اداروں کی نجی کاری اور حکومتی دعوے

بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور حکمران جن سے قوم کو توقعات وابستہ ہیں ، آخراس ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں ، ہر طرف لوٹ مار جاری ہے لیکن کوئی پوچھنے اور روکنے والا نہیں ، جن لوگوں اور اداروں نے احتساب کرنا ہے یا سزائیں دینی ہیں ان پر خود کیسز موجود ہیں۔ سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے سے پہلے دعوے اور وعدے تو بہت کرتی ہیں لیکن جب سیاسی لیڈر حکومت میں آجائیں تو ان پر عملدرآمد تودور کی بات ان باتوں کا بالکل الٹ ہی کرجاتے ہیں ۔ملک کے مسائل کیا ہیں؟ اورعوام کو کیا چاہیے ؟حکمرانوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ، ہرسر کاری ادارہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن اس کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی کام یا قدم بھی نہیں اٹھایا جارہاہے۔نون لیگ کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا کہ پی آئی اے سمیت پیپلز پارٹی دور میں تباہ شدہ اداروں کو منافع بخش بنائیں گے ، کرپشن کا خاتمہ کریں گے،ملک میں میرٹ کانظام لائیں گے اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کریں گے لیکن آج نون لیگ حکومت کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے رونا آتا ہے کہ جووعدے کیے گئے تھے آج وہ وعدے تو پورے نہیں ہورہے ہیں، البتہ اداروں کی تباہی پہلے سے زیادہ ہوئی ہے۔ایک طرف نجکاری کے خلاف بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف سر کاری سطح پر نئے ادارے بنائے جارہے ہیں۔ اداروں کی نجی کاری ہونی چاہیے یا نہیں اس سے اہم سوال یہ ہے کہ جن اداروں کی نجی کاری ہوئی ہے اس سے ملک وقوم کو کیا فائدہ ملا ہے، اب تک کے اعداد وشماریہ بتاتے ہیں کہ ملک میں جو نجکاری ہوئی ہے اس میں 22فیصد نجکاری کامیاب ہو ئی ہے جبکہ 78فیصد نجکاری ناکام رہی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ حکومت کاکام یہ نہیں کہ وہ کاروبار کرے اور ادارے چلائے، بالکل درست بات لیکن ویسے چین میں99فیصد ادارے سرکاری تحویل میں اب بھی ہیں۔ اس سے قطع نظر یہ بات کہ پاکستان میں ایک زمانے میں جی ٹی ایس بسیں ہوا کرتی تھیں جن کوبھی ختم کیا گیا لیکن اس کی جگہ اب میٹرو بسیں لاہور اور راولپنڈی کے مخصوص آبادی کے لئے شروع کی گئیں اور نعرہ یہ بلند کیا گیا کہ ہم عوام کو سستی اور اچھی سہولت دینا چاہتے ہیں جس پر 150 ارب روپے تو اپنی جگہ خرچ کیے گئے لیکن جو سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوئی ہیں ان کو آج تک ٹھیک نہیں کر ایا گیا جبکہ خسارے کو پورا کر نے کیلئے ہر سال چار ارب روپے مزید سبسڈی میٹرو بس کو دی جارہی ہے جو اس غریب عوام کی جیبوں سے نکلے گی ،اس کے لئے تواربوں روپے ہیں لیکن جوادارے پہلے سے موجود ہیں ان کو ٹھیک کرنے کے لیے وقت اور پیسہ نہیں ہے، نجکاری کے نام پر پی ٹی سی ایل کے شیئر فروخت کیے گئے لیکن اس کی رقم تقریباً 3سوارب روپے ابھی تک عرب کے شہزادوں سے نہیں لی گئی جبکہ منافع ہر مہینے ان کی جیبوں میں جاتا ہے، اسی طر ح تین سو ارب سے زائد ان کو پی ٹی سی ایل کے اثاثے دیئے گئے ہیں جس طرح ایم سی بی اور حبیب بنک کو بیچا گیا تھااسی طرح آج پی آئی اے کو فروخت کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ، اب پی آئی اے کے جواثاثے ہیں ان کو کم ظاہر کرکے پی آئی اے کا خسارہ ظاہر کیا جارہا ہے جو کل پی آئی اے کی جائیدادیں فروخت ہوگی یعنی اسلام آباد میں پی آئی اے آفس واقع بلیوایریا کی قیمت تقریباً مارکیٹ کے حساب سے تین ارب ہوگی لیکن ہمارے سرکاری اداروں نے اس کی قیمت 80کروڑ ظاہر کی ہے اسی طرح ہر جگہ ہوگا،حکومت ایک طرف پی آئی اے کو بیچنے کی تیاری میں ہے تودوسری طرف چند ماہ پہلے اسی تباہ شدہ ادارے کے لئے مزید طیارے خریدے گئے یعنی پی آئی اے جہاز 18سے 31کردیئے گئے ہیں جب کہ اس تباہ شدہ ادارے پی ائی اے کا ٹکٹ سفارش سے ملتا ہے۔ نقصان تو وہ ادارہ کرتا ہے جو نہ چلے یا مارکیٹ میں اس کو استعمال کرنے والے نہ ہوں لیکن پی آئی اے میں ایسا نہیں ہے ہر سال اربوں روپے کرایے کی مد میں حاجیوں سے کمایا جاتا ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ کوئی مائی کا لعل اٹھے اور وہ ادارے کو ٹھیک کرنے کا تہیہ کریں، ملازمین کی تعداد جہاں پر زیادہ ہے اس کو کم کر یں جہاں جہاں مسئلے درپیش ہیں ان کو ختم کریں ۔مجھے یہاں پر ایک پرانی بات یا د آگئی ،مجھے یقین ہے کہ وہ مسئلہ آج بھی پی آئی اے میں کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوا ہوگایعنی پی آئی اے کے ایسے ملازمین جو کراچی میں رہتے ہیں لیکن وہ جاب اسلام آباد یا لاہور میں کرتے ہیں وہ صبح پی آئی اے جہاز سے اسلام آباد آتے اور شام پانچ بجے پھر کراچی پی آئی اے سے جاتے ہیں ،اسی طرح جو لوگ اسلام آبا د رہتے ہیں اور ان کی نوکری کراچی میں ہوتی ہیں یہی طریقہ اپنایا جاتا یعنی جتنی دیر میں ہم راولپنڈی اور کراچی کے ٹریفک میں دفتر پہنچتے ہیں، اتنی دیر میں کراچی سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے کراچی جاتے ہیں جبکہ عام لوگوں کو ٹکٹ آج بھی پی آئی اے کا سفارش سے ملتا ہے، اسی طرح دنیا کی دوسرے ایئر لائنز کے برعکس ملازمین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس میں پیپلز پارٹی اورنون لیگ کی حکومتوں نے اپنے لوگ بھرتی کیے ہیں جو دوسری سہولیات پی آئی اے ملازمین کو حاصل ہیں وہ بھی اس ادارے کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے تو ادارہ تباہ نہیں ہوگا یانقصان نہیں کرے گا تو کیا کر ے گا ۔حکومت جودعوے کررہی ہے وہ اپنی جگہ لیکن نجکاری سے پہلے اس ادارے کوٹھیک کیا جانا چاہیے، جان بوجھ کر اس ادارے سمیت کئی اداروں کو تباہ کیا گیا ۔حکومت اپنی تر جیحات میں تبدیلی لاکر ملک کے اداروں کو ٹھیک کرنے کا پہلے بندوبست کر ے بعد میں اس کو فروخت کرے تا کہ ملک وقوم کا کچھ نہ کچھ فائدہ ہو جائے۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226248 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More