5فروری کو پاکستان میں دنیا کی ایک مظلوم
ترین کشمیری قوم سے اظہار یکجہتی کا دن منایا گیا تو 9اور 11فروری کو کشمیر
بھر میں مکمل ہڑتال اور مظاہروں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کشمیریوں نے
بھارتی ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کیا۔
11 فروری1984کوبھارت نے کشمیری قوم کے ہر دلعزیز نوجوان رہنما مقبول بٹ کو
آزادی مانگنے کی پاداش میں قاتل قرار دے کر تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید
کر کے وہیں دفن کر دیا تھا۔ ان کا جسد خاکی آج بھی وہیں دفن ہے تو کشمیری
نہ انہیں بھولے اور نہ یہ مطالبہ کمزور پڑا ہے کہ ان کا جسد خاکی ان کے
حوالے کیا جائے۔کیسی عجیب داستاں ہے کہ بھارت جس مقبول بٹ کو دنیا سے مٹانا
چاہتاتھا ،اسے کشمیریوں نے ’’بابائے قوم‘‘ قرار دے دیا۔ اس شہید کی یاد کی
شمع ہر روز پہلے سے زیادہ روشن تر ہے اور شہید کی والدہ محترمہ آزادی کی
راہ میں 4بیٹے قربان کرکے آج90سال کی عمر میں بھی تحریک آزادی چلا رہی ہے
اور بھارت اس گھرانے کی آواز دبانے میں نامراد ہے۔
بھارت کے لئے عذاب جان جیسی دوسری نعش شہید افضل گورو کی ہے جنہیں بھارت نے
گزشتہ سال 9 فروری2013 کو پھانسی دے کر اسی جیل میں دفنا دیا گیا۔1969ء میں
سوپور میں پیدا ہونے والے افضل گورو بھی تحریک آزادی کے ساتھ دل و جاں سے
وابستہ تھے۔ انہوں نے جہادآزادی میں سینکڑوں مجاہدین کی کمانڈ کی۔جب 1994ء
میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے آزادی کی سیاسی تحریک شروع کی تو وہ اس کے
ساتھ چل دیئے۔
13 دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا جس کا الزام لشکر طیبہ اور
جیش محمد پر لگایا گیا۔ حملے کے دو روز بعد ہی 15 دسمبر کو افضل گورو کو
گرفتار کر لیا گیا اور پھر ان پر ریاست کے خلاف بغاوت و جنگ سمیت اس حملے
میں ہر طرح سے ملوث ہونے کے الزامات لگا کر سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا
گیا۔ 20 اکتوبر 2006ء کو سزائے موت دینا طے پائی لیکن کشمیریوں کے غم و غصہ
کو دیکھ کر بھارتی حکومت نے فیصلہ موخر کر دیا۔ کرتے کرتے 2013 آیا اور 9
فروری کو سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔افضل گورو پھانسی چڑھ گیا…… اس
کی وصیت کے مطابق اس کی والدہ، بیوہ اور بچے نے ایک آنسو نہ بہایا لیکن
کشمیری قوم نے خون کی ندیاں بہانا شروع کر دیں۔ شہید مقبول بٹ کو بھارت نے
پھانسی دی تو کشمیریوں نے اس کا جواب 31 جولائی 1988ء کو سرینگر میں
2دھماکوں کے ذریعے وہ تحریک آزادی شروع کر کے دیا جس نے تاریخ عالم بدل دی۔
10 لاکھ فورسز 28 سال بعد بھی کشمیریوں کا نہ سر جھکا سکیں، نہ ان کی زبان
بند کر سکیں۔ بھارت کا کچھ عرصہ سے دعویٰ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جہادی
جدوجہد کمزور پڑ کر ختم ہو چکی ہے لیکن افضل گورو کی پھانسی کے بعد اس نے
خود بار بار تسلیم کیا ہے کہ جہادی تحریک ہر روز تیز تر اور اعلیٰ تعلیم
یافتہ نوجوان اس میں زیادہ شریک ہو رہے ہیں۔ بھارت نے آزادی کے ان متوالوں
کو روکنے کے لئے جو بن سکتا تھا، وہ کچھ کیا۔ کنٹرول لائن پر بلند و بالا
اور تہہ ور تہہ تار بندی، کیمرے، سنسرز، واچ ٹاورز، انتہائی تیز لائٹ ٹاور،
پٹرولنگ، بارودی سرنگیں، ڈرون کے بعدر سیٹلائٹ سے نگرانی اوراب لیزر دیوار
او ر اس کے بعد نجانے کیا کیا……؟ لیکن بات نہ بنی…… بھارت کی جانب سے دنیا
بھر کی ٹیکنالوجی اور حمایت کے باوجود آر پار آتے جاتے کشمیریوں کو نہ روکا
جا سکا۔32 سال پہلے بھارت کی لڑائی ایک لاش سے شروع ہوئی تھی تو 31 سال بعد
یہ لڑائی بڑھ کر دوسری لاش تک پہنچ گئی۔ ایک بعد دوسری نعش نے برہمنی
سامراج پر لرزہ طاری کر رکھا ہے۔بھارت ان دونوں کے اجساد خاکی ان کے
لواحقین کو دینے پر تیار نہیں۔پھر یہ کیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے
؟اور کیا دو انسانوں کی لاشوں سے ڈرنے والے کو اس میں سے ذرا کچھ بھی کبھی
ملنا چاہیے جس کا وہ آرزو مند ہے۔ہماری تو اب بھی یہی نصیحت ہے کہ بھارت کو
جتنا جلد ہو سکے ،نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ تاخیر کشمیر کے ہاتھ سے
نکلنے کے ساتھ ساتھ ہزار گنا زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔تقسیم ہند کے وقت
پاکستان اور بھارت کی علیحدگی کا جو فارمولا طے ہوا تھا اس کے مطابق تو
کشمیر پاکستان ہی کا حصہ بنتا تھا لیکن پاکستان کا قیام انگریز کو قطعاً
منظور نہیں تھا، سو انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ سازباز کر کے کشمیر پر بالجبر
قبضہ جمانے اور وہاں بھارت کو ہمیشہ کے لئے بٹھائے رکھنا کا پورا پورا
اہتمام اور انتظام کیا۔ دوسری طرف مظلوم کشمیری قوم اس وقت سے آج تک جدوجہد
آزادی میں مصروف ہے۔ اس کشمیری قوم کی کلمہ طیبہ کی وجہ سے پاکستان سے محبت
اس قدر لازوال ہے کہ بے پناہ ظلم و ستم سہنے اور ہر روز آگ و خون کے دریا
پار کرنے کے بعد بھی وہ پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے اور پاکستان کے پرچم
لہراتے ہیں۔ بھارتی فوج روزانہ اس جرم میں کتنے ہی معصوم کشمیری بچوں کو
نصف شب کو چھاپے مار کر گرفتار کرتی اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتی
ہے لیکن کشمیری نعرۂ حق بلند کرنے سے باز نہیں آتے۔ کشمیر کے اطراف و اکناف
میں ہر روز معرکہ آرائی بھی ہوتی ہے اور ہر روز ہی کشمیری نوجوان اپنی
جانیں قربان کرتے ہیں کہ انہیں آزادی کی نعمت میسر آ جائے۔
دنیا گواہ ہے کہ کشمیری قوم کی اس تحریک آزادی کی حمایت کیلئے جماعۃ الدعوۃ
روز اول ہی سے متحرک ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اگر آج بھارت کو جماعۃ الدعوۃ
کے وجود اور حافظ محمد سعید کی تحریک سے سب سے زیادہ تکلیف ہے تو وہ کشمیری
قوم کے لئے جدوجہد ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی ایسی تنظیموں کے چارٹر
کے مطابق بھی کشمیری قوم کی حمایت کوئی جرم نہیں لیکن بھارت نے عالمی حمایت
کے باعث اسے بھی دہشت گردی سے تعبیر کروا ڈالا ہے۔ یہ بھارت ہی کی لابنگ
اور سفارت کاری کا نتیجہ ہے کہ امریکہ اور بھارت ہی نہیں، اقوام متحدہ بھی
جماعۃ الدعوۃ کے خلاف یک طرفہ فیصلے سناتی ہے اور جماعۃ الدعوۃ کے رہنماؤں
پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کرنے میں سالہال سے پیش پیش ہے۔ تمام تر
سختیوں، مشکلات، پریشانیوں اور رکاوٹوں کے باوجود جماعۃ الدعوۃ نے کشمیریوں
کی حمایت و تعاون سے کبھی ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا۔ 5فروری یوم یکجہتی
کے موقع پر حافظ محمد سعید تقریباً ایک ماہ تک اس مہم کی خود نگرانی کرتے
رہے اور مسلسل متحرک رہے۔ کشمیری قوم نے حافظ محمد سعید کی اس تحریک کو
ہمیشہ ہی اپنے لئے ایک ڈھال سمجھا ہے، اسی لئے تو کشمیری قوم کے سب سے بزرگ
رہنما سید علی گیلانی بھارت کو برملا کہتے ہیں کہ اگر بھارت نے ہمیں ہمارا
حق خودارادیت نہ دیا تو وہ مدد کیلئے حافظ محمد سعید کو آواز دینے پر مجبور
ہوں گے۔ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت ان کشمیریوں کی حمایت کی وجہ سے ہر
طرح کی سختیاں اور پابندیاں برداشت کر رہی ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر
بھارت ور اس کے میڈیا نے پاکستان، جماعۃ الدعوۃ اور حافظ محمد سعید کے خلاف
خوب زہر اگلا ۔ 7فروری کو حافظ محمد سعید نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں
ملک کی مقتدر صحافتی شخصیات کے سامنے اپنا مقدمہ رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت
ان کے خلاف دن رات پروپیگنڈا کرتا ، پاکستان کو بدنام کرتا ہے، کشمیر میں
بے پناہ ظلم ڈھاتا اور پھر کشمیریوں کو دہشت گرد گردانتا ہے۔ہم اس سب کے
خلاف ہی آواز اٹھاتے ہیں تو پاکستان میں ’’پیمرا‘‘ ہمارے بیان تک نشر کرنے
اور جواب تک دینے پر پابندی عائد کر دیتا ہے۔ میرا اگر کوئی جرم ہے تو مجھے
بتایا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ اگر یہ پابندی اسی طرح رہی تو اس کا
فائدہ کسے ہو گا؟ بھارت کو یا پاکستان کو……؟ اس سوال کاجواب متعلقین پرقرض
سب پر ہے- |