آزاد کشمیر،سیاسی خانہ جنگی کی راہ پہ !

ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی جدوجہد سرگرمی سے جاری ہے،کشمیری شہید ہو رہے ہیں ،تمام مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف آزاد کشمیر میں اقتدار و مفادات کے لئے لاشوں پر سیاست کے عریاں نظارے ہیں۔آزاد کشمیر کا خطہ مقبوضہ کشمیر کی بے مثال جدوجہد آزادی میں کشمیریوں کا ساتھ کیا دیتا،اس کی بد اعمالیوں نے خود آزاد کشمیر کو ایک تماشہ بناتے ہوئے اس خطے کے مفادات کو بھی شدید نقصانات سے دوچار کر دیا ہے۔آزاد کشمیر کبھی تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ تھا لیکن اب آزاد کشمیر میں شرمناک صورتحال نمایاں ہے۔
کوٹلی کے علاقے نکیال میںپیپلز پارٹی کے جلوس کے شرکاء اور مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کے درمیان جھگڑے میں متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ اطلاعات کے مطابق ایک بزرگ شہری پولیس کے آنسو گیس کا شیل لگنے سے ہلاک ہو گیا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کی صدارت میں ہونے والے پیپلز پارٹی کے جلسے میں ہلاک ہونے والے شہری کی لاش سٹیج پر رکھ کر جلسہ کیا گیا۔نکیال میں مسلم لیگ(ن) کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور صحافیوں کے خلاف بھی مقدمات درج کئے گئے ہیں۔مقامی اطلاعات کے مطابق پولیس مسلم لیگی کارکنوں کے گھروں پہ چھاپے مار رہی ہے اور پیپلز پارٹی حکومت کی یکطرفہ انتقامی کاروائیوں سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔پیپلز پارٹی حکومت اس طرح کی ہٹ دھرمی ،دھونس اور باغیانہ طرز عمل اپناتے ہوئے اپنی کرپشن اور بد انتظامی پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چودھری مجید نے سوموار کو آزاد کشمیر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا لیکن وزیر اعظم چودھری مجید کے یوم سیاہ کے اعلان کو آزاد کشمیر بھر میں کوئی پذیرائی نہیں ملی اور دارلحکومت مظفر آباد میں بھی محض ڈیڑھ دو درجن افراد مظاہرے کرتے نظر آئے۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان دوریاں پیدا ہونے سے آزاد کشمیر دونوں جماعتوں کی محاذ آرائی کا مرکزبنتا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے شکایت ہے کہ کرپشن کے الزامات میں پیپلزپارٹی کے افراد کے خلاف رینجرز کی کاروائی پر وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے افراد کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہی۔اسی تناظر میں بلاول زرداری بھٹو نے نکیال کے واقعہ پر سخت جملوں کا استعمال کیا۔اس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے جواب دیا کہ بلاول کو جب نکیال کی اصل صورتحال کا علم ہو گا تو وہوزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری مجید کے کان کھینچیں گے۔اس کے بعد وزیر اعظم چودھری مجید نے پریس کانفرنس میں کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور پاکستان کے اداروںکے سربراہان کوخط لکھ رہا ہوںکہ وہ دیکھیں کہ وفاقی وزرا آزاد کشمیر میںکون سی زبان استعمال کر رہے ہیں۔تاہم یہ کہتے ہوئے وزیر اعظم چودھری مجید شاید بھول گئے کہ وہ خود خلاف تہذیب زبان استعمال کرنے کے حوالے سے مشہور ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم مجید کا یہ کہنا کہ ''چیف ایگزیکٹوکے ہوتے ہوئے کوئی بیوروکریٹ جوڈیشل کمشن نہیں بنا سکتا'' ،سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور آزاد کشمیر حکومت نکیال میں ہونے والے اصل واقعہ پر پردہ ڈالنے اور اس واقعہ کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے کے لئے اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری سے بچنا چاہتے ہیں۔ اس پر وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر آصف کرمانی نے مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر کے ساتھ ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے قائم کردہ جوڈیشل کمشن کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی کرپٹ اور نااہل حکومت اور وزیراعظم آزاد کشمیر عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو گئے ہیں جس پر انہیں فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر راجہ فاروق حیدر نے کہا ہے کہ حکومت اور آزاد کشمیر ریاست میں حالات خراب کرکے انتخابات سے فرار چاہتی ہے اور وفاقی حکومت کو مجبور کیا جا رہا ہے وہ راست اقدام کرے۔

آزاد کشمیر میں الیکشن کا وقت قریب آنے کے ساتھ ساتھ مختلف انتخابی حلقوں میں مخالفت اور عناد کی صورتحال جھگڑوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔اس صورتحال سے اس بات کی ضرورت اور بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ آزاد کشمیر میں بھی گلگت بلتستان اور پاکستان کی طرح عام انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کا قیام کیوں ضروری ہے۔ آج اس فیصلے کے بارے میں بھی ضرور سوچا گیا ہو گا جس میں پیپلز پارٹی کے اندر انتشار کی صورتحال میں وزیر اعظم چودھری مجید کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی ہدایت پر روک دیا گیا تھا۔یہ بات بھی محسوس کی گئی ہو گی کہ اگر آزاد کشمیر میں بھی عام انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا ہوتا تو آج پیپلز پارٹی حکومت ''سیاسی شہید'' بننے کے لئے ہٹ دھرمی پر مبنی کاروائیو ں میں ملوث ہونے کے قابل نہ ہوتی۔آزاد کشمیر میں ہونے والے حالیہ واقعات اور مجموعی صورتحال مختلف ناکامیوں کی مثالوں کے طور پر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔یہ آزاد کشمیر میں اس پارلیمانی سیاست کے بدترین نتائج میں شامل ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کشمیر کی ذمہ داریوں سے الگ کرتے ہوئے آزاد کشمیر کی سیاست کو قبیلائی اور برادری ازم کے مفادات میں محدود و مقید کر دیا گیا۔وزیر اعظم نواز شریف نے چند وفاقی وزراء پر مشتمل آزاد کشمیر کے امور کی سیاسی کمیٹی بنا تو دی لیکن یہ کمیٹی بھی آزاد کشمیر کے معاملات کو یکسو کر تے نظر نہیں آرہی کیونکہ وفاقی وزراء کے محض بیانات سے آزاد کشمیر کی بدترین صورتحال میں بہتری لانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔یہاں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا فقدان نمایاں طور پر نظر آرہا ہے۔یہاں اس مطالبے کا اعادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے حکومتی ،سرکاری،سیاسی اور سماجی معاملات کو بگاڑتے ہوئے اتنا خراب کر دیا ہے کہ اب معمول کی کاروائیوں سے اصلاح ہونا ممکن نظر نہیں آتا،اس کے لئے بنیادی نوعیت کے اقدامات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں عوام کے حق میں اچھا نظم و نسق قائم رکھنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ وفاقی حکومت آزاد کشمیر کی سیاسی پراگندگی پر اپنی اس ذمہ داری کو احسن طور پر ادا کرتے نظر نہیں آ رہی جس کا تقا ضہ اب شدت سے ہونے لگا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے پلوامہ علاقے میں اتوار کو بھارتی فوج نے فائرنگ کرتے ہوئے ایک کشمیری نوجوان اور ایک نوجوان لڑکی کو ہلاک کر دیا جس پر مقبوضہ کشمیر میں بھرپور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور اسی حوالے سے سوموار کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف مکمل ہڑتال رہی اور بھارت مخالف مظاہرے کئے گئے۔یوں ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت سے آزادی کی جدوجہد سرگرمی سے جاری ہے،کشمیری شہید ہو رہے ہیں ،تمام مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف آزاد کشمیر میں اقتدار و مفادات کے لئے لاشوں پر سیاست کے عریاں نظارے ہیں۔آزاد کشمیر کا خطہ مقبوضہ کشمیر کی بے مثال جدوجہد آزادی میں کشمیریوں کا ساتھ کیا دیتا،اس کی بد اعمالیوں نے خود آزاد کشمیر کو ایک تماشہ بناتے ہوئے اس خطے کے مفادات کو بھی شدید نقصانات سے دوچار کر دیا ہے۔آزاد کشمیر کبھی تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ تھا لیکن اب آزاد کشمیر میں شرمناک صورتحال نمایاں ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699532 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More