جنرل ضیا الحق (مرحوم) نے غیر جماعتی
انتخابات کروائے اور حروں کے مذہبی پیشوا جنا ب پیر صاحب پگاڑا کے مرید خاص
جناب محمد خان جونیجو کو وزرات عظمیٰ کا قلمبندان سونپ دیا ۔ جس طرح جناب
ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیا الحق کی سادگی ،متانت اور مذہبی رحجان سے دھوکہ
کھا گئے بلکل ویسے ہی جناب ضیاء الحق ، محمد خان جونیجو کو نہ سمجھ سکے ۔
جونیجو صاحب نے وزیراعظم بنتے ہی گردن زند استادرا کا فارمولہ آزمایا اور
سب سے پہلے اپنے پیرو مرشد سے تقریباً کنارہ کشی کر لی ۔ پیر صاحب نے اس
گستاخانہ حرکت پر دومختصر مگر معنی خیز بیان دیے مگر جناب جونیجو پیر کی
بات نہ سمجھ پائے۔ پیر صاحب نے کہا میں بغیر وردی جرنیل اور جی ایچ کیو کا
بند ہ ہو۔ جونیجو صاحب نے توجہ نہ دی تو پھر فرمایا کہ مجھے بھاری بوٹو کی
آواز سنائی دے رہی ہے اور بلی چوہے کا کھیل ختم ہو نے والا ہے۔
جونیجو صاحب نے انتظامی اکھاڑبچھاڑ کے علاوہ زین نوارنی اور دیگر کی ایما
پر جنیو ا معاہدہ کر ڈالا جس نے افغانوں کی روس کے خلاف جیتی ہوئی جنگ کو
نہ صرف شکست میں بدل دیا بلکہ افغانستان اور پاکستان کو مستقل بد امنی اور
انتشار سے بھی دو چار کر دیا۔ روسیوں کی موجودگی میں افغانستان میں
انتخابات ہوتے اور روس ایک نئی اور منتخب حکومت کو افغانستان کے حوالے کر
کے جاتے تو آج افغانستان کا منظر مختلف ہوتا ۔ جنرل ضیاء الحق کے فارمولے
کے مطابق یہی طے پایا تھا کہ سب سے پہلے ہر دو جانب سے سیز فائر ہوگا۔ مسلم
ممالک کی امن فوج اقوام متحد کی زیر نگرانی افغانستان کے تمام صوبوں کا
کنٹرول سنبھالے گی اور افغانستان کے علاوہ پاکستان ، ایران اور دنیا بھر
میں پھیلے افغان مہاجر اور تارکین وطن ان انتخابات میں حصہ لینگے ۔ جنرل
ضیاالحق کی کاوشوں کے نتیجہ میں دس سے زیاد ہ افغان شعیہ گروپو ں نے علامہ
آصف محسنی کی قیادت میں اتحاد کیاا ور محسنی ربانی ہم آہنگی کے نتیجہ میں
محسنی ربانی گروپ کی شکل میں ایک دس جماعتی اتحاد وجود میں آگیا ۔
روسی فوج کی واخان کو ریڈ ور اور بد خشاں میں تعیناتی اور بھارتی افواج کا
سیا چین پر قبضہ اور پھر سکردو کی طرف بڑھنا روس و انڈیا مشن کا حصہ تھا
جسکا مقصد دونوں جانب سے پیش قدمی کرتے ہوئے شارع ابریشم پر قبضہ کرنا اور
پاکستان کو چین سے الگ کرنا تھا ۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی گریٹ گیم کا میدان
رہا ہے اور اب بھی ہے۔ اگر کسی سیاستدان ، صحافی اور دانشور کو سیاسی
چالبازیوں اور ڈالر گرل کی چالاکیوں اور چستیوں پر تبصرے سے وقت ملے تو وہ
تاریخ کشمیر کے علاوہ ینگ ہا سبنڈ اور کرنل ڈیورنڈ کی مہمات پر ایک نظر
ضرور ڈالیں ۔
میاں اور مودی کا پیار ۔ ینگ ہا سبنڈ اور گرو سکی کا ملا پ نہیں البتہ اس
ملاقات اور محبت میں کسی نہ کسی کا کوئی پیغام ضروری پہناں ہے۔ میاں اور
مودی کے کچھ سہولت کار بھی ہیں جن میں ایک کا نام جندال ہے۔ میاں ، مودی
اورایک نووارد مہناس گریٹ گیم کے نئے مہرے ہیں جن کی چال ماسکو ، لند ن اور
واشگٹن میں بیٹھے لمبے ہاتھ چلنے والے ہیں۔
تاریخ اور حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کا امن
تباہ کرنے میں جتنے افغانی قائدین قصور وار ہیں اتنے ہی پاکستانی سیاستدان
بھی ہیں۔ اگر محمد خان جونیجو جینوا معاہدے کا ڈھونگ نہ رچاتے تو افغانستان
اور پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے۔ جنرل ضیا ء الحق کی آمریت کا
ڈھول پیٹنے والے کبھی اپنی کوتاہیوں پر بھی نظر ڈالیں تو انہیں پس دیوار
بہت کچھ نظر آئیگا جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔
دیکھنا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے بعد دونوں جانب کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے
کس حدتک اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور حالات کا رخ بدلنے میں
کیا کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ شائد دنیا کبھی ایسا وقت بھی دیکھے گی کہ
افغانستان اور پاکستان کے قائدین اس سوچ پر متفق ہونگے کہ دونوں ملک اگرچہ
الگ اور آزاد نہ حیثیت رکھتے ہیں مگر تعلق ایک ہی جسم جیسا ہے جس کی زندگی
کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ہی روح کار فرما ہے۔
دہشتگردی ایک ایسے اژدھا کا نام ہے جس کے کئی خونخار منہ ہیں ۔ہتھیار بند
اور باردو بردار دہشت گردوں کی معاونت اور سہولت کے مراکز ہر ملک ، ہر شہر
اورہر بستی میں موجود ہیں۔ بم دھماکے ،اغوا برائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ ،
بھتہ وصولی ،کرپشن ، لینڈ مافیا ، کمیشن مافیا، شوگر مافیا، پولیس مافیا،
سیاسی مافیا ،مذہبی مافیا، صحافی مافیا ، ثقافتی مافیا اور برادر ی مافیا
سمیت سینکڑوں مافیا جات ایک ان دیکھی حکومت اور قوت بن چکے ہیں جن کے یکساں
مفادات ، مقاصد اور احداف ہیں ۔ وہ ملک اور اقوام جن کی سوچ ، قوت ، دولت
اور سرپرستی میں دہشت گردی کا اژدھا پل کر جوان ہوا آج ان کے پاس بھی کوئی
ایسا فارمولہ نہیں جو اس جن کو قابو کر سکے یا پھر ہمیشہ لیکے نیست و نابود
کر دے ۔
دیکھا جائے تو کولڈ وار دوسری گریٹ گیم کا ایندھن افغانی اور دنیا بھر کے
مسلمان مجاہدین اور جہاد کی آڑ میں بنے مگر فوائد اہل یورپ نے حاصل کیے ۔
کولڈ وار گریٹ گیم کی جگہ اسلامو فوبیا اور دہشت گردی کی اصلاحات سامنے
آئیں تو مغربی میڈیا کی ہمنوائی میں پاکستانی میڈیا اور میڈیا سے متعلق
صحافیوں ، دانشوروں اور سیاستدانوں نے بھی پاکستان ، اسلام اور افواج
پاکستان پر حملہ آور ہونے کا کوئی موقع ضائع نہ کیا۔ وہ سیاستدان اور صحافی
جو فوجی حکومتوں کے تنخواہ دار ملازم تھے وہ بھی جمہوریت اور آزاد صحافت کا
چوغہ پہن کر عالمی امن ، مغربی جمہوریت ، انسانی حقوق اور عوامی راج کا گیت
آلا پنے لگے اس دو عملی اور دوغلے پن کی وجہ نہ جمہوریت سے محبت ، عوام سے
اُنس ، امن کی چاہت اور انسانی حقوق کی پاسداری تھا اور نہ ہی وطن سے محبت
اور ملکی مفاد تھا۔ ان لوگوں کا ایجنڈ ذاتی اور مفاداتی تھا اور آج بھی ہے۔
میاں برادران اور جنرل ضیاء الحق کی قربت سے کون واقف نہیں ؟ میاں خاندان
کی سیاست اور کاروباری عظمت کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر سجتا ہے ۔ ضیا ء
الحق کی ہی مہربانیوں سے یہ خاندان سیاست میں آیا اور پھر کھوئی ہوئی
کاروباری اہمیت کو بام عروج تک لے گیا ۔ میاں خاندان کے پہلے دو ادوار اور
جاری حکومتی کاروبار نہ تو عوام کو کچھ دے سکا اور نہ ہی ملکی معیشت میں
کوئی واضح تبدیلی آئی تھک تھگڑی اور شعبدہ بازانہ ترقی نے ملک کو ہمیشہ
کنگال ہونے کے قریب کیا اور جمہوریت کے نام پر ملکی خزانہ لوٹنے والے ہر
بار مزید خوشحال ہوئے ۔ موٹروے ، پیلی ٹیکسی، قرض اتارو ملک سنوارو اسکیموں
کے بعد سستی روٹی ، لیپ ٹاپ ، دانش سکولوں اور اب کسان پیکج، ہیلتھ سکیم ،
نندی پور بجلی منصوبہ ،اُو رینج ٹرین اور میٹر و بس نے میاں صاحبان ، خواجہ
برادران ، مشیران اوروزیران کو توکروڑ سے ارب پتی اور ارب سے کھرب پتی بنا
دیا مگر عوام کو ذلت وپستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔
میاں صاحبان نے وہاں سے شروع کیا ہے جہاں زرداری صاحب چھوڑ کر گئے تھے۔
یعنی جو بچا تھا وہ اُٹھاتے چلے آئے اور تقریباً ڈھائی سال سے میگا پراجیکٹ
کے نام پر اُٹھا رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ دونوں بڑی پارٹیوں کا
میثاق جمہوریت پر متفق ہونا در حقیقت جمہوری ڈکٹیٹر شپ پرمتفق ہونے کے
مترادف ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے آئین میں ترمیم کے ذریعے ایک ایسا آئینی
ماحول بھی پیدا کر دیا ہے۔ جس کی قوت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ سیاسی
جماعتوں کے قائدئین ہیں۔ میونسپل کمیٹی کے ممبر سے لیکر نیشنل اسمبلی کے
ممبر ، سینٹر ، وزیراعظم ، صدر اور اعلیٰ عدلیہ کے جج تک کی تعیناتی ہی
نہیں بلکہ احتساب بیورو کے چیئرمین ، صوبائی ومرکزی الیکشن کمشنر ، مسلح
افواج کے سربراہان اورسینٹ کے چیئرمین تک کی تعیناتی ان کی مرضی اور منشا ء
سے ہی ہوتی ہے ۔ جوڈیشل کمیشن ججوں کی تعیناتی کرتا ہے اور حکمران جماعت کے
ہم خیال لوگ چاہیے وہ گھر کے افراد ہی کیوں نہ ہوں مسلح افواج کے سرابراہان
مقرر کرتے ہیں ۔ جنرل مشرف بڑے میاں صاحب کے پسندیدہ جرنیل تھے اور جنرل
کیانی زرداری صاحب کے منظور نظر تھے۔ جنرل کاکڑ کو سیاستدان دور ا ہے پر لے
آئے تو خاندانی عزت اور راوایات نے جنرل وحید کاکٹر کو حوصلہ دیا وہ باعزت
ریٹائر ہو کر گھر چلے گئے ۔ ایوب خان جنرل اسکندر مرزا کی پسندید ہ شخصیت
تھے اور جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کی برادری کے انتہائی عاجزا ور منکسر
المزاج شخصیت تھے۔
ہمارے سیاستدان روز اول سے ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ کاشتکاری کے لیے بیل اور
ٹریکٹر استعمال ہوتے ہیں نہ کہ ہاتھی اور ٹینک؟ ہاتھیوں اور ٹینکوں سے فصل
نہیں اگتی بلکہ زمین ہی برباد ہو جاتی ہے ۔ وہ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ جن
بڑے منصوبوں پر وہ پیسہ پانی کی طرح بہار ہے ہیں وہ صرف چند لاکھ لوگوں کی
سہولت کے لیے اور چند سالوں کے لیے ہیں جس طرح حکمران ملک کنگال کر رہے ہیں
اگر یہ روش برقرار رہی تو اگلی تین دیہائیوں میں اس ملک کا نقشہ ہی بدل
جائے گا۔
ہمارے حکمران خاندان یورپ ، امریکہ ، بھارت اور ملالیشا میں اپنے محلوں اور
جاگیروں میں عیش کرینگے اور بڑی شاہراؤں پر غیر ملکی تجارتی کمپنیاں اپنی
اجارہ داری قائم کر لیگیں ۔ ریلوے کا نظام بھارت کے ہاتھ ہوگا اور زیادہ تر
ٹرینیں کراچی سے چمن اور واہگہ سے کابل اور مزار شریف تک چلینگی ۔ پی آئی
اے پر کسی میاں منشا یا کسی ڈار یا خواجہ صاحب کی اجارہ داری ہوگی اور سٹیل
مل اگر حکومت سندھ نے واقع ہی خرید لی تو وہ زرداری صاحب کی ذاتی مل ہو گی
۔ پاکستانی مزد ورمنشا، میاں ، متل ، زرداری جندال اور کچھ غیر ملکی
کمپنیوں کی ملازمت کرینگے اور جو کچھ کمائینگے ہر شام اُسکا سودا سلف لیکر
اپنا اور بچوں کا پیٹ پا لینگے ۔ عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی اور غیر ملکی
کمپنیوں کے غلام ہونگے ۔
جس ملک میں مافیا حکمران ہو، اپوزیشن کا نام و نشان نہ ہوا ور آئین ایک خاص
طبقے کے تحفظ کا آئینہ دار ہوتو اُسے جمہوریت نہیں کیا جا سکتا ۔ قائداعظم
ؒ کی رحلت کے بعد جمہوریت اور آمریت کے کھیل میں نہ کبھی کھلاڑی بدلے اور
نہ ہی ریفری اور جیوری ۔ البتہ کھیل کے قانون بدلتے رہے ۔ خود غرضی اور
عوام دشمنی کے اس کھیل میں جیت صرف کھلاڑیوں کی ہوئی اور ہار عوام کی ہوئی۔
باغ آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے جناب امیر اکبر خان عباسی عالم دین اور
درویش صفت شخصیت تھے۔ عباسی صاحب نے 1947ء کے جہاد کشمیر کا مشاہدہ کیا اور
جن جن لوگوں نے اس جہاد سے مفادات حاصل کیے وہ اُن سے سخت نالا ں تھے۔اس
سیاسی اورعسکری تماشے کے بعد درویش صفت امیراکبر عباسی نے کپڑے الٹے پہننے
شروع کر دیے۔ وہ جہاں جاتے ایک ہی فقرہ دھراتے ’’ نوکری ہندوستان کی تنخواہ
پاکستان کی ‘‘ لو گ پوچھتے کہ اُلٹے کپڑے کیوں پہنتے ہو تو عباسی صاحب کہتے
کہ جب نظام ہی اُلٹا چل رہا ہے تو الٹے کپڑے پننے میں کیا حرج ہے۔
جناب میرا کبر عباسی کے فقرے پر غور کریں۔ نوکری ہندوستان کی اور تنخواہ
پاکستان کی، یعنی خدمت اغیار کی اور تنخواہ ، مراعات ، عیاشیاں اور مستیاں
پاکستانی عوام سے لوٹی ہوئی دولت اور قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے کی ۔ سوچیں
اور غور کریں کہ ہمارے بے صلاحیت لیڈر ہمیں ہانک کر کہا لے جارہے ؟ ان میں
تو ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسی صلاحتیں بھی نہیں۔ اگر حالت یہی رہی تو وہ
دن دور نہیں جب نوبت اُلٹے کپڑے پہننے تک آجائے گی۔ بیان کردہ حقائق کی
روشنی میں دیکھا جائے تو آج جنرل راحیل شریف اور اُن کے محب وطن ساتھیوں کو
جنرل ضیا الحق سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ایک
سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت سیاستدانوں نے ملک لوٹنے اور کسی بھی مزاحمت
کی صورت ملک توڑنے کابندوبست کر لیا ہے۔ ملکی اداروں بشمول عدلیہ کو کسی نہ
کسی شکل میں اپنے دائرہ اختیار میں کر لیا ہے اور احتساب کو مذاق میں بدل
دیا ہے۔ ساری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ کسی نہ کسی طرح فوج آئی
ایس آئی اور فوج کی معاونت کرونیوالے اداروں کو بھی زیر نگیں کیا جائے تاکہ
بچا گچھا پاکستان بھی لوٹ کر بیرون ملک منتقل کیا جائے
۔ حالیہ آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے عوام اور فوج کو پیغام دیا گیا کہ ذاتی
مفاداتی سیاسی ٹولہ اندر سے ایک ہے اور کسی بھی صورت عوام کو خوشحال اورملک
کو محفوظ نہیں دیکھنا چاہتے ۔ آل پارٹیز کانفرنس مرحوم جونیجو کی آل پارٹیز
کانفرنس کا چربہ ہے جسکا مقصد اقتصادی راہداری کا راستہ روکنا، بھارت کو
افغانستان میں مراعات دینا اور ملک کو کنگال کرنا ہے۔ جسطرح جونیجو مرحوم
کی آل پارٹیز کانفرنس نے جنیوا معائدے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس طرح حالیہ
آل پارٹیر کانفرنس اور آنیوالی کانفرنسیں ، احتجاج ، رخنے ، ہڑ تالیں ،
اسمبلیوں کے ہنگامہ خیز اجلاس ، ٹیلی ویژن شوز اور اینکروں کی چالبازیاں
اور تبصرے آخر کار پاکستان اور چین کے تعلقات بگاڑنے کا موجب بنیگے اور
بھارت بھر پور فائدہ اُٹھائے گا۔ مودی میاں محبتیں اور مشتاق مہناس کا
آزادکشمیر کی سیاست میں رول گرینڈ سازش کا حصہ ہے جسکی نشاندہی سلیم صافی
نے اپنے انگریزی کالم میں کی ہے۔ سلیم صافی کے مطابق میاں صاحب نے فوج اور
سیاسی جماعتوں کو باہم لڑانے اور خاموش تماشائی بننے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ
کرپشن ، بد امنی ، دہشت گردی کا دور چلتا رہے اور میاں صاحب اپنے ایجنڈے پر
گامز ن رہیں۔ |