یاد رفتگان۔۔۔۔۔۔۔سیّد ناصر بُخاری۔۔نابالغہ ء روزگار صحافی

صحافی سیّد ناصر بُخاری کو ہم سے جدا ہوئے 26برس بیت گئے ہیںمگر ان کی صحافتی خدمات اور ان کی اصول پسندی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔مرحوم ناصر بُخاری نے اپنی زندگی حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے لئے وقف کئے رکھی ،غریب پروری،ہمدردی،غمگساری،ملنساری،اور انکساری انہی کی ذات کا خاصا تھی

سیّد ناصر بُخاری مرحوم

زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے عظیم ہیں وہ لوگ جن کی زندگی خدمت مخلوق خدا میں گذری اورلوگ انہیں اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یاد رکھتے ہیں۔شعبہ ء صحافت سے وابستہ بڑے بڑے لوگ اس دنیا سے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے لیکن آج بھی اپنی زندگی میں اس شعبے سے وابستہ بااصول اور باکردار صحافیوں کو لوگ فراموش نہیں کر سکے ۔کیونکہ یہی وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے قلم کی حرمت کو کبھی داغدار نہیں ہونے دیا ۔ضمیر فروشی ، قلم فروشی گویا ان کیلئے گناہ کبیرہ رہا۔ مولانا ظفرعلی خان ،مولانا چراغ حسن حسرت ،حمید نظامی،میر خلیل الرحمن ، سید شبیر حسین شاہ،آغا شورش کاشمیری ،نسیم حجازی سمیت اور بہت سے صحافی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے آج بھی عوام و خواص کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔انہی میں ایک نام صحافی سیّد ناصر بُخاری کا بھی ہے جنہیں ہم سے جدا ہوئے 25برس بیت گئے ہیںمگر ان کی صحافتی خدمات اور ان کی اصول پسندی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔مرحوم ناصر بُخاری نے اپنی زندگی حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے لئے وقف کئے رکھی ،غریب پروری،ہمدردی،غمگساری،ملنساری،اور انکساری انہی کی ذات کا خاصا تھی ۔آپ کا تعلق ضلع اٹک(کیمبل پور) سے تھا ،آپ کے والد بزرگوار سیّد امام شاہ بُخاری علاقے کی ممتاز روحانی شخصیت کی حیثیت سے اپنا ایک مقام رکھتے تھے ،پیری مریدی کے علاوہ طب و حکمت کا بھی وسیع سلسلہ تھا ۔ ابتدائی تعلیم اور گریجویشن اٹک(کیمبل پور) سے ہی مکمل کرنے کے بعد آپ نے منشی فاضل کا امتحان بھی امتیازی پوزیشن میں پاس کیا ،فارسی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا ،تعلیمی میدان میں ہمیشہ اعلیٰ نمبروںسے کامیابیاں حاصل کیں ،ہر امتحان میں ''سکالرشپ'' لیتے ،اس وقت کے ہندو استاد بھی آپ کی ذہانت ،قابلیت اور صلاحیتوں کے معترف تھے ،آپ کوکالج کے زمانے میں شاعری سے بھی شغف رہا،مزاحیہ اور حزنیہ نظمیں کہا کرتے تھے ،آپ ناصر تخلص کرتے تھے اور اپنا شعری مجموعہ بھی تیار کر رکھا تھا ،لیکن اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد شاعری کو خیرباد کہہ دیا ۔

آپ کی صحافتی زندگی آل راؤنڈر صحافی کی حیثیت سے حقائق نگاری اور اصولوں سے عبارت تھی ، رپورٹنگ ، ایڈیٹنگ سمیت اخبار سے متعلق ہر شعبے کاآپ کو وسیع تجرنہ حاصل تھا ۔ آپ ''خبر''کے حوالے سے اور عملی زندگی میں ''سچ'' کی تلاش میں سرگرداں رہے ،کبھی سُنی سنائی بات یا ''ایف آئی آر '' کی بنیاد پر کوئی خبر نہ دی ،یہی وجہ ہے کہ جرائم کے حوالے سے آپ کی رپورٹنگ ایک مثال کی حیثیت رکھتی تھی ،اس زمانے میں ٹیلی فون اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا فقدان تھااکثر صحافی خبرکے حصول میں کوئی خاص دلچسپی نہ لیتے تھے جبکہ آمد ورفت کے محدود ذرائع ہونے کی وجہ سے آپ ایک ایک خبر اور واقعہ کے حقائق جانے کیلئے کئی کئی میل کی پیدل مسافت طے کرتے ۔اور اپنے قارئین کو حقیقت پر مبنی خبریں فراہم کرتے تھے ۔

مرحوم ناصر بُخاری علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کے دست راست تھے ،خاکسار تحریک سے بھی وابستہ رہے ،بنیادی طور پر مسلم لیگی اور مسلم کانفرنسی نظریات کے حامی تھے ،ہمیشہ نظریہ ء پاکستان کے تحفظ،اسلامی شرعی نظام کے نفاذ اور اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے داعی رہے ۔علامہ مشرقی آپ پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ اپنی تقریروں کا مسوّدہ اپنے خطاب سے قبل ہی آپ کے حوالے کر دیتے ۔آپ مُسلم کانفرنس کے قائد چوہدری غلام عباس کے بھی خاص دوستوں میں شامل تھے ،آپ کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کے اہم اور خفیہ اجلاسوں میں بطور خاص مدعو کیا جاتا تھا ،آپ نے ان اجلاسوں کی رازداری کو ہمیشہ برقرار رکھا اور کبھی ا س حوالے سے اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ،آپ کو اپنی اسی اصول پسندی کے باعث زندگی میں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا رہا ،لیکن آپ کے پایہ ء استقلال میں لغرش نہیں آئی ۔

کالج کے زمانے میں ہی آپ کو لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہوا۔اور مختلف اخبارات و جرائد میں لکھتے رہے تاہم آپ نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے اخبار ''زمیندار'' سے کیا ،بعد میں روزنامہ ''تعمیر'' سے منسلک ہو گئے ،روزنامہ ''تعمیر'' کے ایڈیٹر صفدر ہمایوں ایک مرتبہ اخبار کی اشاعت معطل ہونے کے باوجود آپ کی فرض شناسی ،محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے آپ کو تنخواہ دیتے رہے ۔''تعمیر ''کے بعد جب روزنامہ''کوہستان'' کا اجرا ء ہوا تو آپ اس کے ساتھ منسلک ہو گئے ،مرحوم عنایت اللہ اور ممتاز ادیب اور ناول نگار نسیم حجازی اس اخبار کے مالک تھے ،مرحوم عنایت اللہ سے جب''کوہستان''سے علیحد گی کے بعدلاہور سے روزنامہ ''مشرق ''کی ابتداء کی تو انہوں نے آپ کو بھی اپنے اخبار میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ،مگر آپ نے یہ کہہ کو انکار کر دیا کہ مجھے روز روز نئے اخبارات تبدیل کرنے کی عادت نہیں ۔آپ نے روزنامہ ''کوہستان'' میں رپورٹر کے علاوہ بھی کئی اہم عہدوں پر کام کیامذکورہ اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے ،آپ نے ''کوہستان'' کے زوال تک اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی ،اپنا تمام اثاثہ اس اخبار کوزندہ رکھنے کیلئے لگا دیا ،تاہم سازشی ٹولے نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ''کوہستان'' کو اپنے انجام تک پہنچا دیا ۔''کوہستان'' کی بندش کے بعد آپ نے ہفت روزہ ''الاخبار'' کا اجراء کیا۔۔اس دوران آپ روزنامہ ''نوائے وقت'' سے منسلک ہو گئے ،آپ کی صحافتی زندگی 40سالوں پر محیط ہے ۔

آپ نے کبھی قلم کی حُرمت کو داغدار نہیں ہونے دیا ،صحافتی شعبے میںآپ کی رائے ایک سند کا درجہ رکھتی تھی ،آپ اس شعبے میں آنے والے نوجوانوںکی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ہمیشہ مددگا ر ثابت ہوتے،یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اس وقت اندرون و بیرون ملک اہم عہدوں پر ملک اورملت کی خدمت کر رہے ہیں ،آپ ظاہری نمود و نمائش سے بے نیاز تھے ،کوئی دنیاوی آرزو نہ رکھتے تھے ۔انہوں نے صحافتی شعبے میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اور جو راہیں آنے والی نسلوں کے لئے متعین کیں ،وہ ہم سب کے لئے راہ ہدایت اور روشنی کا مینار ہیں ،حق اور سچ کی آواز کو پھیلانے میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلات ہیں لیکن ہمیں حوصلہ مندی کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھانا ہے ۔آپ اخبارات کی سرکولیشن بڑھانے کی غرض سے خواتین کی تصاویر کی اشاعت کے خلاف تھے ۔آپ کا کہنا تھا کہ اخبارات کی سرکولیشن بڑھانے کے لئے خواتین کی تصاویر شائع کرنے کی روش کوئی اچھی روایت نہیں۔اخبارات چونکہ گھروں میں بھی پڑھے جاتے ہیںاس لئے ہمیں فحش نگاری سے اجتناب کرنا چاہئے ۔سچ تو یہ ہے کہ ْحقیقی قاری کو ان خرافات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی ،آپ کا کہنا تھا کہ اخبارات کو عوام کا ''گائیڈ ''اور'' رہنما ئ'' ہونا چایئیے ،میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو سیدھا راستہ دکھائے ،نہ کہ وہ عوامی خواہشات کے پیچھے چلنے لگے۔

آج آپ کی وفات کو 25برس بیت گئے ہیں ،فی زمانہ ہماری اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے اور زندگی کی دوڑ میں کامیابی کیلئے لوگ حرام و حلال کی تمیز بھول بیٹھے ہیں لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ حق،سچ اور اصولوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ،شرافت ہر حال میں زندہ رہتی ہے ،نفسا نفسی کے اس دور میں مشکلات کے باوجودہم اپنے والدبزرگوارکے اصولوں کے مطابق قوم کی تربیت اور رہنمائی کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں ،یہ عارضی مشکلات ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتیں ۔ 22 فروری 2016ء کوآپ کی 25ویں برسی مکان نمبر D-320،سیٹلائٹ ٹاؤن ،راولپنڈی میں منائی جائے گی ،اس موقع پر مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے قران خوانی ہو گی ،آخر میںمرحوم کی مغفرت اور ملک کی سلامتی و استحکام کے لئے اجتماعی دُعا کی جائے گی ۔
syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130273 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.