سامراجی اشاروں پر حکمران ملک میں مصنوعی بحران پیدا نہ کریں

تحریر: امیر علی پٹی والا
پاکستان کا اقتصادی اور معاشی بحران حقیقی نہیں بلکہ مصنوعی ہے جو عالمی استعماری و سامراجی قوتوں کے کہنے پر آمروں نے پیدا کیا تھا اور پاکستان کی اقتصادی بربادی کےلئے پاکستان میں جاگیرداروں کے تحفظ اور امریکی واسرائیلی سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کےلئے ”آکٹوپس “ کا جو پودا جنرل ضیاءالحق نے لگایا تھا مشرف جیسے آمر وقت نے اسے پانی دے کر ایک ایسا تناور درخت بنادیا جس کے کانٹوں سے پوری قوم لہولہان ہے اور اس کے زہریلے پنجوں میں دبی پاکستانی معیشت سسک سسک کر دم توڑرہی ہے۔ عوام کو امید تھی کہ ملک سے فوجی آمریت کے خاتمے اور عوام کی حقیقی منتخب نمائندوں کی حکومت قائم ہوگی تو وہ آمریت کے اس آکٹوپس سے ملک و قوم کو نجات دلانے کے لئے بیرونی پالیسیوں سے نجات حاصل کرکے ملک کو معاشی ترقی وخودانحصاری کی راہ پر گامزن کرے گی مگر افسوس کہ خود کو” عوامی“ کہلانے والی منتخب وجمہوری حکومت نے اپنی پالیسیاں تشکیل دینے کی بجائے سامراجی ہدایات پر ”آمرانہ پالیسیوں “ کے تسلسل کو جاری رکھا اور کشکول توڑ کر خود انحصاری اپنانے کی بجائے ”کاسہ گدائی “ سے ایسا مستقل رشتہ جوڑ لیا کہ دنیا میں پاکستان کی شناخت ایک ایسے ملک کی ہوگئی ہے جس کے حکمران امداد ‘ قرضے یا بھیک کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنی ہی عوام پر گولیاں و راکٹ برسانے سے لے کر اپنی حدود میں غیر ملکی ایجنسیوں کی سرگرمیوں اور ڈرون حملوں تک پر دم سادھے بیٹھے ہیں کہ سامراج نے اسی شرط پر وہ دیا ہے جسے ”امداد “کہتے ہیں اور جو لی تو ملک و عوام کے نام پر جاتی ہے مگر اس سے حکمرانوں کے بچوں کا مستقبل محفوظ اور خود حکمرانوں اور ان کے من پسندوں کا حال ”مطرب “ بنایا جاتا ہے جبکہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کے نام پر مہنگائی ‘ گراں فروشی ‘ غربت ‘ بھوک ‘ افلاس اور بیروزگاری کے تحفے دے کر سامراج کو خوش کیا جاتا ہے کہ کوئلے کی دلالی میں زیادہ منافع کمانے کے لئے ہاتھ کے ساتھ ساتھ منہ کالا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور موجودہ حکمران و سیاستدان تو ہاتھ منہ کے ساتھ ساتھ سامراج کو زیادہ سے زیادہ خوش کرنے کے لئے ظاہر و باطن دونوں ہی کو سیاہ کرنے پر تلے ہیں اسی لئے ایک جانب خود ساختہ معاشی بحران کا رونا رو کر عوام پر مہنگائی کے بم برسائے جارہے ہیں اور پٹرول کے بعد بجلی و گیس کے نرخوں کو بھی عوام کی قوت خرید سے بالا کرنے کی تیاری ہے تو دوسری جانب ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے عالمی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے اور مقتدر طبقے کی عیاشیوں کے اسباب جمع کرنے کے لئے بھیک و امداد لینے کے حصول کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کے ثمرات تو شاید حکومت اور حکمرانوں کو حاصل ہوں مگر اس کے اثرات میں توانائی کے بحران اور دہشت گردی کے باعث وطن عزیز کی سسکتی ہوئی معیشت کا جنازہ ہی نکل جائے گا کیونکہ بجلی و گیس اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے باعث صنعتی و ذرعی پیداوار کی پیداواری لاگت اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ اندرون ملک مہنگائی نے غریب آدمی کو قوت خرید سے محروم کردیا ہے جبکہ پیداواری لاگت بڑھ جانے کے باعث اب ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بناسکیں یوں ہماری ایکسپورٹ بھی برباد ہوگئی اور ہم زرِ مبادلہ کے حصول سے بھی محروم ہوچکے ہیں جبکہ بجلی کے مصنوعی بحران اور کمیشن کی خاطر رینٹل پاور پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کےلئے دانستہ کی جانے والی لوڈ شیڈنگ کے باعث صنعتوں کی بتدریج بندش اندرون ملک صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن رہی ہے جس کی وجہ سے بیروزگاروں کی تعداد میں بڑھتا ہوا اضافہ ایک جانب جہاں غربت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے وہیں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو ”ہیومن بم “ اور ” خام مال “ کی فراہمی کا باعث کا بھی بن رہا ہے جس سے ایک جانب دہشت گرد بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بیروزگاری سے تنگ آکر کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کا شکار ہوتی جارہی ہے تو دوسری جانب یہی بیروزگار نوجوان چوریوں و ڈکیتیوں پر بھی مجبور ہورہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف جرائم کی شرح میں افسوسناک اضافہ ہورہا ہے بلکہ پولیس و انتظامیہ کی ملی بھگت سے وطن عزیز کے گوشے گوشے میں منشیات اور اسلحہ فروشی بھی عام ہوچکی ہے جس سے لسانی تنظیمیں بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا نیٹ ورک مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتی سرکاری اراضی و وسائل پر بھی قبضہ کررہی ہیں جس کے نتائج مستقبل قریب میں بہت ہی بھیانک نکلیں گے اور اس پر سونے پر سہاگہ کے مترادف جاگیرداروں پر مشتمل حکومتی ٹولہ اپنے طبقے کے مفادات کےلئے بلدیاتی انتخابات سے اجتناب کررہا ہے اور پیپلز پارٹی اپنی سابقہ روایات کے مطابق بلدیاتی انتخابات سے فرار کے لئے سندھ میں ایک بار پھر لسانیت کا زہر گھولنے کےلئے ضلع حیدرآباد کی سابقہ حیثیت کی بحالی کے گڑھے مُردے کو اُکھاڑنے کی جو غلطی کررہی ہے اس کا خمیازہ صرف اردو و سندھی بولنے والوں اور سندھ کے عوام کو ہی نہیں بلکہ حکومت اور پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑے گا کیونکہ اگر یہ مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرجاتا ہے اور اختلافات علیحدگی پر منتج ہوتے ہیں تو لامحالہ حکومت کی رخصتی کا بگل آخر کار بج ہی جائے گا اور ملک مڈٹرم انتخابات کی جانب جائے گا جو کسی بھی طور ملک و عوام کے مفاد میں تو خیر نہیں لیکن البتہ سامراجی قوتوں کے مفاد میں ضرور ہے کیونکہ مڈ ٹرم انتخابات کی صورت میں عالمی اداروں و قوتوں کو پہلے ”نگراں حکومت “ کو اپنی من مانی شرائط پر قرض فراہم کرنے اور قوم و ملک کو اپنے پاس گروی رکھنے اور پھر نئی آنے والی حکومت کو عنان حکومت چلانے کےلئے قرض فراہم کرنے کے لئے پاکستان پر قبضہ کرنے کا بھرپور موقع ملے گا اور موجودہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے مطابق پٹرول ‘ بجلی ‘ گیس کے نرخ بڑھائے جانے اور ویلیوایڈڈ ٹیکس نافذ ہونے سے پاکستان کی صنعت وتجارت کی سبوتاژی جس تیزی سے اسے معاشی و اقتصادی تباہی کی جانب لے جارہی ہے مڈٹرم انتخابات اسے مزید مہمیز دینے کا سبب بنیں گے اور پاکستان زیادہ تیز رفتاری سے عالمی استعماری قوتوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا کیونکہ اقتصادی و معاشی بربادی خانہ جنگی کا سبب بنتی ہے اور خانہ جنگی اچھی سے اچھی ریاست کو بھی ناکامی کی جانب لے جاتی ہے اس لئے حکومت بھیک و امداد کی جنرل ضیاء و مشرف کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے سامراج کی غلامی کی بجائے سامراجی نظام سے نجات حاصل کرنے کےلئے کاسہ گدائی کو توڑ کر خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرے اورپٹرول ‘ گیس و بجلی کے نرخوں میں اضافے یا عوام پر مزید ٹیکس لگانے کی بجائے سادگی کا وطیرہ اپناکر اپنے اخراجات میں کمی لائے اور مہنگائی کے تیر سے عوام کا شکار کرنے کی بجائے وزرا و مشیروں کی تعداد اور کابینہ میں شامل افراد کی مراعات میں کمی کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی کو حاصل مراعات میں بھی کمی لائے اور کرپشن وکمیشن پر قابو پانے کےلئے مثبت اقدامات کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ حکومت ایسی پالیسیاں تشکیل نہ دے سکے جن کے باعث وطن عزیز میں صنعت و تجارت اور ذراعت کا پہیہ پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے گھومے اور پیداوارای عمل میں ہونے والا اضافہ اس کی لاگت میں کمی کا باعث بن کر نہ صرف عوام کی قوت خرید میں آجائے اور مہنگائی کا زور ٹوٹ جائے بلکہ ہماری اشیاء ارزاں و معیاری ہونے کے باعث عالمی مارکیٹ میں ایک بار پھر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوجائیں اور ہم پر زرِ مبادلہ کی برسات ہوجائے تو یقیناً ہمیں کسی عالمی مالیاتی ادار ے سے قرض یا کسی سامراجی و استعماری قوت سے امداد کی شکل میں بھیک نہیں مانگنی پڑے گی۔

اسلئے حکومت آئی ایم ایف‘ عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی قوتوں کے اشاروں پر بھیک کے چند ٹکڑوں کےلئے ”ویلیو ایڈڈ ٹیکس “ کے نفاذ کے ذریعے پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرکے معیشت کا پہیہ جام کرنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نفاذ مقامی تجارت و صنعت کو مکمل سبوتاژ کرکے پاکستان کی معیشت و اقتصادیات کو اس تباہی کی جانب لے جائے گا جہاں خانہ جنگی ریاستوں کا مقدر بن جاتی ہے اسلئے حکمران اپنا اور اپنی نسلوں کا مقدر سنوارنے کےلئے ملک و قوم کے مقدر سے نہ کھیلیں اللہ نے انہیں پہلے ہی بہت نوازا ہے اور وہ پہلے ہی اس ملک و قوم کو بری طرح لوٹ کر بہت کچھ جمع کرچکے ہیں اس لئے اب اس ملک و قوم پر رحم کریں اور پاکستان کی عوام کو سامراجی قوتوں کا غلام بنانے کے لئے صنعت و معیشت کو تباہی کے کنارے پر پہنچانے کی بجائے خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہوکر پاکستان کے آزاد تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کریں۔

بصورت دیگر حکمران یونان میں حال ہی میں رونما ہونے والے اس انقلاب کو ضرور مدِ نظر رکھیں جس میں مہنگائی‘ پنشن میں کٹوتی اور ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف ہزاروں مشتعل افراد سڑکوں پرنکل کر حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا اور نہ صرف پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کرلیا بلکہ بنکوں اور سرکاری عمارتوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ حکمران یونان کے اس انقلاب سے ضرور سبق حاصل کریں کیونکہ یونان میں دکھائی دیئے جانے والے انقلاب کا یہ منظر پاکستان کے مستقبل کی عکاسی بھی کررہاہے لیکن اگر پاکستان میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو ان کا ردعمل یونان کے عوام سے زیادہ سخت ہوگا کیونکہ پاکستان کی مڈل کلاس‘ لوئر مڈل کلاس اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی کلاس کے معاشی حالات یونان سے زیادہ مخدوش ہیں۔ جسم اور سانس کا رشتہ بڑی مشکل سے برقرار رکھنے والے کروڑو ں پاکستانی اب نہ تو کسی معجزے کے منتظر ہیں اور نہ اس بات کے روادار کہ انہیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق معمولی سا ریلیف دے کر ٹرخا دیا جائے۔ وہ اب انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں۔ صرف عوام ہی نہیں پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی خونیں انقلاب کی نشاندہی کر رہا ہے اور حکمرانوں کو خبردار کر رہا ہے۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب صرف عوام ہی نہیں میڈیا کی ٹون بھی بدل رہی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تسلسل سے اس بے چینی ‘ بے قراری اور وحشت کو سامنے لارہا ہے جو عوام کے اندر اُبل رہی ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ حکمرانوں کے رویئے میں رتی بھر تبدیلی نہیں آرہی۔ بالائی سطح پر کچھ لوگ اب بھی عوام کے جذبات سمجھنے سے قاصر ہیں اوریہی وہ پہلو ہے جو خطرے کی گھنٹی بن رہا ہے۔ بچے کی چیخ و پکار پر توجہ نہ دو ‘اس کی عجیب و غریب حرکتوں کو نظر انداز کرتے رہو تو وہ خطرناک حد تک چلا جاتا ہے۔ مہنگائی‘بےروزگاری ‘عدم مساوات اور انصاف سے محروم عوام کی حالت بھی بگڑے ہوئے بچے جیسی ہوتی ہے اور اس بگڑے ہوئے بچے کو بروقت تدبیر کرکے حالت اعتدال میں لانا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو اگر اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ حالات کس طرف جارہے ہیں اور لوگوں کے روئیے کس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں توا نہیں کسی سماجی سائنس کے ماہر اور نفسیات کے ماہرین سے رجوع کرنا چاہئے اور ان سے پوچھنا چاہئے کہ یہ رویئے کس کس شکل میں سامنے آسکتے ہیں۔
Imran Khan
About the Author: Imran Khan Read More Articles by Imran Khan: 63 Articles with 67696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.