سابق حکمران
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
کسی نے کیاخوب کہا ہے کہ زندگی کتاب سے بھی
زیادہ پچید ہوتی ہے،کتاب پہلے سبق دیتی ہے پھر امتحان لیتی ہے پرزندگی پہلے
امتحان لیتی ہے پھر سبق دیتی ہے ۔اس بات کی حقیقت مجھے اُس وقت سمجھ آئی جب
میں کافی دنوں بعد میٹروبس میں سوارہوا۔پہلے پہل میٹروبس میں انگلش اور
اردومیں اگلے اسٹیشن کااعلان ہواکرتاتھااورآج کل اگلے اسٹیشن کے اعلان کے
ساتھ کچھ مزیدہدایات بھی دی جاتی ہیں، برائے مہربانی سفر کے دوران اپنے
سامان کی حفاظت خودکریں،تمام مسافروں سے التماس ہے کہ جیب کتروں سے
ہوشیاررہیں ۔میٹروبس نے پاکستان میں کسی قسم کی تربیت حاصل کی ہے اورنہ ہی
تعلیم ۔پاکستانی زندگی کے امتحان میں فیل ہونے پراُس نے یہ تمام سبق سیکھ
کرمسافروں کوآگاہی فراہم کرناشروع کردی ہے۔میٹروبس کی سمجھداری کودیکھتے
ہوئے یقین ساہوچلاہے کہ پاکستانی عوام زندگی کے امتحان میں باربارفیل ہونے
کے باوجودسبق نہیں سیکھتے۔حالات چیخ چیخ کرسبق دینے کی کوشش کرتے ہیں ،ذمہ
داران(سابق حکمران) ہروقت تربیت کرتے رہتے ہیں پرمجال ہے جوہم کچھ سیکھنے
کی کوشش کریں۔جب 17اگست 1988ء کوجنرل ضیاء الحق کا جہاز حادثے کاشکارہوااُس
وقت ہم بہت چھوٹے تھے ہمیں بس اتنایاد ہے کہ سکول سے چھٹی ملنے کی خوشی
ہوئی تھی،سناہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دورحکومت میں بھی میاں نوازشریف کسی
وزارت پرمامورتھے جوموجودہ دورمیں تیسری بار وزیراعظم پاکستان ہیں اوراﷲ
جھوٹ نہ بلوائے اُن کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف مسلسل وزیراعلیٰ پنجاب
کے منصب پرفائزہیں،اندازہ کریں میاں برادارن کتنے سابق دورحکمرانی کے مزے
لوٹ چکے ہیں؟اب اُن کے تازہ ترین بیان پرغورکریں اورپھرفیصلہ کریں کہ کتنے
سخت امتحان سے گزرکربھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔اتوارکے روزوزیراعلیٰ
پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کے وفد سے گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن
کرنے کے وعدے کی تکمیل کی جانب بڑھ رہی ہے اور ملک کو اندھیروں سے نکال کر
روشنیوں میں لانے کیلئے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں ،
وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں توانائی بحران کے خاتمے کیلئے بے
مثال کام کیا جا رہا ہے ،مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے منصوبوں پر تیز رفتاری
سے دن رات کام کرنے کا کلچر متعارف کرایا اور توانائی کی کمی کے مسئلے پر
قابو پانے کیلئے ملک بھر میں تیزرفتاری سے بجلی کے کارخانے لگائے جا رہے
ہیں ،توانائی منصوبوں کی تکمیل سے 2017 ء کے اختتام تک ہزاروں میگا واٹ
بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی جس سے لوڈ شیڈنگ میں خاطرخواہ کمی
ہوگی۔وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ سابق حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور غلط
ترجیحات کے باعث ملک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا،ماضی کے حکمران توانائی
بحران کے خاتمے کیلئے سنجیدہ کاوشیں کرتے تو ملک کو توانائی کی کمی کے
سنگین مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ انہوں نے کہا گزشتہ دور آمریت میں بھی
توانائی کے شعبے کو نظرانداز کیا گیاجبکہ بے مقصد دھرنوں کے ذریعے بھی دیگر
ترقیاتی منصوبوں کی طرح توانائی کے منصوبوں میں رکاوٹ پیدا کی گئی،حکومت
کوئلے ، ہوا، سولر، گیس ، ہائیڈل اور دیگر سستے ذرائع سے بجلی کے حصول کے
منصوبوں پر کام کر رہی ہے ،پنجاب میں گیس کی بنیاد پر 3600 میگا واٹ بجلی
کے حصول کے کارخانے لگ رہے ہیں ، ساہیوال کول پاور پلانٹ مقررہ مدت سے پہلے
مکمل ہو گا ،پنجاب حکومت نے ہوا سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی کے حصول کیلئے
ڈنمارک کی کمپنی ویسٹاز سے معاہدہ کیا ہے۔انہوں نے کہا قطر سے مائع گیس کی
خریداری کیلئے طے پانیوالے تاریخ ساز معاہدے سے عوام کو سستی گیس ملے گی ،ایل
این جی کی خریداری کا معاہدہ اقتصادی راہداری کے بعد قوم کیلئے ایک اور
تحفہ ہے‘‘قارئین دیکھاآپ نے پیپلزپارٹی کے گزشتہ وفاقی دورحکومت میں
وزیراعلیٰ پنجاب نے پہلے چھ ماہ اورپھرایک سال میں بجلی بحران ختم نہ کرنے
اورسابق صدرآصف علی زرداری جواُس وقت صدرپاکستان تھے کوسڑکوں پرنہ گھسیٹنے
کی صورت میں اپنانام تبدیل کرنے کا وعدہ کیاتھاجوانہوں خادم اعلیٰ کالقب
چھوڑ کرپوراکردیاپرشائد اُن کو کسی نے یاد نہیں دلایاکہ انہوں کچھ یوں
فرمایاتھا’میں نے زرداری کولاہورکی سڑکوں پرنہ گھسیٹاتومیرانام شہبازشریف
نہیں‘عوام الناس کویاد ہوتوجناب اُس وقت بھی وزیراعلیٰ پنجاب تھے اورآج بھی
ہیں یعنی سابق بھی وہ ہیں اورحاضر بھی،نہ اُن کے سابق دورمیں کسی بحران
کاحل نکلااورنہ موجودہ دورمیں اوراب وہ صاف صاف بتارہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے
فضل کرم سے آئندہ عام انتخابات میں جیت کرن لیگ مرکزاورصوبوں خاص
طورپرپنجاب میں حکومت بنائے گی اورپھرعوام الناس کو ایک بار پھر یہ سچائی
بتائی جائے گی کہ سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے ملک اندھیرے میں
ڈبودیاجبکہ موجودہ حکومت توہرممکن کوشش کررہی ہے ہماری آنے والی اگلی حکومت
توصدیوں میں حل نہ ہونے والے مسائل منٹوں میں حل کردے گی اورایسانہ ہونے کی
صورت میں عوام الناس ہمیں پھرسے انتخابات میں کامیاب کروائیں توہم پھراُن
پرٹھاٹھ باٹھ سے حکمرانی کریں گے پرسابق حکمرانوں یا اُن کی پالیسیوں کا
کوئی حل نکالناحکومت وقت اورمستقبل کے حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ،نتیجہ
سابق حکمرانوں کی پالیسیاں ملک کو اندھیروں ڈبوؤے رکھیں گی،پھر بھی 68سال
گزارکربھی ہم (عوام الناس)سخت ترین امتحانات سے گزرنے کے باجودکوئی سبق
نہیں سیکھ پائے دوسری طرف میٹروبس ایک دوسالوں میں سب کچھ سیکھ چکی ہے،ہم
نے سبق نہیں سیکھنا توکم ازکم اتناہی سمجھ لیں کہ یہ جوسابق حکمران ہوتے
ہیں یہ نہ ہوتے تواب تک ہمارے تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے ،اب سابق حکمرانوں
سے کیسے جان چھڑانی ہے یہ سوچناکسی ایک فردکانہیں بلکہ پوری قوم کافرض ہے
کیونکہ ہمارامسئلہ بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ ،ناانصافی،مہنگائی،بے
روزگاری،بدامنی،کرپشن کا نہیں بلکہ سابق حکمرانوں اوراُن کی پالیسیوں
کاہے،خوش قسمتی سے حکمران ملک میں رہتے ہی تب تک ہی جب تک وہ سابق نہ
ہوجائیں اورسابق ہوتے ہیں ہی بیرون ملک اپنی دولت کے پہلومیں شفٹ ہوجاتے
ہیں ،یہ جوسابق ہوتے ہیں یہ بہت طاقتورہوتے ہیں اس لئے ہم اُن کا کچھ نہیں
بگاڑپاتے ہم توکیاموجودہ حکمران بھی سابق حکمرانوں کو سڑکوں پرگھسیٹنے
کاوعدہ پورانہیں کرسکتے ،بہتریہی ہے کہ میٹروبس کی طرح جلد سبق سیکھوورنہ
سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیاں تمہاری طرح تمہاری آنے والی نسلوں کوبھی
اندھیرے میں نہ ڈبودیں ۔یہ بات درست ہے کہ زندگی کتاب سے بھی زیادہ پچیدہ
ہوتی ہے پریاد رکھوسابق حکمرانوں سے زیادہ نہیں اس لئے جس قدرہوسکے سابق
حکمرانوں سے دوررہواسی میں اُن کی بھلائی ہے- |
|