دانش کیوں رویا؟

 دانش کیوں رویا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ہیٹ پہن کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھے اور لاہور کے بغل میں یعنی محض 33کلومیٹر دور کھیتوں میں ہیلی کاپٹر کو اتارنے کا حکم جاری کیا۔ دراصل وہ بھٹہ خشت پر خود چھاپہ مارنا چاہتے تھے، وہاں انہوں نے ایک تیرہ سالہ بچے کو بھٹے پر مزدوری کرتے دیکھا، نام اس کا محمد دانش تھا۔ صاحب بہت برہم ہوئے، بھٹہ مالک کی سرزنش کی، فرمایا، اس محمد دانش کو تو دانش سکول میں ہونا چاہیے تھا۔ بھٹے پر مزدوری کرنے والوں کے تمام تعلیمی اخراجات اٹھانے اور بچوں کو پڑھانے کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہوئے آپ اگلے بھٹے پر چلے گئے۔ اسی طرح دو اور بھٹوں پر بھی گئے، تاہم وہاں سے کسی دانش کی مزدوری کی خبر نہیں آئی، شاید پہلے والوں نے دوسرے بھٹہ والوں کو اطلاع کردی ہوگی۔ وزیراعلیٰ خود تو اب نکلے، اس سے قبل ان کے ہرکارے بھٹہ بھٹہ گئے ،کسی کو سِیل کیا اور کسی کی سرزنش، جرمانے بھی ہوئے اور کچھ گرفتاریاں بھی۔ سختی اس قدر تھی کی ڈی سی اوز اور اے سی نکل کھڑے ہوئے، یا جہاں جس افسر کی ڈیوٹی لگی وہ روانہ ہوگیا۔ اخبارات میں بے شمار اشتہار شائع ہوئے، محکموں کو خطوط پہنچے، بتایا گیا کہ بچے کو سکول داخل کروانے پر والدین کو دو ہزار روپے اور بچے کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے دور دراز رہنے والے بچوں کے لئے ٹرانسپورٹ دینے کا بھی اعلان کیا۔

وزیراعلیٰ اپنے ہیلی کاپٹر پر اچانک ’’جیابگا‘‘ پہنچے تو ہر طرف ہلچل مچ گئی، بھٹے پر گئے تو وہاں چائلڈ لیبر کا ارتکاب ہورہا تھا، محمد دانش کے بارے میں انہوں نے قول تو جاری فرما دیا، مگر تصویر بتا رہی ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے ہاتھ سے دانش کو چھُو رہے ہیں اور اینٹوں پر بیٹھا ہوا دانش رو رہا ہے۔ دراصل اس نے اس سے قبل ایسی صورت حال نہیں دیکھی تھی، یقینی طور پر اس نے ہیلی کاپٹر کو اتنا قریب سے پہلی مرتبہ ہی دیکھا ہوگا، اور میاں صاحب اور ان کی ٹیم کو بھی، یکدم نئی اور تبدیل شدہ صورت حال میں جب میاں صاحب بچے کے قریب تھے اور اسے چھو رہے تھے تو بچہ رودیا۔ اگر وزیراعلیٰ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو ذمہ داری ریاست کے سر ہی جاتی ہے، کہ نسلوں سے تعلیم سے بے بہرہ والدین جنہوں نے اپنے بچے کا نام دانش رکھ لیا تھا، انہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک وزیراعلیٰ ان کے پاس پہنچ جائے گا، مگر سوچنا یہ ہے کہ سالہاسال سے مزدوری کرتے بچے جب پڑھنے کی عمر سے نکل جاتے ہیں، تو اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟ اس بات کو بھی درست مان لیا جائے کہ ’دیر آید، درست آید‘، پھر بھی کیا اب حقیقی معانوں میں غریب اور معصوم بچوں کو چائلڈ لیبر سے نجات مل رہی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہورہا، اگر بھٹہ جات کے بارے میں وزیراعلیٰ پنجا ب نے یہ مہم شروع کررکھی ہے، تو درست اقدام ہے، مگر بھٹہ جات پر تو بہت ہی کم تناسب میں بچے ہیں، ان سے کہیں زیادہ بچے تو دیگر مقامات پر بھی مزدوری کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے میں مصروف ہیں، اگر حکومت سے گِنے چُنے بھٹہ خشت پر کام کرنے والے قابو نہیں آتے تو شہروں کی گلی گلی کی ورکشاپوں، ہوٹلوں اور دکانوں میں مزدوری کرتے لاکھوں بچوں کو کیسے سکول لایا جائے گا؟

پنجاب حکومت ہر سال آؤٹ آف سکول بچوں کو سکولوں میں لانے کے لئے مہمات چلاتی ہے، ممکن ہے کچھ بچے آتے بھی ہوں، مگر زیادہ تر جعلی بھرتیاں کرکے حکومت کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے ایک ہزار سرکاری سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ اس وقت اگر 80لاکھ بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کی عمر کے ہیں مگر کسی وجہ سے نہیں جا رہے تو ان کے لئے کیا بندوبست ہورہا ہے، اگر تمام بچے سکولوں میں آبھی جائیں تو سکولوں میں اس کے لئے جگہ اور گنجائش ہی نہیں۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ غیر رسمی تعلیم کی روایت قائم کی جائے، مخیر حضرات کو غریب بچوں کی تعلیم کے لئے تیار کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت اپنے اربوں روپے کے دیگر منصوبے موخر کرکے بچوں کی تعلیم اور صحت پر لگا دیں تو ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ رہی محمد دانش کی ’’دانش سکول‘‘ جانے کی بات تو جناب 80لاکھ میں سے اگر دس پندرہ ہزار بچے دانش سکول چلے جائیں گے تو پونے اَسّی لاکھ کا بھی تو سوچیں؟ اگر سب کو برابر ہی تعلیم دے دیں تو موجودہ دانش سکولوں کے خرچے پر سکولوں سے باہر تمام بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکتے ہیں، پھر سارے محمد دانش رونے کی بجائے پڑھ لکھ کر والدین کا سہارا بن سکتے ہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 436640 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.