صدر کا اعلان ہر ضرورت مند کو موبائل فون
دیں گے... آٹا کیوں نہیں....؟
صدر و وزیر اعظم صاحبان! سُنیں موبائل نہیں آٹا دیں آٹا........؟
گزشتہ دنوں یعنی کہ جب17مئی 2010 کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹیلی کمیونی
کیشن یونین (آٹی ٹی یو) کی 45ویں سالگرہ کی یاد میں عالمی یوم ٹیلی کام
اینڈ انفارمیشن کا عالمی دن منایا گیا تو اِس دن کی مناسبت سے صدرِ مملکت
سید آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے الگ الگ
پیغامات میں آٹی ٹی یو کے فنی تعاون اور اِس کی جانب سے دنیا بھر میں کی
جانے والی امدادی سرگرمیوں کے ذریعے پیش کی جانے والی خدمات کو سراہا اور
کہا کہ آٹی ٹی یو نے ٹیلی کمیونیکشین کے فروغ میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں
اور اِس کے ساتھ ہی اِس موقع پر ہمارے ایک جمہوری ملک کے طاقتور ترین صدر
مملکت جنابِ محترم عزت مآب سید آصف علی زرداری نے انتہائی کشادہ دلی اور
پُرتپاک انداز سے یہ اعلان بھی کیا کہ حکومت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام
کے تحت ہر ضرورت مند کو موبائل فون کی فراہمی کا منصوبہ بنایا ہے جس کی
اُنہوں نے یہ حجت پیش کی ہے ....”تاکہ ٹیلی کام کے فوائد کو غریب خواتین کی
دہلیز پر پہنچایا جاسکے“ اور جس کی ہمارے سب سے زیادہ معصوم اور نرالے
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کچھ یوں ہاں میں ہاں ملائی کہ” انفار میشن
ٹیکنالوجیز معیار زندگی میں بہتری کا ذریعہ ہیں۔ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ
چلو! یہ بھی ایک اچھا اعلان ہے کہ ہمارے صدر اور وزیراعظم صاحبان! نے آٹی
ٹی یو کے عالمی دن کے موقع پر ہر ضروت مند کو موبائل فون دینے کے حکومتی
منصوبے کا اعلان کیا مگرا ِس کے ساتھ ہی کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب گزشتہ ہی
دنوں پاکستان سمیت پوری دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور بھوک و افلاس سے
بلکتے سسکتے اور کمزور لاغر جسموں والے انسانوں اور توانائی کے بحران اور
بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل سے دوچار عوام کا عالمی دن منایا گیا تھا اگر
اُس وقت بھی ہمارے یہ عوامی صدر اور وزیر اعظم یہ اعلان بھی کردیتے کہ
ہماری حکومت بلاتفریق و رنگ و نسل ہر ضرورت مند کو مفت آٹا اور تمام اشیائے
ضروریہ سمیت ملک کے ہر صوبے کو بلاامتیاز توانائی اور بجلی کی فراہمی یقینی
بنائے گی تو صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
صاحبان! آپ کا یہ اعلان کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کی سست ہوتی ہوئی
دھڑکنوں کو تیز کر دیتا اور اِن میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دیتا جب کہ
آٹی ٹی یو کے عالمی دن کے موقع پر آپ کا ہر ضرورت مند کو موبائل فون دینے
کا یہ اعلان کسی کے پیٹ میں لگی بھوک کی آگ کو نہیں بجھا سکتا اور نہ ہی
اِس کے زندہ رہنے کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔ لہٰذا اِس موقع پر مجھ حقیر
فقیر بے توقیر کا آپ دونوں حضرات کو یہ مشورہ ہے کہ اِس اعلان اور اُس
منصوبے کو یہیں روک دیا جائے تو بہتر ہے بلکہ اِس موبائل فون والے اعلان کے
برعکس بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ملک کی غریب عوام کی اُن ضرورتوں کو
پورا کرنے کے لئے کثیر رقم مختص کی جائے جس سے ملک کے غریبوں کی حالاتِ
زندگی بہتر ہو اور اِنہیں اشیائے ضروریہ آٹا، چینی، گھی، دال ، چاول اور
دیگر اجناس اِن کی دہلیز تک مفت اور سستے داموں پہنچ سکے۔
اگرچہ آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کے موجودہ رویوں سے یہ حقیقت بڑی
حد تک ضرور عیاں ہو چکی ہے کہ حکومتی ارباب اپنے ہی عوام سے کئے گئے وعدوں
اور دعوؤں سے پھر چکے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ
تین سال بعد اِنہیں اپنے اقتدار کی دوبارہ ہوس کے سلسلے میں عوام کی عدالت
اور اِس کی دہلیز پر جانا ہوگا ایسا کئے بغیر آئندہ یہ حکومت میں تو کیا
اپوزیشن کی بینچوں پر بھی نہیں بیٹھ پائیں گے۔لہٰذا یہاں مختصر یہ کہ ہمارے
ارباب اقتدار و اختیار کو اپنے ماضی( یعنی گزشتہ انتخابات سے قبل اپنے
جلسوں، جلوسوں ریلیوں اور کارنر میٹنگوں میں عوام سے کئے گئے اپنے اُن
وعدوں اور دعوؤں) کو بھولنے کے ساتھ ساتھ ملک میں آئندہ تین سال بعد ہونے
والے جنرل الیکشن اور آنے والے اُس مستقبل پر بھی کڑی نگاہ رکھنی ضروری ہے
کہ جب موجودہ اقتدار میں شامل یہی ٹولہ عوام کی جانب اپنا رُخ کرے تو اِسے
ندامت اور شرمندگی نہ اٹھانی پڑے بلکہ یہ اقتدار کی ہوس کا مارا ٹولہ جب
ووٹوں کی بھیک مانگنے عوام میں جائے اور اِن کی دہلیز پر ووٹ کے خاطر ایک
سوالی کی طرح اپنی پیشانی اور ایک ضدی بچے کی مافق اپنی ایڑیاں رگڑے تو اِس
کا چہرہ اپنے قول و فعل سے چمکتا اور دمکتا رہے ناں کہ شرمندگی اور ندامت
کے باعث جھکا ہوا ہو۔
مگر یہاں اِس اقتدار کی ہوس میں مبتلا ٹولے کے ذہن میں یہ بات بھی اچھی طرح
سے رہے کہ اِسے مندرجہ بالا دوسری ذلت آمیز کیفیت اور حالت سے بچنے کے لئے
اِس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ یہ ٹولہ ابھی سے ہی اپنے آپ کو سنبھال لے
کیونکہ اَبھی بڑا وقت پڑا ہے یہ ٹولہ اپنے اعمال درست کرلے اور اپنے اِس
اقتدار کی مسند کو سنبھالنے سے قبل اِس نے جتنے بھی عوام سے اِن کی فلاح
وبہبود اور اِنہیں ریلیف دینے کے جتنے بھی وعدے کئے تھے اُن تمام وعدوں اور
دعوؤں کو پورا کر دکھائے اور عوام کو درپیش سنگین نوعیت کے وہ مسائل بھی جن
میں مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، توانائی جس میں بجلی کا بحران اور لوڈشیڈنگ
جیسا مسئلہ جو اَب بنیادی نوعیت کے مسائل کی شکل اختیار کرچکا ہے اِس کے
فوری حل کی جانب خصوصی توجہ دینے کے لئے پائیدار اور دیر پا منصوبہ بندی
کرنے کی ضرورت ہے اِس کے لئے سنجیدگی سے کچھ کرے تاکہ عوام کو اِن مسئلے سے
جلد از جلد نجات ملے اور اِسی طرح ملک میں سستی تعلیم اور جدید سہولتوں سے
آراستہ صحت کے مراکز کے فوری قیام کے جانب بھی ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی
جانی چاہئے اور اِن سب سے زیادہ جو اہم ترین مسئلہ ہے وہ اشیائے ضرور کے
سستی داموں اور اِن کی آسانی سے فراہمی کا ہے یہ جن میں سستے آٹے، چینی،
گھی، چاول اور دیگر اجناس شامل ہیں اِن کی آسانی سے عوام الناس تک فراہمی
ہے جس کے بارے میں افسوس کے ساتھ آج یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اِن دنوں ملک کی
ساڑھے سولہ کروڑ عوام جن میں اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہے اُن تک اِن کی
رسائی سستی اور یقینی بنانے جیسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے ناں کہ موبائل
فون کی***** |