پاکستان دنیا کے نقشے پر ایسی جگہ
واقع ہے جو بہت زیادہ زمینی' سیاسی اور تزویراتی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی بنا
پر مغرب کے بعض تجزیہ کار پاکستان کو مستقبل کی ابھرتی ہوئی سیاسی اور
عسکری طاقت بھی کہتے ہیں۔ ایک تجزئےے کے مطابق2030ء تک دنیا کے سیاسی منظر
نامے پر بہت بڑی تبدیلی رونما ہوگی' طاقت کا توازن بدل جائے گا اور پاکستان
دنیا میں سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھنے والا ملک ہو گا۔ حالات کے اس قدر
بدلنے میں خطہئ کشمیر کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے
مستقبل میں کشمیر کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟ اس حوالے سے آج سے کئی دہائیاں
قبل 1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ
''کشمیر پاکستان کے سر کا تاج ہے' اگر ہم نے یہ تاج انڈیا کو دے دیا تو ہم
ہمیشہ کے لئے اس کے رحم و کرم پر ہوں گے۔کشمیر پاکستان کی بقاء کے لئے
ضروری ہے' کشمیر کی جیوپولیٹیکل پوزیشن ایسی ہے کہ اگر مستقبل میں انڈیا کی
کسی بے ایمان حکومت نے کشمیر کے ذریعے حملہ کردیا تو ہمارا زمینی دفاع ختم
ہوجائے گا۔''
کشمیر کی پاکستان کے لئے اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ پاکستان
اب تک انڈیا سے تین جنگیں اس کی آزادی کے لئے لڑ چکا ہے۔ جبکہ ستر کی دہائی
میں ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے
لئے ہزار جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو لڑیں گے۔
کشمیر پاکستان کی بقاء اور دفاع کے لئے کیوں ضروری ہے؟ اس بارے میں جاننے
سے پہلے ہم ایک نظر کشمیر کے جغرافیہ پر ڈالتے ہیں۔ ریاست آزاد جموں و
کشمیر میںپاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر' گلگت بلتستان ' مقبوضہ جموں '
مقبوضہ وادی کشمیر' لداخ اور اقصائے چن شامل ہیں۔ دنیا کا بلند و بالا
پہاڑی سلسلہ ہمالیہ افغانستان سے شروع ہوکر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی
طرف پھیلا ہوا ہے۔ اسی سلسلے میں بلند ترین چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کی دوسری
بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان کے اسی شمالی پہاڑی سلسلے میں ہے۔ پاکستان کے
شہروں مری' ایبٹ آباد سے لے کر نیچے سیالکوٹ تک بیسیوں راستے کشمیر کی طرف
جاتے ہیں۔ جبکہ انڈیا کی طرف بلند و بالا پہاڑی سلسلے واقع ہیں اور کوئی
راستہ کشمیر کی طرف جانے والا موجود نہیں۔ گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ سے
ایک اکلوتی سڑک اودھم پور سے ہوتی ہوئی جموں میں داخل ہوتی ہے جو جموں سے
آگے وادی کشمیر ' لیہ اور پھر لداخ کی طرف جاتی ہے۔ (یاد رہے کہ تقسیم کے
فارمولے کے تحت گورداسپور پاکستان کا حصہ تھا مگر ہندو اور انگریز کی ملی
بھگت کی وجہ سے غیر منصفانہ طریقے سے یہ انڈیا کو دے دیا گیااور یوںانڈیا
کوبراہ راست کشمیر کا راستہ مل گیا)
سیاچن کے محاذ پر پاکستان کی طرف سے تیرہ مختلف راستے جاتے ہیں جبکہ انڈیا
کی طرف سے مقبوضہ وادی سے صرف4راستے سیاچن پر چڑھتے ہیں۔ کشمیر سے نکلنے
والے سارے دریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ کشمیر کی 74فیصد آبادی مسلمان
جبکہ 23 فیصد ہندو اور باقی دیگر مذاہب پر مشتمل ہے۔ یوں کشمیر کا پاکستان
سے فطری' جغرافیائی اور نظریاتی رشتہ موجود ہے جبکہ بھارت کا کشمیر پر قبضہ
غیر قانونی اور غیر فطری ہے۔
زراعت پاکستانی معیشت میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ملک کی70فیصد
آبادی کا روزگار زراعت سے ہی وابستہ ہے۔ ملک کا 80فی صدزرعی رقبہ نہری پانی
سے ہی سیراب ہوتا ہے اور زرعی پیداوار کا 90 فیصد اسی پانی سے حاصل ہوتا
ہے۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا اور مربوط نہری نظام موجود ہے جوکہ 44
بڑی نہروں اور89ہزار چھوٹی نہروں اور کھالوںپر مشتمل ہے۔ ان کی کل
لمبائی16لاکھ50ہزار کلومیٹر ہے۔ ان نہروں کا یہ جال پورے ملک میں پھیلا ہوا
ہے اور یہ 40 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کرتی ہیں۔ ان زمینوں سے پیدا ہونے
والی گندم' کپاس' چاول' گنا اور دیگر اجناس 18 کروڑ انسانوں کی غذائی
ضروریات کو پورا کررہی ہیں۔
پاکستان میں بہنے والے پانچوں دریاؤں کا پانی کشمیر سے آتا ہے۔ ان میں سے
جہلم' چناب اور سندھ کا پانی پاکستان کے پاس ہے۔ یہ پانی صرف زراعت ہی نہیں
صنعتی پیداوار کی بھی بنیاد ہے کیونکہ پاکستان میں توانائی کی ضروریات پن
بجلی سے ہی پوری ہورہی ہیں۔ پاکستان کے تین بڑے ڈیم کشمیر سے آنے والے
دریاؤں پر قائم ہیں۔ کشمیر سے آنے والا پانی پاکستان کی معیشت میں اہم ترین
عامل ہے۔ اگر یہ پانی رک جائے تو ملک کی صنعت اور زراعت دونوں ہی بند
ہوجائیں گی جبکہ ملک قحط سالی کا شکار ہوجائے گا۔
انڈیا نے پاکستان کے خلاف کشمیری دریاؤں سے نکلنے والے پانی کو استعمال
کرنا شروع کردیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ پاکستان کے
پانیوں پر 62ڈیم تعمیر کرچکا ہے۔ جن سے30ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی
جارہی ہے۔ تازہ ترین اقدام میں انڈیا نے دریائے نیلم پر بھی کشن گنگا ڈیم
کی تعمیر شروع کررکھی ہے جس کو عالمی عدالت نے بھی جائز قرار دے دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی دریاؤں کے راستے میں سرنگوں کی تعمیر سے پانی چوری
کرکے انڈیا کے صحراؤں کو نخلستان بنایا جارہا ہے۔ کیسی عجیب کی بات ہے کہ
ایک طرف انڈیا پاکستان کے پانیوں سے بجلی پیدا کررہا ہے اور پاکستان
توانائی کے بحران کا شکار ہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی جانب سے انڈیا سے
بجلی درآمد کرنے کی سمری کابینہ کو بھجوائی جاچکی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر اور
واٹر ٹنلز پروجیکٹ کے ذریعے انڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ چاہے تو دریاؤں کا
پانی بند کرکے پاکستان کو ایتھوپیا بنادے اور جب چاہے پانی چھوڑ کر ملک کو
سیلاب سے دوچار کردے۔
یہ وہ منصوبے ہیں جو ہمارے ازلی دشمن بھارت نے افغانستان میں نیٹو فوجوں کی
موجودگی کا فائدہ اٹھاکر مکمل کئےہیں۔ اس دور میں پاکستان پر امریکہ کا
دباؤ موجود رہا۔ پاکستان کو اپنی توجہ مغربی بارڈر پر کرنا پڑی اور مشرقی
بارڈر پر بھارت کھیل کھیلتا رہا اور اس وقت کی فوجی حکومت نے کشمیر پالیسی
سے خوفناک یوٹرن لیااور بھارت سے دوستی کی پالیسی اپنائی۔ ملک کی فضائیںاور
سمندر یہ کہہ کر امریکیوں کے لئے پیش کردئےے کہ کشمیر بچ جائے گا۔ مگر
کشمیر پر انڈیا نے باڑ بھی تعمیر کی اور دریاؤں پر ڈیم بھی تعمیر کئے اور
ان کو پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔
کشمیر پاکستان کے لئے بے پناہ تزویراتی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ اسی لئے
وزیراعظم لیاقت علی خان نے کشمیر کو پاکستان کے سر کا تاج کہا تھا۔ اگر ہم
نقشے کو سامنے رکھیں تو کشمیر کو پاکستان سے علیحدہ کردیا جائے تو صرف اس
کے نقشے کا ہی حلیہ نہیں بدلتا بلکہ پاکستان تزوایراتی اعتبار سے بھی بہت
بے وقعت ہوجاتا ہے۔ کشمیر کے شمال میں دنیا میں ابھرتی ہوئی معیشت اور دوست
ملک چین موجود ہے۔ چین سے پاکستان کا رابطہ شاہراہِ ریشم کے ذریعے ہے۔
شاہراہِ ریشم گلگت سے ہوتی ہوئی ایبٹ آباد تک آتی ہے۔ ملک کے شمالی حصے اور
ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیاں جنہیں دنیا کی چھت کہا جاتا ہے' عسکری لحاظ
سے بہت اہمیت کی حامل ہیں جن پر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی نظر ہے۔ ان بلند
و بالا پہاڑوں اور میدانوں پر بیٹھ کر پوری دنیا پر نظر رکھی جاسکتی ہے اور
انہیں دفاعی اور جنگی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سیاچن کی بات کریں تو یہ دنیا کا بلند اور سرد ترین محاذ ہے۔ اس پر پاکستان
اور انڈیا دونوں کی فوجیں 1984ء سے موجود ہیں۔ بھاری جانی نقصان اور مالی
تصرف کے باوجود کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بھارت کے4ہزار فوجی ہلاک
ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان کے22 سو فوجی اپنی جانےں اس دھرتی کی نذر کرچکے
ہیں۔ سیاچن کے علاوہ کشمیر کی دیگر پہاڑیاں اور چوٹیاں بھی فوجی اہمیت کی
حامل ہیں۔ جن سے دونوں ملک ایک دوسرے پر نظر رکھ سکتے ہیں اور انہیںجنگ کے
لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ کشمیر کی اس اہمیت کے پیشِ نظر بھارت اس وادی جنت
نظیر پر اپنا قبضہ مستحکم رکھنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔ اس چھوٹے سے
خطے میں آٹھ لاکھ فوج تعینات کرکے کشمیریوںپر نصف صدی سے ظلم وستم اور قہر
طاری کررکھا ہے۔ 80 ہزار شہادتیں، لاکھوں یتیم بچے اور بیسیوں ہزار
بیوائیں، اغوا، قتل، تشدد، حبس بے جا کی لاکھوں وارداتیں ہیںجن کا بھارتی
فوج ارتکاب کرچکی ہے اور یہ قصہئ خون آشام تاحال جاری ہے مگر آزادی کے
متوالے نہتے کشمیریوں نے اس یہ جدوجہد کورکنے نہیں دیا۔ کم وبیش 24 سال سے
وہ بھارت کے خلاف ایک ایسی منزل کے لئے برسرپیکار ہیں جو انہیں اسلام کی
بنا پر بننے والے ملک کے ساتھ جاملاتی ہے۔
کشمیریوں کی قربانی فقط بھارت کی غلامی سے نجات کے حصول کے لئے ہی نہیں
بلکہ پاکستان کی بقا' تحفظ اور آزادی کے لئے ہیںاور یہ وہ ملک ہے جو کسی
زبان، قوم یا رنگ نسل کی بنا پر نہیں بلکہ اسلام پر کھڑا ہے۔ جس کی بنیاد
میں لاکھوں شہداء کا خون ہے جنہوں نے فقط اسلام کی خاطر اپنے علاقے، زمینیں
' عہدے اور رشتے دار قربان کئے۔ آج لاالہ الا اللہ کا پاکستان ہی پوری دنیا
کے مسلمانوں کی امید وںکا محور ہے جو عالم اسلام کے تحفظ ودفاع کے لئے فعال
کردار ادا کرسکتا ہے۔ آج اسلام دشمنوں کی کوششیں یہ ہیں کہ ملت کے اس حصار
کو کمزور کردیا جائے۔ اس میں تعصب، تشدد اور تقسیم کی لکیریں گہری کردی
جائیں 'اس کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے عدم استحکام کاشکار کردیا جائے۔
کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی میز پر حل طلب ہے۔ اقوام متحدہ کشمیر پر
استصواب رائے کا فیصلہ دے چکی ہے ۔ سب سے زیادہ قرار دادیں اقوام متحدہ نے
کشمیر پر منظور کی ہیں۔ تاہم انڈیا کی ہٹ دھرمی اور غاصبانہ فطرت ہے کہ وہ
ان قراردادوں کو خاطر میں نہیں لاتا جبکہ پاکستان کا کیس بہت مضبوط ہے۔
دوسری طرف ہماری بے اعتنائی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ گزشتہ چند
حکومتوں کی سرد مہری اور کمزور خارجہ پالیسی کے باعث سرد خانوں میں جاچکا
ہے اور اب بھارت سے دوستی، تجارت اور ثقافتی رشتوں کی باتیں ہورہی ہیں۔
جبکہ بھارت ہماری شہ رگ پر اپنے نوکیلے دانت دھنساتا جارہا ہے۔ ہمار ی
حکومت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان کے وجود کے لئے کشمیری کی
آزادی اور بھارت کی پسپائی لازم وملزوم ہیں۔ اس لئے کشمیریوں کے ساتھ
اظہاریکجہتی کا ایک دن منانا کافی نہیں بلکہ اسے بھارتی تسلط سے چھڑوانا
ضروری ہے۔ اس کے لئے جاندار کشمیر پالیسی 'مضبوط سفارت کاری' کشمیریوں کے
اعتماد کی بحالی' تحریک آزادی کشمیر کی مکمل پشت پناہی اور بھارت سے آزادی
کشمیر تک تجارتی تعلقات سے گریز ضروری ہے۔ تبھی ''یکجہتی کشمیر'' کا حق ادا
ہوسکے گا۔ |