کرپشن کے خلاف کارروائیاں.... نیب سندھ کے بعد وفاقی حکومت کے نشانے پر
(عابد محمود عزام, Karachi)
جس معاشرے میں احتساب نہ ہو وہاں ملک کی
ترقی کا عمل سست، کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال سکہ رائج الوقت بن
جاتا ہے اور جس معاشرے میں احتسابی عمل مضبوط ہو وہ معاشرہ تیز رفتاری کے
ساتھ ترقی کرتا ہے۔ اس تناظر میں چیئرمین نیب کا کرپشن کے خاتمے کے عزم کا
اظہار ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔بدعنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے جس سے
نہ صرف ترقی کا عمل رک جاتا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی داو ¿ پر لگ جاتی ہے
اور قومی خزانے کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے
ایک بالادست محتسب ادارے کی جانب سے حکومت کے رویے پر مسلسل نظر رکھنا
ضروری ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی کے خلاف مہم نے ہمیشہ
سیاسی رنگ اختیار کیا ہے اور کئی مقامات پر یہ مہم صرف چند افراد کے خلاف
کارروائی تک محدود رہی ہے۔ اگر محتسب ادارہ بااثر سیاست دانوں کا احتساب
کرنے کی کوشش کرتا ہے تو تمام سیاست دان ادارے کے سے نالاں ہوجاتے ہیں۔ آج
ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ جہاں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ سمیت سب
ہی نیب سے نالاں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ نیب کے حکام سرکاری
افسران کو ڈراتے اور تصدیق کے بغیر معصوم لوگوں کو تنگ کرتے ہیں، نیب اپنے
دائرے میں رہے ورنہ کارروائی کریں گے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی خود
کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرنا چاہتا، ہر کوئی صرف دوسروں کا ہی احتساب
چاہتا ہے۔ نیب کی جانب سے کاررائی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف،
پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں نیب
کے خلاف اپنے اپنے انداز میں شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ نیب کے خلاف اب ن لیگ
شور مچارہی ہے، جبکہ اس سے پہلے پی پی بھی شور مچاتی رہی ہے۔جب نیب، ایف
آئی اے نے سندھ میں کرپشن کے خلاف ہاتھ ڈالا تھا، جس کی لپیٹ میں پی پی کے
رہنما آئے تھے، نیب کے اس عمل پر اس وقت پی پی کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی
انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آصف علی زرداری، بلاول بھٹو سمیت
پیپلزپارٹی کے دوسرے کئی رہنماﺅں نے ن لیگ کی وفاقی حکومت کو نیب سمیت
وفاقی اداروں کو پی پی پی کی حکومت اور ان کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے
کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگایا، جبکہ ن لیگ کا کہنا تھا کہ کرپشن کے
خلاف تو نیب کام کر رہی ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ وفاقی حکومت
کے رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اپنے کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے یہ
سارا شور مچا رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائیوں
کی مکمل حمایت کی اور اسی انداز میں کرپشن کے خلاف پنجاب اور وفاق میں
کارروائیوں کا مطالبہ کیا، لیکن جب خیبر پختونخوا میں خود پی ٹی آئی کے
اپنے لوگوں پر ہاتھ پڑا تو احتساب کے قانون میں تبدیلیاں کی جانے لگیں اور
اپنے ہی مقرر کردہ چیئرمین احتساب سے استعفیٰ لے کر اسے گھر کو چلتا کردیا
گیا اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی وزیراعلیٰ سندھ کی طرح یہ کہنے لگے
کہ ان کے افسروں کو ڈرایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتا۔ اب
وفاقی حکومت کے لوگ رگڑے میں آنے لگے تو وزیراعظم میاں نواز شریف یہ کہتے
نظر آتے ہیں کہ نیب اپنے دائرے میں رہے، ورنہ حکومت نیب کے خلاف کارروائی
کرے گی۔
ذرایع کے مطابق وزیر اعظم نے بڑے بزنس گروپوں اور بیورو کریسی کے حوالے سے
نیب کو آخری وارننگ دے دی، جبکہ نیب سسٹم میں اصلاحات لانے کے لیے الٹی
میٹم بھی دے دیا۔ نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر نے الزام لگایا
ہے کہ موجودہ ماحول سیاستدانوں کا پیدا کردہ ہے۔ نیب کے سیاسی مقاصد نہیں
ہونے چاہئیں، تاہم وزیر اعظم نے جو پوائنٹس اٹھائے وہ درست نہیں۔ وزیر اعظم
کی چارج شیٹ غیر معمولی اقدام ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی
احتساب بیورو(نیب) کے احتسابی عمل کی نگرانی کے لیے آزادکمیشن بنانے کا
فیصلہ کیا ہے، جو مقدمات کے اندراج سے لے کر تحقیقاتی عمل اور سزاﺅں کے
تعین تک تمام امور کا بھی جائزہ لے گا۔ کمیشن کو پلی بارگین کے خاتمے کا
ٹاسک دیے جانے کا بھی امکان ہے۔ کمیشن کے قیام کی منظوری پارلیمنٹ سے لی
جائے گی۔ ذرائع کا کہناہے کہ آزاد کمیشن کا معاملہ نیا نہیں، تاہم اب حکومت
اس حوالے سے سنجیدگی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے لیے وزارت قانون اور دیگر
متعلقہ اداروں کو ضروری کام سونپ دیاگیاہے۔ کمیشن کے قیام کامعاملہ
پارلیمنٹ میں لانے سے پہلے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو بھی مکمل
اعتماد میں لیا جائے گا، جبکہ اس حوالے سے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کی
جاسکتی ہے، جو مختلف آئینی وقانونی پہلوﺅں سمیت اس کے سیاسی امور پر بھی
اپنی آرا دے گی۔ تاہم پارلیمنٹ میں لے جانے کی صورت میں آئینی یا قانونی
ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ دوسری جانب ذرایع کے
مطابق نیب آرڈینس میں ترمیم پر حکومت اور پیپلزپارٹی میں بیک ڈورچینل پر
خفیہ رابطہ ہوا ہے۔ آرڈیننس میں ترمیم کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی
اعلی قیادت میں غیر اعلانیہ مفاہمت پر اتفاق ہوگیا ہے۔ نیب آرڈیننس میں
ترمیم کا مسودہ منظوری کے لیے وزیراعظم ہاﺅس کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اپوزیشن
سے بھی ترمیم کے مسودے پر گفتگو کی گئی ہے۔ حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے
منظوری سے قبل 90 روزکے لیے صدارتی آرڈیننس پر بھی غور کر رہی ہے۔ ذرائع کے
مطابق نیب آرڈیننس میں ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہیں، جبکہ
پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت سے اس حوالے سے بیک ڈور چینل سے بھی رابطے کے بعد
طے کیا گیا ہے کہ حکومت نیب آرڈیننس میں ترمیم کے لیے بل پارلیمانی کمیٹی
سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں لائے گی، جہاں پر اکثریت ہونے کی وجہ سے
اسے خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، جب بل کو سینٹ میں پیش کیا جائے
گا تو وہاں پر پیپلزپارٹی حکومت کا ساتھ دے گی۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع نے بھی
تصدیق کی ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے لیے حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نیب پر تحفظات منفی ہیں، سیاسی
جماعتوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ ہمیں نہ پکڑو دوسروں کو پکڑو، نیب سے متعلق
آزاد کمیشن کا قیام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور نہیں کرسکے گا۔ سیاسی
جماعتیں بتائیں کہ آزاد کمیشن کی ضرورت پیش کیوں آرہی ہے، نیب کے اندر ہی
اسکروٹنی کا نظام بنانا چاہیے۔ سیاستدان اپنے میں موجود کرپٹ لوگوں کو
بچانے کی کوشش نہ کریں، بلکہ ان کا احتساب ہونے دیں، بلکہ ان کا احتساب
کرانے میں خود بھی نیب کا ساتھ دیں۔ اس طرح سیاسی نظام پر لوگوں کا اعتماد
بحال اور جمہوری عمل مضبوط ہوگا۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ نیب اگر صحیح کام
نہیں کررہی تو ابھی تک ن لیگ کیا کررہی تھی؟، میثاق جمہوریت اور ن لیگ کے
منشور میں نیشنل احتساب کمیشن بنانے کا کہا گیا تھا مگرڈھائی سال گزرنے کے
باوجود نہیں بنایا جاسکا ہے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد نیب کے اختیارات
محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی تو لوگ یہی کہیں گے کہ حکومت کی دم پر پاوٓں
آگیا ہے اس لیے وہ چیخ رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں یا شخصیات کی تشفی کے لیے نیب
کے اوپر آزاد کمیشن کا قیام ناکام سوچ ہے، احتساب کے پورے نظام کا دوبارہ
جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ سرمائے کے بل بوتے پر پارلیمان سمیت پورے
نظام کو یرغمال بناچکے ہیں۔ چند سرمایہ کاروں پر ہاتھ پڑنے جارہا ہے تو ہر
طرف ہاہا کار مچ گئی ہے، پاکستان میں لوٹ مار کرنے والے افراد اور اداروں
کو سزا ملنی چاہیے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت یہ چاہتی
ہے کہ ان کا احتساب نہ ہو، جب بھی ان کا احتساب ہونے لگتا ہے تو وہ شور
مچانے لگتے ہیں، تمام کے تمام اس حوالے سے نیب کے اختیارات کو محدود کرنے
کے لیے کوشاں ہیں، ظاہر میں اگرچہ کتنا ہی ایک دوسرے کے خلاف ہوں، لیکن
احتسابی ادارے کے اختیارات محدود کرنے لیے سب ایک پیج پر ہیں۔یہ حقیقت ہے
کہ نیب کے سسٹم میں اصلاحات کی جانی چاہیے، لیکن ان اصلاحات کو سیاسی مقاصد
کے لیے نہ کیا جائے اور کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے یہ اصلاحات نہ کی
جائیں۔ |
|