آزاد کشمیر: (ن) لیگ اور پی پی آمنے سامنے، کشیدگی میں اضافہ
(عابد محمود عزام, Karachi)
پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں وفاق
اور کشمیر حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ کشمیر کے ضلع کوٹلی کے
علاقے نکیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں اور پاکستان مسلم لیگ (ن)
کے متوالوں کے ٹکراؤ کے بعد سے کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات کی
سنگ باری کی جارہی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر وفاقی وزراءکی جانب سے کشمیر
میں اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دیگر اداروں
کے سربراہوں کو خطوط لکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں، جبکہ مسلم لیگ (ن) نے
وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ
دنوں آزادکشمیر کے علاقے کوٹلی میںپیپلزپارٹی کا نکیال کے حلقہ میں ورکرز
کنونشن کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی، دونوں
طرف سے پتھراﺅ اور فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا، جس کے نتیجے میں دو افراد
جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس نے اس موقع پر مظاہرین کو
منتشرکرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسوگیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی اور
فوج کو طلب کیا گیا۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردارسکندرحیات کے بیٹے
فاروق سکندرسمیت 23افراد کے خلاف مقدمہ درج، جبکہ متعددکو گرفتار کرلیا
گیا۔ کشمیر میں کارکن کی ہلاکت پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو
زرداری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اتنا ظلم کرے جتنا کل برداشت کرسکے،
جبکہ ترجمان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے سردار
سکندر حیات کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے، جس سے صورتحال کشیدہ ہوئی۔
وزیراعظم آزاد کشمیر عبدالمجید نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی بدمعاشی آزاد
کشمیر میں نہیں چلے گی۔ الیکشن سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کی منظم دھاندلی
کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے متعدد
وزراءکشمیر میں پیپلزپارٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کر رہے ہیں اور پی پی
کارکن کی ہلاکت انہی نفرت انگیز تقاریر کا نتیجہ ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز
رشید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید اپنے لب و لہجے
کو کنٹرول میں رکھیں۔ کشمیر میں اپوزیشن اور وفاق کی حکمراں جماعت مسلم لیگ
(ن) نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جیالوں کی ہلاکت کے خلاف وزیراعظم چودھری عبدالمجید کے حکم پر پیر کے روز
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا تھا۔ پیر کے
روز کشمیر میں کشیدگی برقرار رہی۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے اعلان پر پیر کے
روز آزاد کشمیر بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔ شہر بھر میں کاروباری مراکز
بند رہے۔ سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم رہی۔ نکیال میں ضلعی انتظامیہ نے
امن و امان کی فضا برقرار رکھنے کے لیے دفعہ 144 نافذ کی، جس کے تحت جلسے
جلوس، ریلیوں اور اسلحہ کی نمائش پر پابندی عاید کی گئی۔ مختلف علاقوں میں
پولیس کی اضافی نفری کو بھی تعینات کیا گیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری
عبدالمجید نے کوٹلی میں کارکنوں کی ہلاکت پر وزیراعظم نواز شریف سے معافی
کا مطالبہ کردیا۔ یوم سوگ کے موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم
آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کا کہنا تھا کہ جموں کشمیر میں نریندر مودی
اور آزاد کشمیر میں نواز شریف ظلم ڈھا رہے ہیں، جب کہ تقسیم کشمیر کو طول
دے کر مودی سرکار کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر
چاہتا تو کوٹلی واقعے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما سکندر حیات کو گلی گلی
گھسیٹتا، لیکن ایسا نہیں کیا ،اس لیے آرمی چیف جنرل راحیل شریف مسئلے کے حل
کے لیے کردار ادا کریں۔
کشمیر میں سال رواں کے وسط میں انتخابات منعقد ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے
مطابق ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نو ن کو زبردست کامیابی حاصل ہونے
کی توقع ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں برسراقتدار پیپلزپارٹی کی
حکومت کی جانب سے عام انتخابات کی آمد کے باعث علاقے میں ایسا ماحول پیدا
کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران وہ خود کو مظلوم ثابت
کرسکے۔ اس مقصد کے لیے انتخابی سرگرمیاںشر وع ہوتے ہی باہمی آویزش کو ایسا
رنگ دیا جانا طے تھا، تاکہ عام انتخابات کا ڈول ڈالنا ہی دشوار ہوجائے، جس
میں کشمیری عوام قانون ساز اسمبلی کے ارکان کا چناﺅ کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی
نے اپنی انتخابی مہم کئی مہینوں سے شروع کر رکھی ہے، جبکہ تحریک انصاف نے
آزاد کشمیر میں انتخابی مہم شروع کرنے کا محض اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان
مسلم لیگ نون نے تاخیر کیے بغیر انتخابی معرکے میں کودنے کا فیصلہ کیا اور
مختلف شہروں میں اپنی پارٹی کے کارکنوں کے کنونشن منعقد کیے، جن کو دیکھ کر
آزاد کشمیر کی انتظامیہ پریشان ہوکر رہ گئی۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) اور
پیپلزپارٹی کے کارکنوں سے تصادم بھی ہوا، جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید
اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کشیدگی اسی طرح برقرار رہی تو
امن وامان کے حالات میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے کہ قانون ساز اسمبلی کا
چناﺅ کرانا ممکن نہ رہے۔ اگر کسی طور پر انتخابات ہو جائیں تو منظر اس قدر
دھندلاسکتا ہے کہ رائے دہندگان درست فیصلہ نہ کرنے پائیں۔ حالانکہ آزاد
کشمیر کشمیری عوام کی آزادی کے لیے مورچے کا درجہ رکھتا ہے، یہاں حالات میں
بگاڑ پیدا کرنے سے تنازع کشمیر کے حوا لے سے پاکستان کے موقف میں ضعف پیدا
ہوگا۔ یہ واضح رہے کہ تقسیم ہندکے قوائد، ضوابط اور اصولوں کے تحت کشمیر
پاکستان کا حصہ ہے مگر بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان نے اسے آزاد
کرانے کی کوشش کی مگر پوری وادی کو تو آزادنہ کرایا جا سکا جو خطہ آزاد
کرایا اسے آزاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ بھارت نے بھی اسے تسلیم کیا، مگر اس
پر عمل درآمد میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ جس کے باعث یہ مسئلہ آج تک
لٹکا ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت نے مقبوضہ خطے پر اپنا قبضہ مضبوط
کرنے کی کوشش کی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف
نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آزاد کشمیر میںپیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی
کی وجہ سے کشمیریوں میں مایوسی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ آزاد کشمیر میں
گورننس، فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے
باسیوں کے لیے بہترین مثال بنا کر پیش کرنا چاہیے، تاکہ وہاں کے عوام کے
لیے پاکستان کے ساتھ الحاق میں رغبت پیدا ہو، لیکن کوٹلی میں مسلم لیگ ن
اور پیپلز پارٹی کے مابین دھنگا فساد نے سیاسی ابتری کی بدترین مثال قائم
کی ہے۔ یہ خیال رہے کہ شروع میں آزاد کشمیر میں لبریشن لیگ اور مسلم
کانفرنس بڑی سیاسی جماعتیں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد کشمیر میں
پیپلز پارٹی قائم کر کے یہاں سیاسی مداخلت کی۔ آج وہاں مسلم لیگ ن، تحریک
انصاف او رمتحدہ قومی موومنٹ بھی موجود ہیں اور پاکستان کے اندر کی عدم
برداشت والی سیاست آزاد کشمیر میں بھی نظر آ رہی ہے اور مارکٹائی کی سیاست
کو وہاں عروج ملتا نظر آرہا ہے، جس سے سیاست میں نفرت اور عدم برداشت کا
اظہار ہوتا ہے۔آزاد کشمیر میں کشمیر کاز کے لیے شائستگی اور برداشت کی
سیاست کو فروغ دیا جانا ضروری ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا
عمل ملک کے لیے نقصان دہ ہے، دونوں کو برداشت کا دامن تھام کر اشتعال انگیز
بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ |
|