پی آئی اے کو بچانا ہوگا
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
ماضی میں PIA ایسی لاجواب ائیر لائن
تھی جس میں دنیا کے بڑے لوگ سفر کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے دنیا کے
مہنگے ترین شہروں میں اس کی کروڑو ں ڈالرز کی املاک تھیں جو اب بھی موجود
ہیں اس کے پاس دنیا کے سب سے جدید طیارے تھے جو اب شاید ہی ہوں اس کی
پائلٹوں اور دیگر عملے کی فنی مہارت کی دنیا معترف تھی پھر ،پھر ہوا یوں کہ
یہ ادارہ ہمارے نااہل اور کام چور لوگوں کے ہاتھ چڑھا اور انھوں نے اسکو
تختہ دار تک پہنچا دیا اس کو ریورس گئیر لگا دیا گیا رہی سہی کثر سیاسی
بھرتیوں نے پوری کر دی اور کرتے ،کرتے وہی ادارہ جو دنیا میں کئی ائیر
لائیوں کے بنوانے میں اہم رہا تھا خود اپنے لئے امداد اور فنڈز مانگنے لگا
اور کرتے، کرتے اس ادارے کا منافع خسارے میں بدل گیا اور آج اس کو ملک کے
لئے سفید ہاتھی کہا جا رہا ہے۔ میرا حکمرانوں سے اور پالیسی سازوں سے سوال
ہے کہ اگر یہ ادارہ ملک پر تین سو ارب کا بوجھ ہے بقول ان کے تو ملک جو
کھربوں ڈالرز کا مقروض ہے اس کا کیا، کیا جائے کیا ملک کی نجکاری بھی کی
جانی چاہے؟ یہ فتویٰ کون دے گا اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت مشکل ہے
حکمرانوں کی نظریں PIA کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ اس کی ملکیت میں نجی
املاک پر ہیں جو کھربوں ڈالرز کی ہیں یہی وجہ ہے کہ ماضی میں باکمال لوگ،
لاجواب سروس کا دعوی کرنے والی PIA آج کل نجکاری کی زد میں ہے جس کے بچ
جانے کے امکانات صفر ہیں دوسری طرف ملازمین ہیں جنھیں اپنے مستقبل کی فکر
ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے PTCLاور دیگر پروائیویٹ ہونے والے اداروں کے
ملازمین کو دیکھ چکے ہیں PIA کی نجکاری کرنے کے فیصلے کی بڑی وجہ خسارہ
بتایا جاتا ہے نجکاری کا تصور بنیادی طور پر برا نہیں مگر دنیا بھر میں
نجکاری کے دوران شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے شفافیت میں یہ بھی شامل ہے
کہ پہلے بین الاقوامی شہرت کی حامل فرم متعلقہ اداروں کا حساب کتاب اور
ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کرے کہ کون کون سے ادارے ریاست کو حقیقی معنوں میں
منافع دے رہے ہیں اور کون سے ادارے خسارے میں ہیں؟ کیا ان خسارے والے
اداروں کی نجکاری کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ نجکاری سے پہلے ہر ممکن کوشش کی
جاتی ہے کرپشن کو ختم کر کے، مینجمنٹ کو صاف شفاف بنا کر اور اْس کے
انتظامات کو بہتر بناکر اس نقصان میں جانے والے ادارے کو قابل منافع بنایا
جائے جب منافع کے حصول کے تمام امکانات ادارے سے ختم ہو جائیں، سو فیصد
شفافیت، دیانتداری لا کر بھی کسی ادارے کو ریاست کی ملکیت میں قابل منافع
نہ بنایا جاسکے تو اْس کو نجکاری کے لئے پیش کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں
گنگا الٹی بہتی ہے یہاں یہ صورت حال نہیں دیکھی جاتی بلکہ مجھے کتنا فائدہ
ہو گا یہ دیکھا جا تا ہے ۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1990
سے لے کر 2015 تک 170 قومی ادارے تقریبا 500 ارب روپے میں فروخت کئے گئے
ہیں ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں نجی ملکیت کو دیئے
گئے 45 فیصد اداروں کی کارکردگی ویسی کی ویسی ہی ہے جیسے پبلک سیکٹر میں
تھی۔ 35 فیصد ادارے پہلے کی نسبت خراب کارکردگی دکھا رہے ہیں جبکہ نجی
ملکیت میں دیئے گئے صرف 20 فیصد ادارے پہلے سے بہتر کام کر رہے ہیں۔ تاہم
ابھی تک ایسے اعدادوشمار منظر عام پر نہیں آئے کہ حکومت نے آج تک جتنے
ادارے نجی شعبے کے حوالے کئے ان سے حاصل ہونیو الی کتنی رقم سے کتنے غیر
ملکی قرضے ادا ہوسکے ہیں لیکن ایک سادہ حقیقت یہ ہے کہ تمام تر نجکاریوں کے
باوجود پاکستان کے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
PIA خسارے میں گیا کیوں اس بات پر کھبی کسی نے نہیں سوچا بس نجکاری، نجکاری،
نجکاری کی رٹ لگانے والے ہمارے ہر دور کے حکمران اسکو اپنے تھوڑے سے فائدے
کے لئے قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے نجکاری کیشن
یا کمیٹی تعین کرتی کہ PIA کے خسارے کے اسباب کیا ہیں؟ جب اسباب کا تعین ہو
جائے پھر اگلا مرحلہ ہے کہ اْن کے ازالے کی کاوشیں ہوئی ہیں یا نہیں؟ حکومت
نے تو اقتدار میں آنے کے بعد ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ
آتے ہی نجکاری کا فیصلہ کرڈالا تھا ایک زمانے میں PIA ٹھیک ٹھاک کما کے
دیتا رہا ہے اور آج بھی دے سکتا ہے اگر اس کو منافع کمانے دیا جائے تو؟آج
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اداروں کی نجکاری کرنے کے بجائے ان اداروں میں
میرٹ کو یقینی بنائے اور اداروں میں ایسے سربراہ لگائے جائیں جو اداروں کو
بہتر کریں اس کے لئے مناسب بندوبست کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ملک کو
IMF کے چنگل سے چھڑانے کے لئے اس سے قرضہ لینے اور ان کی خواہشات کی تکمیل
کے لئے ملکی اداروں کو بیچنا کوئی دانشمندی نہیں ساتھ ،ساتھ جن اداروں کی
نجکاری ہوئی ہے ان کے ملازمین کے حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہونی
چاہے ملکی سطح پر جس طرح اداروں کی اونے پونے داموں سیل جاری ہے ایسے تو
ملک کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا بلکہ جو ادارے ملکی خوشحالی کا آئینہ دار
ہیں ان کے ملازمین میں بھی بدلی پھیل جائے گی یوں ملکی ترقی کا پہیہ رک
جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم ایک ایک کر کے تمام اہم ملکی ادارے اپنی
نااہلیوں کی وجہ سے کھو دیں گے۔ |
|