اسے اس دیس کی بدقسمتی کہوں یا قوم کی بے
نصیبی قیام پاکستان سے لیکر اب تک اس ملک کو کوئی ایسا حاکم نہیں ملا کہ جس
نے ملک کی سلامتی ،خود مختاری، ترقی، آمن وآشتی اورمنتشر قوت کو یکجا کرنے
کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیاہو بلکہ تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر ملک و
قوم کو طبقات ، علاقائیت، قومیت اور فرقہ واریت کے نام پر بٹوارا کیاایک
پھل اگر اپنے حکمرانوں کے رنگ ڈھنگ اور فیصلوں پر غور کریں انکی خواہشات ،حکمت
انکا رہن سہن دیکھ لیں تو ان کی حقیقت اور اصلیت صاف عیاں ہوگی اسلامی
مملکت ہونے کے ناطے اراکین پارلیمنٹ کا مذہب سے لگاؤ کے رجحان کا اندازہ اس
سے لگائے کہ کسی کو سورۃ اخلاص پڑھنا نہیں آتا تو کوئی دعائے قنوت اور سورۃ
فاتحہ میں تمیز نہیں کرسکتا کیا ان میں کہیں کوئی شائبہ ملتا ہے کہ ہم ایک
اسلامی ریاست ہیں مذہبی حوالے سے ہماری پوزیشن پہلے ہی خاصی کمزورتھی لہذا
مذہبی حوالے سے قوم کی بہتررہنمائی کی اشد ضرورت تھی مگر اس باغ کی اور ہی
ہوا ہے موجودہ حکمرانوں نے دہشت گردی کو جواز بنا کر عصری تعلیمی اداروں
میں دعوت تبلیغ اور قریبی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی کا
مغرب نواز فیصلہ صادر فرمایا اور اس طرح ہماری نوجوان نسل کو بھی اندھے
کنویں میں دھکیل کر مذہب سے دور رکھنے کی بنیاد رکھ دی سوال یہ ہے کہ کیا
دہشت گردی و بد امنی میں تبلیغی جماعت ،علماء یا مدارس ملوث ہے ؟ اگر ہے تو
آج تک کس تبلیغی یا مولوی کو گرفتار کیاگیاہے ؟ اور اگر نہیں ہوا تو ہر
واقعہ کے بعد نزلہ دینی طبقہ پر گرانے کا مقصد کیا ہے؟ملک میں دہشت گردی کے
حالیہ واقعات کے بعد حکومت کا مدارس ،علماء اور تبلیغی حضرات کے بارے میں
منفی زہنیت طبقاتی تقسیم اور ملا و مسٹر کے تفریق کی تقویت کا سبب تو بن
سکتا ہے مگر دہشت گردی کے خاتمے کا نہیں ارباب اقتدار کے بچگانہ پالیسوں
میں حکمت کم جبکہ حماقت کی کثرت ہیں دینی مدارس اور تبلیغی جماعت کے کردار
اور اہمیت سے ناعاقبت اندیش موم بتی مافیا لاعلم ہے انھیں معلوم نہیں کہ
انہی دینی مدارس اور تبلیغی جماعت میں ایسی ہستیاں آج بھی موجود ہیں کہ جن
سے علم کی لہریں بہتی ہیں قلب کے سچے علم کے گہرے اور تکلیف سے دور بات
کرتے ہیں تو زمانہ ہمہ تن گوش ہوکر سننے لگتا ہے دنیا کے مورخ کا قلم لکھنے
میں مشغول ہوجاتا ہے کہ کوئی لفظ ضائع نہ ہو یہ با کردار بوریا نشین دنیا
کی اصلاح میں محروم اور کوتاہ قسمت سمجھے جاتے ہیں لیکن درحقیقت انھیں کی
بلند ہمتی اور جذبہ قربانی پر انسانیت کی فلاح و کامرانی کا دار ومدار ہیں
یہ درویش جو اپنی جان کو مصائب میں ڈال کر ہزاروں بندگان خدا کی ابدی مصائب
سے بچنے کا سبب بنتے ہیں اور انسانیت کو شر سے خیر کی طرف لاتے ہیں انھیں
کی برکت سے انسانی خاندانوں کے ہر فرد کو انکا صحیح مقام ملا انسانی معاشرہ
ایک بے خار گلدستہ بن گیا ۔لیکن حیران اس بات پر ہوں کہ ان تمام خدمات کے
باوجود جب بھی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو سیکولر جماعتوں و انکے رہنماؤں
اور نام نہاد دانشوروں کی توپوں کا رخ مدارس ا ور ان درویشوں کی طرف ہوجاتا
ہیں نمک اور چمک کی زیر اثر میڈیا میں اصل حقائق چھپ جاتے ہیں اور مدارس کے
خلاف فضاء ہموار ہونے لگتی ہے بلکہ بعض ناداں لوگوں کی طرف سے مدارس کو
مقفل کرنے ،انھیں جلانے اور محب وطن علماء کو پھانسیاں دینے کی باتیں بھی
کی جاتی ہیں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج تک جتنا زہریلا پروپیگنڈہ مدارس
طلبہ، علماء اور دینی مذہبی طبقہ کے بارے میں کیا گیا ہے شاید ہی اتنا کسی
اور طبقے کے بارے میں ہوا ہو۔ مدارس کے اجلے دامن کو کن کن طریقوں سے
داغدار کرنے کی مذموم کوشش نہیں کی گئی ؟ان درویشوں کو دنیا کی نظروں میں
گرانے کیلئے کیا کیا منفی حربے استعمال نہیں ہوئے ؟لیکن یہ ایک اٹل حقیقت
ہے کہ آج تک جتنے بھی دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں وہ یا تو اپنے خاص پناہ
گاہوں یا اعلیٰ شخصیات کے ڈیروں اور دفاتر سے گرفتار ہوئے ہیں حیرت ہے کہ
جب دہشت گرد مدارس کے بجائے دیگر جگہوں اور مقامات سے برآمد ہو رہے ہیں
توپھر مدارس پر لعن طعن کیوں کی جارہی ہیں ؟ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا
لیبل صرف مدارس پر ہی کیوں لگایا جایا جارہا ہے؟امتیازی قانون صرف مدارس
اور اسکے منتظمین کیلئے ہی بنانے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟نام نہاد مغرب
نواز ایکٹس کے نام پر علماء کی زبانوں اور دعوت حق کو کیوں روکا جارہا ہیں
؟ عصری اداروں میں دعوت تبلیغ پر پابندی کس حکمت اور بصیرت کی بنیاد پر
لگائی جارہی ہے؟ درختوں کے سائیوں میں پڑھنے پڑھانے اور راہ حق کی دعوت
دینے کے عادی ان درویشوں نے کھبی بلڈنگوں اور مراعات کی خواہش کا اظہار
نہیں کیا بلکہ بھوکے پیاسے رہ کر اسلامی تعلیمات کی فروغ کیلئے نہ تھکنے
والی جتن کی معاشرے کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے والے یہی بوریا نشین
سفید جبہ اور دستار کے سادہ لوگ ہیں۔ انکے دست شفقت کے زیر سایہ تربیت حاصل
کرنے والے نوجوان کھبی بھی بے راہ روی اور لادینت کا شکار نہیں ہوسکتے ۔
امن و وحدت کیلئے شب وروز ایک کرنے والوں کے خلاف ایکشن جبکہ قتل وغارت گری
میں ریکارڈ بنانے والوں کو پروٹوکول نفرت اور تعصب کی چنکاری کو پھونک دینے
کے مترادف ہے اور اس خطرناک چنگاری نے اگر خدانخواستہ ایک بار شعلے کی شکل
اختیار کی تو یہ شعلے بہت کچھ راک کردے گی لہذا حاجت اس امر کی ہے کہ ارباب
اقتدار قوم کی طبقاتی تقسیم کے بجائے وحدت اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے
کام کرے نوجوان نسل کو مدارس ،مساجد تبلیغ اور دین سے متنفر کرنے کے بجائے
ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے سنجیدگی اور خلوص کا مظاہرہ کریں تاریخ گواہ
ہے کہ بغاوت اور انارکی کی بنیاد ایک طبقے کو نوازنے اور دوسرے کو دبانے سے
شروع ہوئی ہے - |