خواتین میں بڑھتا ہوا موذی مرض ۔چھاتی کا سرطان

خواتین کسی بھی ملک کی آبادی کا تقریبا نصف سےیا اس سے زائد ہیں، پاکستان میں خواتین آبادی کا کل۵۲ فیصد ہیں۔ جہاں یہ طبقہ پاکستان میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑ رہا ہے وہاں صحت کے شعبہ میں بھی مسائل سے دو چار ہے ۔کئی موذی مرضوں میں ایک مرض چھاتی کا سرطان ہے -

یہ سرطان مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2004 میں دنیا میں بریسٹ کینسر کی وجہ سے 5 لاکھ 19ہزار اموات واقع ہوئیں۔ دنیا بھر کی خواتین میں یہ کینسر عام ہوتا جا رہا ہے اور ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی خواتین کی کل آبادی میں 16 فی صد عورتوں کو یہ عارضہ لاحق ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال تقریبا 5 لاکھ خواتین اس بیماری سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس سرطان کی شرح ،کسی بھی ایشیائی آبادی سے زیادہ ہے ۔ مختلف ہسپتالوں میں اس مرض کے سبب 250 خواتین رجسٹر ہوتی ہیں اور110 خواتین روزانہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔ یعنی ہر سال اس سرطان میں مبتلا خواتین کے تقریباً 90ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں جو کہ 40,000 عورتوں کی موت کا سبب بنتاہے۔تقریبأٔ ہر 9عورتوں میں سے ایک عورت جب کہ بھارت میں ۲۲ میں سے ایک عورت اس موذی مرض کی شکار ہے۔۔ پاکستان میں گذشتہ پانچ سالوں میں بیس سال سے کم عمر لڑکیوں میں اس کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔

بریسٹ کینسر کا خطرہ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے جیسے مثال کے طور پر 50 سال یا اس سے زائد عمر کی عورتوں میں اس کا خطرہ ان عورتوں سے 8 گنا زیادہ ہوتا ہے جن کی عمر30 سال یا اس سے کم ہوتی ہے۔ سوائے ان عورتوں کے جن میں اس کی خاندانی ہسٹری ہوتی ہے۔بعض اقسام کے بریسٹ کینسرز 80فیصد 50سال سے اوپر کی عورتوں میں ہی ہوتے ہیں۔

بریسٹ کینسر کی کئی اقسام ہیں اور اس میں صحت یابی اور بقاء کا انحصار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا کینسر ہے۔

کسی بھی بیماری کی علامات نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جو کہ خطرے کا اشارہ ہوتی ہیں۔ اس سرطان کے حوالے سے خاص طور پر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی لیکن عمومی طور چھاتیوں یا بغل میں گلٹی یا سختی کا احساس یا سائز اور شکل میں تبدیلی، پہلے سے بیماری کی موجودگی،کھانسی کے ساتھ خون آنا،خون کی کمی ،پیشاب کے ساتھ خون آنا ،فضلے کے ساتھ خون آنا ، ،نگلنے میں مشکلات،موٹاپا، ماحولیات اثرات، ذہنی بوجھ، غذائی ضروریات کا ادراک نہ ہونا،سگریٹ نوشی، اسقاط حمل اور ضیائے حمل، ریڈی ایشن، ،دیر سے شادی اور دیر سے زچگی ، کاسمیٹکس کا مسلسل استعمال،بلڈ پریشر،کثیر الاولاد خواتین ڈپریشن کا شکار خواتین میں کم اور خوش رہنے والی خواتین کے برعکس اس بیماری کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے ۔ ہارمونز میں بے اعتدالی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق 74 فیصد خواتین ہارمونز کے عدم توازن کا شکار ٖہوتی ہیں۔

بریسٹ کینسر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے دنیا بھر میں ہرسال چار فروری کو سرطان کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس موذی مرض کی تشخیص، علاج اور بچاؤ کے بارے میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ ابتداء میں اس بیماری کی تشخیص ہو جانے پر مریض کے صحت یاب ہونے کے 90 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔

جہاں یہ یہ مرض جان لیوا ہے وہی خواتین کی ایک بڑی تعداد اس کی تمام کیفیات سے نا واقف ہیں اور اس کو ظاہر کرنے میں شرم بھی محسوس کرتی ہیں ۔ خواتین اس حوالے سےکافی غلط فہمیوں کا شکار ہیں، کہ وہ گلٹی کی کا محسوس ہونا ہی کافی سمجھتی ہیں۔

اس سرطان سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں اس کی تشخیص ہے۔ اس کے علاوہ چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو سال میں ایک بار میموگرافی ضرور کروانی چاہیے۔ میمو گرافی عام طور پر ۴۰ سال سے زیادہ عمر کی خواتین کے لیےکی جاتی ہےاور اس سے کم عمر کی خواتین کے لیے الٹراساؤنڈ کار آمد ہوتا ہے۔

اس بیماری سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے شیر خوار بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کے بجائے اپنا دودھ پلانا چاہئے، باقاعدگی کے ساتھ ورزش، مناسب عمر میں حمل ، خوراک میں احتیاط ،مثبت لائف سٹائل اور سال میں ایک مرتبہ اپنا معائنہ ضرور کروانا چاہٍے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت کی طرف سے میں اس بیماری کی آگاہی سے متعلق لیکچرز، سیمینارز کروائے جائیں ۔باقاعدہ الیکٹرانک میڈیا پر پروگرام پیش کیے جائیں ۔ پولیو ویکسین کی طرح لیڈی ورکر کا گھر گھر سروے کرنا۔اس سرطان کے حوالے سے بھی ایک دن مخصوص کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی 8 - 21 فیصد ہے اور انھیں اس کے علاج و سہولیات کے لیے باقاعدہ قانونی سازی کروانی چاہیے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Ishaq Bashir
About the Author: Muhammad Ishaq Bashir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.