شرم تم کو مگر نہیں آتی
(Rameez Ahmad Taquee, Delhi)
اس حقیقت سے کسی کو مجالِ انکار نہیں کہ
ہندوستان میں جو ابھی صورتِ حال ہے اس میں حقیقت پسندی اور حق بات کہناصرف
ظلم نہیں بلکہ دہشت گردی کو فروغ دینا ہے، مگر کیاہر حقیقت سے چشم پوشی
کرنا اور آنکھیں چرا لینا حق اور انصاف ہے؟ روزِ اوّل ہی سے جب ہمارا ملک
ہندوستان انگریزوں کے ناپاک چنگل سے آزا د ہوا اور انگریز یہاں سے جانے لگے،
تو جاتے جاتے انہوں نے یہاں کچھ اپنے مرید چھوڑگئے، تاکہ ان کے وہ چیلے
چپاٹے ملک میں ہر دم ان کی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں۔ان کے مریدین نہ تو
کوئی مسلمان تھے ،نہ کوئی ہندواور نہ ہی وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق
رکھنے والے باحمیت غیور ہندوستانی؛ بلکہ اس جلو میں وہ لوگ شامل تھے جنہوں
نے بدقسمتی سے اپنے چہرے پر ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی کا مکھوٹا چڑھا
لیا تھا، گو وہ ظاہری طور پر مسلمان بھی تھے، ہندو، سکھ اور عیسائی بھی تھے،
مگر ان کا حقیقی مذہب اور ناخدا وہ انگریزہی تھے ، جب تک وہ ہندوستان میں
رہے، وہ اور ان کے آباواجداد ان انگریزوں کے خصیہ برادا رہے اور ان کے چلے
جانے کے بعدوہ ان کے مشن کو پورا کرنے میں آزادی کے بعد سے لے کراب تک اپنی
پوری قوت اورعیاری سے ملک کی خوشگوا ر فضا کو مکدر کر نے میں اہم رول
اداکرتے آ رہے ہیں۔ آج پورے ملک کی جمہوری دیوار کو جو دیمک کھائے جارہی ہے،
دراصل اس کے پیچھے انگریزوں کی وہی سازش کارفرماں ہے ۔اور اس کے لیے وہی
لوگ پیش پیش ہیں، جنہوں نے انگریزوں کی چاپلوسی کرتے ہوئے ملک کو ڈیڑھ سو
سال تک انگریزوں کا غلام بنا دیاتھا ،آج وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار نہیں
ہیں ، وہ تو ایک بہانہ آنکھیں لڑانے کا،ورنہ تو کہاں مذہبی پیشوا اورکہاں
ان کی یہ ذلیل حرکتیں !اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان کو مسلمانوں سے نہیں،
بلکہ ملک کی جمہوریت اور اس کی عوام سے دشمنی ہے ، یہ مسلمانوں کے خلاف
محاذ نہیں کھول رہے ہیں؛ بلکہ ان کا ہر اقدام ملک اور اس کی جمہوریت
وسالمیت کو ختم کرنے کے لیے ایک اندوہناک محاذ کی طرف پیش قدمی ہے ۔ ملک
میں جب بھی الیکشن کا بگل بچتا ہے، تو یہ طاقت، بلکہ منظم سازش اپنی پوری
عیاری ومکاری کو بروئے کار لاکر ملک کی عوام کو ذات پات اور مذہب وملت میں
تقسیم کرنے کے فراق میں لگ جاتی ہے۔ 2014کے پارلیمانی انتخاب ، اس کے بعد
دیگر صوبائی اسمبلی انتخابات میں ذات پات اور مذہب کے نام پرہر چند کہ یہ
لوگوں کے ووٹ کو تقسیم کرنے اور ہندوستانی عوام کواپنے جھوٹے وعدوں سے
بہلانے میں کامیاب رہی۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج اس کا حوصلہ اتنا بلند
ہے کہ یہ بے مہار جنگلی بیلوں کی طرح ہر کھیت میں منھ مارتی پھر رہی ہے،
حکومت کا لگام چونکہ ان کے ہاتھوں میں ہے ؛اس لیے ابھی انہیں کوئی مہار
نہیں لگاسکتا؛ حتی کے ہمارے وزیرآعظم نریندر مودی جو’’ سب کا ساتھ سب کا
وکاس‘‘ کا مدعالے کرمسندِ اقتدار پرفائز ہوئے تھے،چُپی میں وہ بھی سابق
وزیرآعظم منموہن سنگھ کے استاد نکلے۔ کانگریس کے زمانۂ حکومت میں عموماً یہ
کہاتا جاتا تھا اس دیش کے وزیرآعظم دنیا کے خاموش ترین انسان ہیں، اس لیے
وہ نہ تو میڈیا میں آکر واویلامچاتے ہیں اور نہ ہی عوامی میٹنگ اور جلسوں
کی زینت بنتے ہیں، بہ الفاظِ دیگر کانگریس پارٹی میں وزیر آعظم کی حیثیت
ریموٹ کنٹرول مشین کی سی ہے، مگر موجودہ وزیر آعظم صاحب ان سے بھی دوقدم
آگے نکل گئے ، کہ آج پورے ملک میں ہر جگہ ان کی پارٹی کاکوئی نہ کوئی نیتا
جب چاہتا ہے ،جہاں چاہتا ہے اور جو منھ میں آتا ہے بغیر سوچے سمجھے اور
انجام پر غور کیے ہوئے بک دیتا ہے، کبھی تو وہ زبانی زہر اگل کر مسلمانوں
کے دین اور مذہب پر کیچڑاچھالنے کی ناپاک سازش کرتا ہے، تو کھبی دھرم
پریورتن ،ہندوراشٹر اور گھرواپسی کو مدعا بنا کر مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ
کرنے کی ناپاک کوشش کرتاہے اور ہمارے وزیر آعظم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے
چمچاؤں کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل تکلیفیں پہنچائی جارہی ہیں، وہ بالکل
خاموش ہیں ، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان نہیں، بلکہ صرف ہندؤوں
کے وزیر آعظم ہیں، اگر وہ اس ہندستان کے وزیرآعظم ہوتے، جہاں ہندؤوں کے
ساتھ مسلمان، سیکھ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں اور یہی
ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب بھی ہے، تو وہ کبھی خاموش نہیں رہتے ،بی جے
پی صدر امیت شاہ کو کبھی کلین چیٹ نہیں ملتا، یوگی ادتی ناتھ ، پروین
توگڑیا اور ان جیسے دیگر جنونی نیتا کبھی اس طرح بے مہار دندناتے پھرتے نظر
نہیں آتے۔اس کے باوجود ہماری ہندوستانی عوام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ
جو کوئی بھی اگر ان کو مذہب کے نام پر اکساتا ہے ،توحقیقت سے پرے دم ہلاتے
ہوئے اس کے پیچھے بھاگ کھڑی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا عالم
یہ ہے کہ جو پارٹی مذہب وملت سے ہٹ کر ملک کی عوام کے حق میں زیادہ مفید
ثابت ہوتی ہے لوگ اس کو ووٹ کرتے ہیں ، مگر اس ملک کی تقدیر میں شاید ایسا
نہیں لکھاہے، طرفہ کی بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی پارٹی اپنے کسی خاص عمل سے
کسی دوسری جماعت کے لوگوں میں مقبول نہیں ہے، تو اسی جماعت اور قوم کے کچھ
افراد اپنا ایمان اوراپنی خودداری کاسودا کرکے اپنے مخالف ذہنیت کے لوگوں
کے جھنڈا تلے بھی جمع ہو جاتے ہیں، اس کا نظارہ گذشتہ سال بھارتی جنتا
پارٹی اور بقول اسرار جامعی بھارتی جھگڑا پارٹی نے دہلی کے اسمبلی انتخاب
کی راہ ہموار کرنے کے لیے اور عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بہلانے کے
لیے رام لیلا میدان میں ایک عظیم ریلی منعقد کی تھی، تواس موقعہ پر اردو،
ہندی اور انگلش کے تقریباً تمام اخبار وں میں ایک ایسے شخص کی تصویر جو
بظارہر مسلمان لگ رہاتھا، یا مسلمانوں جیسا حلیہ اختیار کیے ہوئے تھا اور
اپنے ہاتھوں میں مودی کی تصویر والا جھنڈا فضا میں لہرارہاتھاضرورشائع
کیادیکھنے کو ملا،میں یہ وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ اوّلاََ وہ یا تو
مسلمان نہیں تھااور اگر مسلمان تھا بھی ،تو وہ وہی ایمان فروش اور ضمیر
فروش انگریزوں کے نمک خواروں کی اولاد میں سے تھا، جو کبھی ہندوستان کی بیخ
کنی کرنے میں انگریزوں کے آگے پیچھے دم ہلاتے رہے اور آج ان کے مریدوں کی
چاپلوسی کررہا ہے، اس لیے کہ موجودہ وقت میں بی جے پی جن چہروں پر متشکل ہے
وہ مسلمانوں کے نہیں ، عیسائی اور سکھوں کے دشمن نہیں،بلکہ ہندوستان کی
جمہوریت کے دشمن ہیں ؛ اس لیے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں صرف سفید رنگ ہی
نہیں بستے، بلکہ یہ ملک کیسریہ، سفید اور سبز رنگوں کے امتزاج سے دنیا کی
سب بڑی جمہوریت کا علم بردار ملک ہے اور اس ملک میں بسنے والا ہر ہندوستانی
، اس ملک کو استوار کرنے میں ایک شہتیرکی حیثیت رکھتا ہے اوراس میں رہنے
والے لوگوں کے مذاہب اس کے لیے ستون ہیں؛اسلام، ہندوازم، عسائیت، سیکھ ازم
اور بدھ ازم وغیرہ یہ بنیادی مذاہب ہندوستان کے وہ بلند وبالا اور مضبوط
ستون ہیں جن پر ہمارا گنگا جمنی تہذیب کا یہ ملک قائم ہے۔ اب اگر کوئی اس
کے کسی بھی ایک ستون کو گرانے یا منہدم کرنے کی کوشش کرتا ہے، خواہ وہ کوئی
بھی ہو؛ حتی کہ اس ملک کے سب سے اونچے عہدہ پرفائز آنجہانی وزیرآعظم ہی
کیوں نہ ہوں، وہ اس ملک کا خائن ہے ۔ یہ بھی کیا خوب انصاف ہے کہ اگر
پاکستان کے آرمی اسکول پر حملہ ہو اور اس میں بے شمار بے گناہوں کا قتلِ
عام ہو، تو اس پر غم اور افسوس کا اظہار اور اس کے سوگ میں سارے اسکولوں
میں ممبتیاں روشن کی جائیں، مگر جب اسی طرح کی حرکت؛ بلکہ اس بھی بدترین
حرکت اگر فلسطینی معصوم بچوں اور وہاں کی عوام کے ساتھ روا رکھی جائے ، تو
اس پر ان بد بختوں کے ساتھ محبت والفت کی نششتیں منعقد کی جائیں! ان سے
مواخات قائم رکھنے کے بجائے کیا ہمارے سیاسی رہنماؤوں کو ان پر لعن طعن
نہیں کرنی چاہیے؟ کیا ان کی یہ حرکت اس ملک میں بسنے والے یا اس ملک کے اس
ایک ستون کے ساتھ انصاف ہے جس پر اس ملک کی بقا ہے؟ میں بی جے پی کی مخالفت
نہیں کررہاہوں اور کی بھی کیسے جاسکتی ہے ، اس لیے کہ بھارتی جنتا پارٹی،
یہ تو اس ملک کے پوری جنتا اور عوام کی پارٹی ہے، اس کے ظاہری نام سے ملک
کی پوری عوام سے جو لگاؤ کا معنی ظاہر ہوتا ہے ، تواس کی مخالفت کرنا گویا
خود کی مخالفت ہے، مگر آج ہماری اور جنتاکی یہ پارٹی جن ہاتھوں میں کھیل
رہی ہے، اس ملک کی عوام کو ان سے شکایت ہے ،نہ کہ اس پارٹی سے ۔ آج بھی اگر
اس کے ذمہ داران اپنی حرکت سے باز آجائیں اور اس پارٹی کو کسی ایک فرقہ اور
مذہب کی پارٹی نہ سمجھیں ، تو شاید ان کی مدتِ حکومت کانگریس سے بھی دراز
تر ہو،لیکن اگر وہ اپنی انہی پُرانی روش پر چلتے ر ہے ،تو ہمیں مارِ آستین
کوپالنے کی خواہش نہیں ہے ؛ اس لیے کہ ہمارے سامنے تواپنے ملک کی سالمیت
اور یکجہتی ہے اور کسی بھی قیمت پر ہم اس کو داؤ پرنہیں لگنے دیں گے ۔ اس
کا نظارہ دہلی اور بہارکے اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو بھی ملا،آگے مزید
اگروہ اپنی انہی حالت پر قائم رہے ، توہزار وعدوں کے با وجود ملک میں
دوبارہ حکومت کرنے کا ان کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوپائے گا۔ |
|