تیرے جانے کے بعد بھی تیری یاد باقی ہے !
(Ch Fatehullah Nawaz Bhutta, )
(میڈم نور جہان کے حوالے سے اشاعتِ خاص) |
|
|
انسان کبھی کبھی بے بسی کی تصویر بن
بیٹھتا ہے اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتا اور صبر کا دامن ہاتھ
سے چھوٹتا ہوا نظر آتا ہے ،وہ جن کے بغیر انسان خود کو نامکمل تصور کرتا ہے
انہیں بھی اپنے ہاتھوں دفن گور کرنا پڑتا ہے تاہم اچھے لوگ ،اچھی آواز
ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دنیائے فانی
سے جانے کے بعد صدیوں تک زمانہ انہیں یاد رکھتا ہے نورجہان جن میں ایک ایسی
باکمال شخصیت ہیں کہ جو ہمیشہ اپنے مداحوں کے لئے زندہ ہیں ۔انسان کے جسم
کو فنا ہے کیونکہ وہ ایک تاریخ پر پیدا ہوتا ہے اور ایک مقررہ تاریخ پر زیر
خاک چلا جاتا ہے مگر یاد اور آواز ہمیشہ زندہ رہتی ہے پاک وہند کی تاریخ
میں نورجہاں نام کی دو عورتوں نے جنم لیا ایک نے صدیوں پہلے ایک بادشاہ کے
دل پر اورہندوستان کی سرزمین پر حکومت کی اور تاریخ کی کتب کا حصہ بن گئی ،دوسری
نورجہان نے اِسی برصغیر میں جیتے جاگتے ہر انسان کے دل پر حکومت کی ہر شخص
کو اپنی مٹھی آواز اور سادہ حسن کا دیوانہ بنا دیانور جہان ایک ایسی آواز
جو صدیوں میں جنم لیتی ہے جو ہر لفظ کے احساس میں اِس طرح ڈھل جائے جیسے یہ
آواز صرف انہیں لفظوں کی ادائیگی کے لئے پیدا ہوئی ہے اپنے دور کی ملکہ حسن
ادارکارہ جہاں آرا کجن نے اﷲ وسائی کو نور جہان کا نام دیااور اِس نام نے
انہیں شوبز کی بلند اور شاہانہ مسند پر براجمان کیا جہاں آرا کجن کی پیش
گوئی بالکل درست ثابت ہوئی اور نورجہان نے اُس مسند سے اوپر کی جانب تو سفر
طے کیا مگر کبھی نیچے قدم نہیں رکھا 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں دشمن کا
مقابلہ صرف فوج سے نہیں تھا بلکہ نورجہان کے گائے ہوئے اُن نغموں سے بھی
تھا جو انہوں نے اپنے فوجی بھائیوں کے لئے ریکارڈ کروائے اور لہو گرم
کردینے کا بہانہ بن گئے نورجہان بیسویں صدی کی عورت کا ایک رول ماڈل ہیں
جنہوں نے اپنے فن کو کمال پر پہنچایا۔کسے معلوم تھا کی 21ستمبر1926ء کو شہر
ِ قصور میں اﷲ وسائی کے نام سے کھلنے والا پھول دنیائے موسیقی کو ہمیشہ کے
لئے نور جہان بن کر مہکائے گا1965ء کی پاک بھارت جنگ میں میڈم نورجہاں نے
کلامِ اقبال اِس عندگی سے گایا کہ خود علامہ اقبالؒکے بیٹے اِن کے مداح بن
گئے برصغیر پاک وہند کے غزل گائک اِس بات کے معترف ہیں کہ میڈم نور جہان
جیسی آواز صدیوں میں پیدا ہوتی ہے کہتے ہیں کہ اچھے شاعر کی شاعری اُس وقت
ہی دلوں پے اپنا اثر چھورٹی ہے جب اُسے کوئی موسقی سے خوب آشنائی رکھنے
والا گلوکار گائے یہ خوبی میڈم نورجہان میں بدرجہ اطم پائی جاتی تھی یہی
وجہ ہے کہ میڈم کے گائے گیت آج بھی موسیقی کے شوقین افراد کے دلوں کی دھڑکن
ہیں ۔ میڈم نورجہان نے اپنے گھر کو دیکھا، اپنے بچوں کی پرورش کی اور اپنے
پورے خاندان کی انتہائی قابلِ احترام بزرگ خاتون بن کر زندہ رہیں ۔میڈم نے
یوں تو فنِ موسیقی میں بہت سی نمایاں کامیابیاں سمیٹیں تاہم ،غزل، گیت ،دھمال
اور عارفانہ کلاموں نے انہیں خوب پذیرائی بخشی،میڈم نورجہان ایک بہترین
گائک ہونے کے ساتھ ساتھ بطورِ انسان بھی بہت شفیق تھیں ۔ یہ 23 دسمبر 2000ء
کا دن تھا رمضان المبارک کا مہنہ تھا کہ میڈم نے علالت کے بعد جہان ِ فانی
سے کوچ کیا تاہم وہ ،،،اُن کی آواز ،،،اُن کی شفقت آج بھی دنیا بھر میں
موجود اُن کے ہزاروں لاکھوں مداحوں کے دلوں میں زندہ وجاوید ہے۔اﷲ تعالیٰ
مرحومہ کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ،امین ۔اﷲ ہم سب کا حامی
وناصر ہو! |
|