تماشہ؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
قائم علی شاہ شاید پاکستان کے بزرگ
ترین سیاستدان ہیں، جن کی عمر اَسّی برس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ممکن ہے
کوئی سیاستدان ان سے بھی بزرگ ہوں، مگر عملی میدان میں وہی سب سے سینئر
دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست کھیل ہی ایسا ہے، جس میں جس کا تجربہ بڑھتا جاتا ہے
وہ نکھرتا جاتا ہے، اس کی توقیر اور وقار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اس کی
بات میں وزن ہوتا ہے، لوگ دھیان سے اس کی بات سنتے اور اس پر عمل کرنے کی
کوشش کرتے ہیں، ان لوگوں سے مشورے لئے جاتے ہیں اور ان کے تجربے سے فائدہ
اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاستدان جتنا بھی بزرگ ہوجائے وہ کبھی ریٹائر
نہیں ہوتا، اس کی ریٹائر منٹ کی عمر اس وقت آتی ہے جب وہ ضعیف ہوجائے،
سیاسی دوڑ دھوپ کرنے کے قابل نہ رہے، یا خود کو آرام کی ضرورت محسوس کرے۔
مگر قائم علی شاہ کے بارے میں حالات مختلف ہیں، وہ زندگی کی اسّی سے زائد
بہاریں دیکھ چکے ہیں، اب بھی وہ ماشاء اﷲ تندرست وتوانا ہیں۔ وہ صرف سیاست
ہی نہیں کرتے ، حکومت بھی کرتے ہیں، یہ کارِ خیر وہ پہلی دفعہ نہیں کر رہے،
اس سے قبل بھی وہ یہ اہم ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔اگر قائم علی شاہ سندھ کے
وزیراعلیٰ ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ بننے کے قابل ہیں،
یعنی وزیراعلیٰ کے لئے اگر کوئی میرٹ بنتا ہے تو وہ اس پر پورے اترتے ہیں،
اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ وزیراعلیٰ نہ ہوتے۔ یہ بھی جمہوریت کا حُسن ہی ہے
کہ ایک طرف اکیس برس کا نوجوان ممبر اسمبلی بن سکتا ہے تو دوسری طرف تراسی
برس کے بزرگ کو وزیراعلیٰ بنایا جاسکتا ہے۔ ہماری منتخب اسمبلیاں جہاں قدیم
و جدید کا حسین امتزاج ہیں وہاں ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسرے سے سیاسی
داؤ پیچ سیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے، یوں نئے آنے والوں کی تربیت کا
بندوبست بھی ہوتا رہتا ہے۔
اہالیان سندھ خوش قسمت ہیں کہ انہیں بزرگ ترین سیاستدان نصیب ہوا۔ جہاں تک
سیاسی تجربے کی بات ہے تو جو انسان جس میدان میں کام کر رہا ہے، اس کا
تجربہ اسے حاصل ہوتا جاتا ہے، اس ضمن میں سندھ کے گورنر عشرت العباد بھی
بہت سے ریکارڈ قائم کر چکے ہیں، ایک تو انہیں سندھ کا طویل ترین دورانئے کا
گورنر ہونے کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے پاکستان میں آنے
والی تین قسم کی حکومتوں کے دور میں گورنری کردیکھی ہے۔ پرویز مشرف نے
انہیں گورنر بنایا تھا، مشرف نے اگرچہ اس دور کو ’’جمہوری تڑکا‘‘ بھی لگایا
ہوا تھا اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کو ساتھ ملا کر حکومت کی تھی، تاہم دور
مشرف کا ہی گِنا جاتا تھا۔ اس کے بعد پی پی کا دور آیا، زرداری حکومت نے
بھی گورنر کی تبدیلی کی ہمت نہ کی، وفاق کی نمائندگی وہی کرتے رہے ۔ ان
دونوں حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، مگر آئین میں گورنر کے بارے میں
شاید کوئی مدت مقرر نہیں۔ اب تیسری حکومت اپنی آئینی باری لے رہی ہے، اور
عرصہ پونے تین برس سے گورنر صاحب اب ممنون حسین کے نمائندے کے طور پر خدمات
سرانجام دے رہے ہیں۔ یقینا ان کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ضرور ہے جس کی
بنا پر ہر حکومت ان کے تجربے وغیرہ سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لیتی ہے، اور
یہ ریکارڈ طول پکڑتا جارہا ہے۔
قائم علی شاہ اسمِ بامسمیٰ بھی ہیں، یعنی وہ سندھ میں اَسّی سال سے قائم
ہیں،جب سے پی پی وجود میں آئی ہے ، اس پارٹی میں موجود اور قائم ہیں، وزارت
اعلیٰ کی کرسی پر قائم ہیں۔ ان تمام مقامات پر ان کا قیام بہت پرانا ہے،
یہی ان کی خوبی ہے اور یہی ان کا ریکارڈ۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے میڈیا اور
خاص طور پر سوشل میڈیا میں ان کے بارے میں تضحیک آمیز تبصرے دیکھنے اور
سننے کو مل رہے ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی اچھی روایت نہیں، مذہب اور اخلاق کا
تقاضا یہ ہے کہ کسی کی تضحیک نہ کی جائے، خاص طور پر بزرگوں کی عزت کرنے کا
حکم دیا گیا ہے، مگر کیا کیجئے کہ ایک تو قوم بھی اب بڑوں کی عزت اور
چھوٹوں پر شفقت کی قائل نہیں رہی، نہ ہی احترام باقی ہے اور نہ ہی شفقت،
دوسری طرف خود شاہ صاحب جیسے لوگ بھی حاسدین وغیرہ کو یہ موقع فراہم کرتے
ہیں کہ وہ ان کا مذاق اڑائیں۔ پہلے تو موصوف نے غلط اشعار پڑھنے کی روایت
قائم کی، پھر شعر بھولنے بھی لگے اوراب نوبت یہاں تک آئی ہے کہ وہ باہر سے
آتے ہیں تو اپنی نشست کی بجائے کسی دوسرے کی کرسی پر براجماں ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ روز وہ اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر بیٹھے تو اسمبلی میں قہقہہ گونج گیا،
اب اپنے اوپر لوگوں کو مزید ہنسانے کی بجائے بہتر ہے، رخصت لے لیں، پھر
دیکھیں کیسے ہنستے ہیں ممبران سندھ اسمبلی؟
|
|