت
جراتمنداوردلیرہیں جنکی بدولت فوجی آپریشن میں یہ اقدامات کئے گئے۔
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے اقدامات اورجنرل راحیل شریف کی بہادری
کی تعریف دہشتگردی کیخلاف پاکستان کے کردارکی تعریف بھی ہے اور لفظوں کے
پردے میں جواب بھی ہے کہ باچاخان یونیورسٹی میں حملوں میں ملوث دہشتگردوں
کے افغانستان سے تعلق کے ثبوت پاکستان نے افغانستان کودے دیے ہیں ۔ اب جنرل
جان کیمبل پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں جودہشتگردہیں وہ
پاکستان سے ہی بھاگ کرآئے ہیں یوں یہ افغانستان کے نہیں پاکستان کے ہی ہیں۔
پاکستان اب جودہشتگردافغانستان سے بھاگ کرپاکستان آئے پاکستان میں کیاکرتے
رہے پھرکتنے مارے گئے، کتنے افغانستان واپس بھاگ گئے یہ سب تفصیل دنیا کے
سامنے لے آئے۔جان کیمبل کومعلوم ہوجائے کہ اصل حقائق کیاہیں۔ |
|