20جنوری کی صبح اہل پاکستان کے رنج و غم
میں ایک اور غم کا اضافہ کر گئی۔ جب علم کے دشمن اور انسانی لہو کے پیاسے
دہشتگردوں نے اپنی وحشت کی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کرتے ہوئے چار سدہ
کی باچا خان یونیورسٹی میں متلاشیان علم و ہنر کے خون سے ہولی کھیلی۔ حملہ
آوروں نے جنوری کی اس خنک صبح کی دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یونیورسٹی کی
عقبی دیوار پھلانگی اور اندر داخل ہو گئے اور پھر ــ''اللہ اکبر'' نعرے
لگاتے ہوئے معصوم طلبا کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ یوں اس دن کی دوپہر تک
''شریعت یا شہادت'' کے ''طالبان'' 21 معصوم جانوں کا بوجھ اپنے سر لیے ہوئے
یونیورسٹی کے سکیورٹی عملے اور فوج کے ہاتھوں ''فردوس بریں'' کی طرف کوچ کر
گئے۔
اس غمگین دن کے سورج کا نصف النہار سے مغرب کی طرف سفر ابھی جاری تھا کہ
میڈیا پر خبروں، تبصروں اور تجزیوں کی بھرمار شروع ہو گئی۔ جن کو قلم کی
طاقت اور میڈیا کا کیمرہ میسر تھا،انہوں نے قوم کے زخموں کو مندمل کرنے کی
سعی کرنے کے بجائے ان زخموں پر نمک پاشی شروع کر دی۔ دہشت گردوں کی اس
سفاکیت کا پس منظر اور ان کے آقاؤں کا حقیقی چہرہ قوم کے سامنے رکھنے کے
بجائے ان خونخوار دہشت گردوں سے برسرپیکار خاکی پوشوں کو اپنے نشانے پر رکھ
لیا۔
ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جس کو گزشتہ تیس سالوں سے فوج اور اس کے
اداروں سے خاص قسم کا بغض ہے، ایسے لوگ صبح و شام اور اٹھتے بیٹھتے فوج کو
گالی دینا اور تمام مسائل کو فرزندان وطن کے گلے کا ''ہار'' بنانا اپنا فرض
سمجھتے ہیں، 20جنوری کی شام سے تادم تحریر ان کے قلم اور زبانیں جنرل ضیاء
الحق سے لے کر راحیل شریف تک کے دور پر دو حرف بھیجنے میں جتی ہیں۔۔۔۔۔۔
''کہاں گئے وہ دعوے جو دہشت گروں کی کمر توڑنے کے اعلانات پر مشتمل تھے''،
''دہشت گروں کی ٹوٹی کمر کا ایکسرا ہی دکھا دیجئے!'' ''اپنے گھر کی فکر
کیجئے''، ''گڈ اور بیڈ کی پالیسی کب تک لہو بہائے گی''، ''روس کو گرم
پانیوں سے دور رکھ کرہم امن سے دورہو گئے''، ''سکھا لیجئے روس اور امریکہ
کو سبق۔۔۔۔۔۔!'' وغیرہ وغیرہ
اس وقت، جب وزیر اعظم سعودی عرب، ایران مصالحت کے سلسلے میں غیر ملکی دورے
پر تھے، ملک کی ایک درسگاہ پر ہونے والے حملے اور اس کے ساتھ ہی اس
پروپیگنڈے کی شدت، کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ لگ رہی تھی۔ پروپیگنڈے کی شدت
کا وہ عالم تھا کہ وزیر اعظم، آرمی چیف، وزارت داخلہ اور دیگر ذمہ داران کو
دفاعی پوزیشن پر آنا پڑا۔
مقامِ حیرت ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے مسلسل لاشیں اٹھانے کے بعد بھی ان
''دانشوروں'' کو شبہ ہے کہ ہم ایک غیر اعلانیہ جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایسی جنگ، جس کو افغانستان کی سرزمین پر امریکی چھتری تلے، بھارتی آشیرباد
میں جنم ملا اور کابل میں مسند اقتدار پر فروکش افراد امریکہ اور بھارت کی
کٹھ پتلیوں کا سا کردار ادا کر رہے ہیں۔اس جنگ کو انجام تک پہنچانے کے لیے
قوی حوصلہ درکار ہے۔ وہ صاحبان قلم و کیمرہ،جن سے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ
قوم کے مورال کو بلند رکھیں اور ملی مقاصد کے لیے یکسو ہو کر فیصلہ سازوں
کے قدم مضبوط کریں، وہی جب ہتھیاروں کا رُخ اپنی جانب کر لیں تو پھر کس سے
ہمنوائی کی امید کی جا سکتی ہے؟
جنرل ضیاء الحق کے دور میں جہاد افغان اور اس کے نتیجے میں روسی پسپائی پر
تنقید کچھ لوگوں کا محبوب موضوع ہے، وہ پاکستان کے سارے مسائل کا ذمہ دار
جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کو قرار دیتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ
افغان جہاد کیسے پاکستان کے دفاع اور ملت اسلامیہ کے تحفظ میں معاون ہوا،
سردست اتنا سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اگر روس کو افغانستان میں نہ روکا جاتا
اور روسی ریچھ کے بڑھتے قدم گرم پانیوں تک آپہنچتے،تو پاکستان کو ویتنام
بننے سے کون روک پاتا؟ ہمارے یہاں تو ''ایشیا سرخ ہے'' کے نعروں کے ساتھ
لینن کے پیروکاروں کے استقبال کے لیے پر جوش سرخے روس کے قدم چومنے کو
بیتاب تھے۔ پوری دنیا میں مارکسزم کے پھیلاؤ کا مقصد لےے آگے بڑھتے روسیوں
کے ٹینک سرخ پھر یروں کے ساتھ پاک سر زمین پر دراز ہوتے، تو سٹیو اور سینٹو
میں جکڑے پاکستان کو امریکہ کی Containment Policy کا سامنا بھی یقینا
ہوتا۔ اس کے نتائج کیا ہوتے؟ پاکستان امریکہ اور روس کی پراکسی وار کا شکار
ہوتا اور کیمونزم کے حامی اور مخالف آپس میںجنگ لڑتے۔۔۔۔۔۔ ویتنام میںجو
ہوا، اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں!
دوسری بات یہ کہ جنرل ضیاء الحق کو تو موقع نہ ملا کہ وہ اس جنگ کے بعد
پیدا ہونے والی صورتحال کی اصلاح کرتے، ان کے بعد زمام اقتدار تو سیاسی
حکمت کاروں کے پاس تھی، پھر الزام ضیاء الحق پرچہ معنی دارد؟
میڈیا کے ایسے مبصرین کی توجہ اصل دشمن کی جانب تو نہیںالبتہ وہ دشمن سے
نبردآزما دوست پر طنز و تنقید کے نشتر خوب برسا رہے ہیں، یہ بیرونی ایجنڈا
ہی ہو سکتا ہے۔ انکل سام نے تو یہ اعلان کر دیا کہ یہ خطہ دہشت گردی کی آگ
میں جھلستا رہے گا، وہ آگ جو انہوں نے دس برس افغانستان میں پاک افغان سرحد
پر پھیلے بھارتی قونصل خانوں اور ان کی پیداوار ٹی ٹی پی، اسلامک موومنٹ آف
ازبکستان اور اب داعش کی صورت میں لگائی ہے، افغانستان میں بیٹھے 9800
امریکی فوجی اس کی آبیاری کر رہے ہیں۔ Offencive Defence کے نام سے عراق
اور افغانستان کے دور کرتے اجیت دوول کا کردار کیا ہمارے صحافتی بز رجمہروں
کے سامنے نہیں؟ منوہر پاریکر کی اعلانیہ دھمکی کے بعد بھی کوئی ابہام باقی
رہ جاتا ہے کہ دہشت گروں کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں...؟ جب پاکستان
اقتصادی راہدای کی تعمیر ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، افغانستان میں امن عمل
اور مشرق وسطیٰ میں مصالحت کے لیے کوشاں تھا اور دنیا میں اس کی حیثیت اور
اس کا مقام (Credibility) مستحکم نظر آ رہا تھا تو خیبر پختونخوا کے مرکز
علم پر حملہ کر کے کس نے اپنے دل کا غبار نکالا ہے؟ اس سے بخوبی واضح ہو
جاتا ہے کہ علم اور ہنر کا دشمن کون ہے اور کس نے ''طالبان علم و تحقیق''
جیسے آسان ہدف پر حملہ کر کے قوم کو ''تکلیف دہ سبق'' سکھانے کی کوشش کی
ہے؟
دشمن کا مقصد تعلیمی ادارے پر حملہ کر کے عوام میں خوف پھیلانا اور ان کے
حوصلوں کو پست کرنا تھا۔ تاہم اس کے بعد بعض ذرائع ابلاغ میں جس انداز میں
خبریں پیش کیں، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس مقصد کے لیے کوشاںتھے۔
چارسدہ یونیورسٹی میں سکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ نے ماضی کے برعکس
جراتمندانہ انداز میں حملہ آوروں کا مقابلہ کیا، باچا خان کی برسی پر جس
ہال میں تقریب ہونا تھی، دہشت گردوں کو گھسنے نہیں دیا گیا۔ دو حملہ آور
سکیورٹی گارڈز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، کیمسٹری کے استاد پروفیسر حامد حسین
شہید نے اپنے پستول سے دہشت گروں کا مقابلہ کیا اور ان کو اپنے مقاصد میں
کامیاب نہ ہونے دیا۔
میڈیا میں نیشنل ایکشن پلان پر بھی بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور
فوج کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ در حقیقت اس معاملے میں سول قیادت کا
فوج کے ساتھ ہم قدم ہونا ضروری ہے جس کا فقدان نظر آرہا ہے۔ پہلے کراچی میں
آپریشن، رینجرز کے اختیارات اور پھر اقتصادی راہداری کے روٹ پر جھگڑتے
الجھتے سیاستدانوں کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت کے خاتمے کے لیے انہیں ذمہ داری
کا ثبوت دینا ہوگا اور اس Civil Military Riftکو ختم کرنا ہوگا۔
علاوہ ازیں ایک بہت بڑی خلیج جو دکھائی دے رہی ہے اور اس کے حوالے سے حکومت
اور دیگر اداروں کی طرف سے کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آ رہا وہ قوم کی
نظریاتی تربیت ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل
رہی ہیں۔ بلاشبہ قوم کو مناسب معلومات کے ساتھ مبنی برحقیقت اور شفاف
بیانیہ (Narrative) دینا چاہیے، مگر وہ کیا ہوگا۔اسلامی پاکستان کے رہنے
والوں کو بتایا جائے کہ اسلام کیاہے اور اس میں جہاد کا درست تصور کیاہے۔
عالمی سازشیں کیا ہیں اور قوم کیذمہ داریاں کیاہیں۔
کوئی سیکولر بیانیہ ہمارے مسائل کا حل نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ میاں نواز
شریف تکرار کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ''ملک کا مستقبل جمہوری، سیکولر اور لبرل
پاکستان میں ہے''۔ یہ ایجنڈا کسی بیرونی طاقت کا تو ہوسکتا ہے، لاکھوں
شہداء کے لہو پر قائم وطن کے بانیان کا نہیں۔ دہشت گردی کے متعلق قوم پر
صورتِ حال واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ''ہادی برحق'' کے فرامین اور تاریخ اسلام
اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر لہو میں نہلانے والے کس
نام کے مستحق ہیں اور انہوں نے کس طرح اہل اسلام کی پیٹھ میں ہر دور میں
چھرا گھونپنے کی کوشش کی ہے ۔ ہمارے کالم نگاروں، ٹی وی اینکرز اور
دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ اس بیانیہ کو عام کرکے صورتحال واضح کرے اور
حکومت اس کو ریاستی اداروں، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے نصاب کے ذریعے عام
کرے۔
آخر میں میڈیا کے صاحبان علم و فضل اور ماہران الفاظ و کمال کے ناممعاصر
اخبار کے ایک کالم سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو خوارج اور مشرکین کے گٹھ
جوڑ (Nexus)کو عیاں کرتا ہے:
''بھارت اور اُن دہشت گردوں کا مقصد ایک ہے، یعنی پاکستان کی تباہی، خوارج
پاکستان کو اس لیے برباد کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کی فہم کے مطابق یہاں کوئی
مسلمان بستا ہی نہیں اور پاکستان بنا ہی غلط تھا کیونکہ اس کو بنانے والے
بقول ان کے مسلمان نہیں تھے اور ویسے بھی سارے مسلمان کون سے یہاں آکر بس
گئے، اس سے زیادہ تو بھارت میں ہیں اور اسی بنا پر وہ مرنے مارنے پر تلے
ہیں اور اسی اشتراکِ مقصد کی بنا پر ''مشرکوں'' نے ان تکفیریوں کو گود لے
لیا ہے اور ان کی ''اسلحی غذا'' میں روز بروز اضافہ کر رہے ہیں...'' |