سعودی عرب۔ خطے میں امن و امان کے استحکام کے لئے تعاون دراز کرے گا

شام کے حالات مزید ابتر۰۰۰ پناہ گزینوں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ
شام کی خانہ جنگی میں گذشتہ پانچ سال میں کم و بیش چار لاکھ شامی افراد بشمول معصوم بچے و خواتین ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوکر بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان میں کئی لاکھ ملک سے باہر دوسرے ممالک میں پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزاررہے ہیں جنہیں کھانے پینے اور ادویات و کپڑوں وغیرہ کی اشد ضرورت ہے ۔ لاکھوں معصوم بچے جو شام ہی نہیں بلکہ دنیا کی ترقی میں اہم رول ادا کرسکتے تھے تعلیم و تربیت سے محروم ہوگئے ہیں اگر ان بچوں کی بہتر نگہداشت نہ ہو سکی اور وہ اسی طرح در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے ماں باپ و دیگر رشتہ داروں کے ساتھ پناہ گزیں کیمپوں میں پھرتے رہینگے تو ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں یہ ایک خطرہ کی حیثیت اختیار کرجائیں کیونکہ وہ جس طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان معصوم زندگیوں نے جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ بھوک پیاس ، کسمپرسی کی حالت میں نقلِ مکانی کررہے ہیں اس سے کسی قسم کی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ۔بین الاقوامی سطح پر ان مظلوم خاندانوں کی مدد کے لئے اقوام متحدہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھکر مالی اعانت کرتے ہوئے انکے کھانے پینے ، ادویات اور کپڑوں و دیگر ضروریات زندگی کے سامان مہیا کریں اور پھر انہیں مستقل رہائش کے لئے شامی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔ہزاروں پناہ گزیں ایسے ہیں جو اس وقت واپس اپنے ملک شام جانا اپنی موت کو دعوت دینا سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی سادہ آنکھوں سے جو مناظر دیکھے ہیں اور ان پر جو قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی شاید ان خطرناک حالات کے بعد ہر کوئی اپنے ٹھکانے چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 15؍ مارچ 2011شام میں بشارالاسد کے خلاف احتجاج بلند ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا۔ اپوزیشن بشارالاسد کو بے دخل کرنا چاہتی ہیں ۔ بشارالاسد کی فوج اپوزیشن کے خلاف کارروائی کا بہانا بناکر جس بے رحمی سے عام سنیوں کا قتل عام کررہی ہیں اس سلسلہ میں ہیومن رائٹس اور دیگر ذرائع کی رپورٹس منتظر عام پر آچکی ہیں۔جس طرح بشارالاسد کی علوی حکومت اور شیعہ گروپس نے شام میں سنی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انکی جان و مال کو تباہ و برباد کردیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ایک طرف بشارالاسد کی علوی حکومت اور شیعہ کا ساتھ ایران اور روس دے رہے ہیں تو دوسری جانب نام نہاد جہادی تنظمیں شام میں بشارالاسد کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان دونوں کے درمیان شام کے سنی مسلمان حملوں کا شکار ہورہے ہیں۔ دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے جس تیزی سے شام اور عراق کے کئی سرحدی علاقوں اور دیگر شہروں و علاقوں پر اپنی فتوحالات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس میں کسی حد تک اب کمی کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ بشارالاسد کی تائید و حمات میں ایران اور روس کمر بستہ ہے۔ 30؍ ستمبر 2015کو بشارالاسد حکومت کی درخواست پر روس شام میں جہادی تنظیموں بشمول داعش کے خلاف خطرناک فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ ان کے ٹھکانوں پر حملوں کا بہانا بناکر عام شہریوں کو بھی ہلاک کیا جارہا ہے۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق ترکی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شام کی حکومتی افواج کی جانب سے ملک کے شمالی شہر حلب پر حملوں کے بعد وہاں سے نقل مکانی کرکے ترکی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں لاکھوں میں ہوسکتی ہے، ترکی کے نائب وزیر اعظم نعمان کرتلمس نے کہا کہ یہ تعداد چھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ملک ان پناہ گزینوں کی شامی سرحد کے اندر ہی امداد کرتا رہے گا۔گذشتہ پانچ سال کے دوران شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں پہلے ہی سے 25لاکھ پناہ گزیں موجود ہیں۔ ترکی کے صدر نے 6فبروری 2016کو کہا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ شام کے باشندوں کے لئے اپنے دروازے کھولنے کے لئے تیار ہیں۔ ترکی کو یوروپی یونین فنڈ فراہم کررہی ہے تاکہ وہ پناہ گزینوں کی حفاظت اور ان کی میزبانی کو یقینی بنائے۔گذشتہ سال نومبر میں یوروپی یونین نے ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ترکی کو شامی باشندوں کی میزبانی کے لئے تین ارب یورو کی پیشکش کی گئی تھی۔ ترکی کے امدادی کارکنوں نے شامی علاقے میں ان ہزاروں نئے پناہ گزینوں کے لئے کیمپ قائم کردیئے ہیں جنہیں ترک حکومت نے سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ نائب وزیر اعظم ترک نعمان کرتلمس کے مطابق ترکی کی ترجیح پہلے سے موجود پناہ گزینوں اور نئے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں ممکنہ آمد، دونوں سے نمٹنا ہے۔ انہوں نے ترکی کا بنیادی مقصد یہ بتایا کہ پناہ گزینوں کو ترک سرزمین سے باہر رکھا جائے اور سرحد پار علاقے میں سہولیات دی جائیں۔ ان کے مطابق غیر سرکاری تنظیموں نے اس سلسلے میں بہت ساتھ دیا ہے۔ ترکی حکومت چاہتی ہے کہ وہ اپنی خدمات فراہم کرتے رہیں جب کہ ترکی پناہ گزینوں کی مہمان داری شامی سرحد کے اندر ہی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ شام کے حالات ہر روز خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب نے شام میں زمینی کارروائی کرنے کا عندیہ دیدیا ہے جس کا امریکہ نے خیرمقد کیا ہے سعودی عرب کے بعد بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی فوج شام بھیجنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ایران جو شام میں بشارالاسد کی تائید و حمایت کرتے ہوئے فوجی امداد فراہم کررہا ہے ، اب جبکہ سعودی وزیر دفاع کے مشیر جنرل احمد عسیری کے بیان کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈرجنرل محمد علی جعفری نے کہا ہے کہ ’’ہماری زمینی افواج کے اہل کار شام میں لڑائی میں شرکت کیلئے بہت زور دے رہے ہیں تاہم یہ دانش مندی نہیں کہ ہم براہِ راست قتال کے لئے وہاں مزید فوجی بھیجیں۔ تجزیہ نگاروں نے علی جعفری کے بیان کو شام میں بڑھتی ہوئی ایرانی ہلاکتوں کے ساتھ جوڑا ہے کیونکہ ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق 17افسران سمیت پاسداران انقلاب کے 36ارکان گذشتہ چند دنوں کے دوران حلب کے شمالی دیہی علاقوں میں لڑائیوں کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے اعلان کے بعد ایران کے پاسداران انقلاب کے لیڈروں میں پایا جانے والا خوف تہران کی بوکھلاہٹ کا نمایاں ثبوت سمجھا جارہا ہے۔ جنرل محمد علی جعفری کا بیان ’’ایران شام میں صدر اسد کی حمایت میں فوج اور شیعہ ملیشیا کی تعداد میں اضافہ نہیں کرے گا‘‘ خود پاسداران انقلاب میں خوف تصور کیا جارہا ہے۔ البتہ بعض دوسرے لیڈر حسین سلامی نے سعودی عرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ریاض‘‘ شام میں مداخلت کی غلطی سے باز رہے۔ ادھر شام نے بھی سعودی عرب کو انتباہ دیا ہے کہ اگر سعودی عرب کی فوج زمینی کارروائی کرنے شام میں داخل ہوگی تو انہیں تابوتوں میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ اس طرح شام کے حالات مزید پیچیدہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکہ اور اتحادی ممالک داعش کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ان ممالک میں عرب ممالک بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں جبکہ روس اور ایران بشار الاسد کے اقتدار کو بچائے رکھنے کے لئے ہرممکنہ کوشش کررہے ہیں۔ پانچ سالہ عرصہ میں لاکھوں افراد کی ہلاکت اور ایک کروڑ سے زائد افراد کی بے سروسامانی میں مزید کتنا اضافہ ہوتا ہے ۔ شام اور عراق کے حالات مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں ، داعش کے ٹھکانوں پر حملے اور ان سے مقبوضہ علاقے چھیننے کی بات ہوتی ہے تو دوسری جانب داعش کی سرگرمیوں میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ اور عالمی سطح پر بعض ممالک میں حملوں کی کڑی داعش سے جوڑی جارہی ہے ، اس میں کتنی حقیقت ہے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ عالم اسلام کو ان حالات کے تناظر میں متحدہ طور پر امن و آمان کے قیام کے لئے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے فیصلے کرنے ہونگے۔

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشرفین نے سعودی عرب کے قومی ثقافتی میلہ کی سالانہ تقریب کے دوران کہا کہ ہم عرب اور مسلم بھائیوں کی انکے ملکوں کے دفاع ، استحکام اور ان میں امن وآمان کے لئے وہاں کے عوام کے منشاء کے مطابق تعاون کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہماری مشترکہ لڑائی دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ جہالت اور غربت کے خلاف جنگ ہے اور یہ لڑائی اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گی۔ شاہ سلمان نے کہا کہ مسلمانوں کے قبلہ اور حرمین شریفین کے محافظ و نگہبان ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں بھی بہت بڑی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کو اندرونی اور بیرونی سطح پر کئی چیالنجس کا سامنا ہے مگر ریاض ہر طرح کی مشکلات اور چیالنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ انہو ں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اسلام محبت اور ایک دوسرے سے تعاون کا مذہب ہے۔ شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ وہ پورے خطے میں دیرپا امن و استحکام کے خواہاں ہیں ۔ یمن اور شام کے حالات نے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو متحدہ طور پر سنی مسلمانوں کی سلامتی کیلئے کھڑے ہونے پر مجبور کردیا کیونکہ شام، عراق اور یمن میں سنی مسلمانوں کا قتل عام ان ممالک کے حکمرانوں کے لئے ایک بہت بڑا چیالنج ہے اگر اس چیالنج کا سختی سے جواب نہیں دیا گیا تو مستقبل میں ان ممالک کے حالات بھی خطرناک موڑ اختیار کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام ان دنوں شام اور یمن میں فضائی کارروائی کے بعد زمینی کارروائی کو اہمیت دے رہا ہے اب دیکھنا ہے کہ شام میں امن و امان کے قیام کے لئے زمینی کارروائی کا آغاز ہوپاتا ہے یا پھر ۰۰۰ادھر ایران کے روحانی رہنما

آیت اﷲ علی خامنہ ای نے شام میں فوجی مداخلت کی حمایت اورشامی صدر بشارالاسد کے دفاع میں لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرنے والے پاسداران انقلاب کے افسروں اور سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق سپریم لیڈر نے ان خیالات کا اظہار شام میں مارے جانے والے فوجیوں اور دوسرے جنگجوں کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران کیا۔ اس موقع پر خامنہ ای کا کہنا تھا کہ شام میں ہمارے بہادر سپاہیوں اور افسروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ وہاں کا دشمن ہمارے ملک میں نہ پہنچ پائے۔ اگر ہمارے یہ سپوت شام جا کر نہ لڑتے تو ہمیں دشمن کا مقابلہ ایرانی شہروں کرمان شاہ، ہمدان اور دوسرے علاقوں میں کرنا پڑتا۔اس طرح ایرانی حکومت کو بھی یہ خطرہ دکھائی دے رہا ہے داعش اور دیگر نام نہاد جہادی تنظیمیں انکے ملک پر حملہ آور ہوسکتی ہیں۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اس سلسلہ میں کچھ کہانہیں جاسکتا ۔ البتہ شام ، عراق اور یمن میں سنیوں کے قتل عام میں ایران اور شیعہ ملیشیاء کے ملوث ہونے کا باوثوق ذرائع نے اعلان کیا ہے ۔ اب ایران کے روحانی پیشوا یا حکمرانوں کے بیانات ایران کی پست ہمتی و خوف متصور کیا جائے گا یا حقیقت اس سلسلہ میں قارئین فیصلہ کرسکتے ہیں۰۰۰
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 352 Articles with 210241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.