پانچویں خلیفہ راشد امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سیرت و کردار
(Tanveer Awan, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق ؓ ایک رات حسب معمول رعایا کی پاسبانی اور
احوال معلوم کرنے کے لیے اطراف مدینہ میں چکر لگا رہے تھے ،ایک گھر کے باہر
سے گزرے ،ایک بڑھیا کی آواز سنائی دی جو اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے
کا کہہ رہی تھی ،اور بیٹی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ امیر المؤمنین نے منع
کیا ہوا ہے،میں دودھ میں پانی نہیں ڈالوں گی۔صبح ہوتے ہی امیر المؤمنین
حضرت عمرفاروق ؓ نے اس گھر کی تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ وہ بنی ہلال سے
تعلق رکھنے والی ایک خاتون کا گھر ہے ،دوسری اس کی بیٹی ہے ،حضرت
عمرفاروقؓنے اپنے بیٹے عاصم کے نکاح کے لیے اس لڑکی کے گھرپیغام نکاح
بھیجا، عاصم سے فرمایااس لڑکی سے نکاح کرلو ، وہ یقینا اس لائق ہے کہ اس کے
بطن سے ایک شہسوار پیدا ہو جو تمام عرب کی قیادت کرے۔(ازالۃ الخفاء)حضرت
عاصم سے نکاح کے بعد ان کے بطن سے ام عاصم پیدا ہوئیں جن کا نکاح عبدالعزیز
بن مروان بن الحکم سے ہوا،61 ھ مدینہ منورہ میں عبدالعزیز کے گھر میں اس
خوش نصیب بچے نے جنم لیا جس کی خوشخبری حضرت عمر فاروق ؓ کی زبانی مل چکی
تھی، جن کو اشبح بنی امیہ کا لقب ملا اور دنیا اسے عمر ثانی کے لقب سے یاد
کرتی ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے جب ہوش سنبھالا تو حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کی شفقت
اور تربیت حاصل ہوئی،اموی خاندان کے چشم وچراغ تھے، والد محترم مصر کے
گورنر کی حیثیت سے وہیں مقیم تھے لیکن آپ مدینہ میں اپنے ماموں عبداﷲ بن
عمر ؓ کے پاس ہی رہے، خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ہزار دینار ماہانہ وظیفہ
آپ کے لیے مقرر فرمایا ہوا تھا،حضرت ابن عمر ؓ کے پاس رہتے ہوئے آپ نے حفظ
قرآن کریم کی سعادت حاصل کرنے کے بعد علم حدیث اکابر صحابہؓ،عبیداﷲ بن
عبداﷲ بن عتبہ بن مسعوداور ابن عتبہ سے احادیث روایت کیں۔(ابن جوزی )
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو جہاں آپ میں اوصاف حمیدہ نمایاں تھے وہیں
شاہانہ مزاج، نزاکت وتنعم کا غلبہ ، اعلیٰ ترین عطر کا استعمال،معیاری
ومہنگا کپڑا پہننااور ناز و نخرے سے ایک مخصوص مستانہ چال چلن آپ کی فطرت
ثانیہ بن چکی تھی ۔آپ کے چچا اور خلیفہ عبدالملک بن مروان آپ سے بہت محبت
کرتے تھے،آپ جب خلیفہ کے پاس جاتے تو آپ کو سب سے اونچی کرسی پر
بیٹھاتے،خلیفہ عبدالملک فرمایا کرتے تھے کہ یہ نوجوان سریر آرائے خلافت ہوں
گے کیونکہ یہی اشبح بنی امیہ ہے اور جب زمین جور و تشدد سے بھر جائے گی تو
یہ اسے عدل سے بھر دیں گے، پھر کیوں نہ میں انہیں اپنا محبوب و مقرب رکھوں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی عمر جب بیس سال ہوئی ،خلیفہ عبدالملک بن مروان
نے اپنی بیٹی فاطمہ آپ کے عقد میں دے دی، 85ھ میں آپ کو حلب کے قریب چھوٹے
سے علاقہ خناصرہ کا امیر بنایاگیا ،خلیفہ عبدالملک کی وفات کے بعد خلیفہ
ولید نے 87ھ میں ہشام بن اسماعیل مخزومی کو معزول کرکے مدینہ منورہ کی
امارت آپ کے سپرد کی ،اس وقت آپ کی عمر 25سال تھی۔(معجم البلدان)بحیثیت
امیر مدینہ آپ نے سب سے پہلے تابعین فقہاء و علماء پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ
بنائی جن میں سلمان بن یسار،قاسم بن محمدبن ابی بکراورسالم بن عبداﷲ بن
عمرشامل تھے۔مسجد نبوی کی توسیع اور مدینہ منورہ کی طرف آنے والے راستوں
میں سرائے اور ہوٹل تعمیر کروائے ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز پہلے وہ شخص ہیں
جنہوں نے محرابوں کی تجویف ایجاد کی،مدینہ منورہ میں فوارہ بنوایاجو اپنی
صنعت میں حیرت انگیز اور مسرت خیز تھا،خلیفہ ولید نے 90ھ میں پورے صوبہ
حجازکا والی مقرر کیا۔(طبری)چند سالوں بعد ایک تنازعہ کی وجہ سے خلیفہ ولید
نے ایک حکم نامے کے ذریعے آپ کی معزول کردیا، آپ واپس دمشق آگئے تاکہ اپنی
اصلاح احوال او ر خلیفہ ولید کی معاونت اور مشاورت میں شریک رہ سکیں۔
97ھ میں خلیفہ ولید کی وفات کے بعد خلافت سلمان بن عبدالملک کے حصہ میں
آئی،سلمان نے اپنا وزیر و مشیر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مقرر کیا،خلیفہ
سلمان نے اپنا ولی عہد ایوب بن سلمان کو مقرر کیا مگر خلیفہ کی زندگی میں
ہی اس کی وفات ہو گئی ، کچھ عرصہ بعدخلیفہ سلمان کو بدہضمی کا عارضہ پیش
آیا یہاں تک اسے اپنی موت کا یقین ہونے لگا،خلیفہ نے اپنے مشیر خاص رجاء بن
حیوۃ کندی کو خلافت سے متعلق وصیت لکھوا کر مہر بند کروا ئی اور تاکید کی
کہ اس کے متعلق قوم سے بیعت لے لو، رجاء بن حیوۃ کندی نے تعمیل حکم کیا ،
10صفر 99ھ خلیفہ کی وفات ہوئی تو رجاء بن حیوۃ نے بنومروان، بنو امیہ،
امراء و وزراء اور معززین کومسجد میں جمع کیا ،اور اعادہ بیعت کے بعد وصیت
نامہ نکالا ،مہر توڑی اور تحریر پڑھ سنائی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز اور
ان کے بعد یزید بن عبدالملک کے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا، آپ اسی مجلس میں
سب سے آخر میں بیٹھے تھے ،رجاء آپ کے پاس آئے اور کہا کہ قوم کے حال پر رحم
فرمائیں ورنہ بہت بڑا فتنہ کھڑا ہو جائے گا، اولاً انکار کے بعد آپ کو
آمادہ کرلیا گیا۔(ابن جوزی )
خلیفہ سلمان کی تجہیز و تدفین کے بعد آپ نے امور خلافت میں ہونے والی تمام
بے ضابطگیوں ،حق تلفیوں اور اقرباء پروریوں کو ختم کرنے اور عدل و انصاف کے
نفاذ کی کوششیں شروع کردیں ، بیعت کے تین دن بعد آپ نے اجلاس عام منعقد
کیالوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے حق و انصاف قائم کرنے کی تلقین کی ،کتاب
و سنت کو رواج دینے ، عادلانہ سیرت پر چلنے،زہد و قناعت کو شعار بنانے
،احکام الہیہ کو زندہ کرنے کی جدوجہد کی تلقین کی۔اپنی ذات سے ابتداء کی
،تمام شاہی تکلفات کو ترک کرکے ان پر ہونے والے اخراجات اور اشیاء کو بیت
المال میں جمع کروا دیا، سابق بادشاہوں کے زیر استعمال چیزیں بیت المال میں
واپس کی گئیں،باندیوں کو ان کے حقیقی مالکوں کی طرف لو ٹایا گیا،امراء کے
ہاتھوں عوامی مغصوبہ املاک کو ان کے حقیقی مالکوں کو لوٹایا گیااورسرکاری
اشیاء دوبارہ بیت المال میں جمع کیں گئیں،آپ نے عزم کر رکھا تھا کہ ہرجائز
اور حقدار کو اس کا حق لوٹا کر چھوڑوں گا۔(العقد الفرید)
آپ مظلوموں کی فریاد رسی اورکمزوروں پر رحم فرماتے تھے،حکام سے نرمی اور
صلہ رحمی کا تقاضا کرتے تھے، آپ کا حکم تھا لوگوں کو بقدر گناہ سزا دی
جائے،آپ نے لڑائیوں میں عورتوں ، بچوں ، قیدیوں اور زخمیوں کو قید کرنا
حرام قرار دیا تھا،ذمیوں اور ان کے عبادت خانوں کے تحفظ کو یقینی
بنایا،مسافر خانے ،سرائے اور کنویں کدوانے،غیر آبادزمینوں کو قابل کاشت
بنانے کے لیے گورنروں کو خصوصی احکام صادر فرمائے۔علم و درسگاہ سے آپ کو
شغف تھا آپ نے اساتذہ ، ائمہ مساجدکے لیے معقول تنخواہیں مقرر فرمائیں ،طب
اور دیگر فنون کے ماہرین کو مقام ومرتبہ دیا اور درسگاہیں بنوائیں،طلبہ کے
لیے وظائف کا اجراء کیا گیا ،آپ نے زکوٰۃ اور صدقات فطر کی وصولی اور فوری
مستحقین کو ادائیگی کے احکامات جاری کئے ہوئے تھے اور اس کی بہترین نگرانی
کی جاتی تھی،اس کا نتیجہ یہ ہواکہ ہرطرف خوش حالی اورمالداری نظر آنے
لگی،مالدار مال زکوٰۃ لے کر مستحقین کوتلاش کرتے مگر کوئی زکوٰۃ لینے والا
نہ ملتا تھا،یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ مجھے امیرالمؤمنین نے صدقات وصول
کرنے کے لیے افریقہ بھیجا،میں نے صدقات وصول کرکے غرباء وفقراء کو تلاش
کیاکہ ان کو زکوٰۃ دوں ، مجھے کوئی مستحق نہ ملا، امیر المؤمنین نے لوگوں
کو غنی کردیاتھا۔(ابن جوزی)آپ کے دور خلافت میں لوگ کثرت سے مسلمان ہوئے
اور مسلم آبادیوں میں امن اور خیر وبرکت کھلی آنکھوں دیکھی جانے لگی۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے ان تمام امور میں معاون و ممدآپ
کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک کے علاوہ آپ کے بھائی سہل ،آپ کے صاحبزادے
عبدالملک اور غلام مزاحم رہے، یہ حضرا ت حق کے نافذ کرنے میں آپ کی مدد
کرتے تھے اور آپ کے لیے تائید اور قوت کا باعث تھے ،حضرت عمرؒ کو اپنی
اولاد میں عبدالملک سے بہت زیادہ محبت تھی، وہ خیر کے کاموں میں آپ کا
حقیقی جانشین تھا مگر وہ آپ کی حیات میں ہی وفات پا گے،پھر یکے بعد دیگرے
سہل اور مزاحم بھی اﷲ کو پیارے ہوگئے، اس کا آپ کو بہت رنج و الم تھا۔
آپ کی مبارک خلافت کے ابھی 29ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک سازش کے تحت یزید بن
عبدالملک نے غلام کے ذریعے آپ کو زہر دلوایا،دیر سمعان میں آپ بیس دن تک
مسلسل بیمار رہے،اسی بیماری کے دوران آپ نے دیر سمعان کے گرجا کے پادری سے
ایک سال کے لیے اپنی قبر کی زمین دو دینار یا چالیس دینار میں خریدی(معجم
البلدان)،آپ نے رجاء بن حیوۃ کو یزید بن عبدالملک جو ولی عہدتھا کے لیے
وصیت لکھوائی۔آپ کی کل اولاد چودہ تھی جن میں سے گیارہ زندہ تھے ،سب کو
بلایااور فرمایامیرے بچوں !میں تمھیں اس حال میں چھوڑ کے جا رہا ہوں کہ
تمھارے لیے خیر کثیر ہے، تم کسی مسلمان یا ذمی کے پاس سے گزرو گے وہ تمہارے
حقوق کا ضرور خیال رکھے گا،اﷲ تعالیٰ تم کو رزق پہنچائے۔ حاضرین مجلس سے
کہا کہ میں ایسی مخلوق دیکھ رہا ہوں جو نہ انسان ہیں نہ جن، اور ان کی
تعداد زیادہ ہوتی جارہی ہے،اور آپ نے خلوت چاہی۔دوبارہ اہلیہ اور خادم آپ
کے پاس آئے تو آپ داعی اجل کو لبیک کہ چکے تھے۔آپ کی وفات 40سال کی عمر میں
جمعہ کے دن 20/24یا 25رجب 101 ھ کو ہوئی،آپ کی نماز جنازہ یزید بن
عبدالملک نے پڑھائی(عقد الفرید)آپ کو گرجا کی خریدی ہوئی زمین میں دفن کیا
گیا۔
آپ کا دور خلافت انتہائی مختصر تھا مگر خیر و برکت اور انصاف کی ہمہ گیری
کی وجہ سے لوگ بہت لمبا عرصہ شمار کرتے ہیں،بنوامیہ کے خلفاء تو بہت گزرے
مگردنیا نے صرف حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اپنے سینوں میں جگہ دی،آج بھی
آپ کی سیرت و کردار کا تذکرہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا باعث ہے۔ |
|