مردم شماری پرسیاسی جماعتوں کے تحفظات.... التواءکے بادل منڈلانے لگے
(عابد محمود عزام, Karachi)
مردم شماری کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے
تحفظات کے باعث مردم شماری کا عمل متنازع ہوتا نظر آرہا ہے اور مردم شماری
کے عمل میں مزید تاخیر پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ بلوچستان کی بعض قوم
پرست جماعتیں پہلے ہی مجوزہ مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں، جبکہ
اتوار کے روز پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے تحت منعقدہ کل جماعتی کانفرنس
میں شامل سیاسی، مذہبی، قوم پرست اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے متفقہ طور
پر مجوزہ مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر
اعلیٰ نے مردم شماری سے متعلق سندھ کے تحفظات کی تائید کی ہے۔ ملک میں ہونے
والی چھٹی مردم شماری پر بلوچستان کے بعد سندھ، خیبر پی کے نے بھی تشویش کا
اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاق اس حوالے سے تمام صوبوں کو اعتما د میں لے۔
وفاقی حکومت نے مردم شماری پر صوبوں کے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ کر لیا،
جبکہ مردم شماری کے حوالے سے صوبوں کے تحفظات کی وجہ سے اس میں تاخیر ہونے
کا امکان ہے۔ بعض صوبوں کی جانب سے مردم شماری کرانے کے مطالبات سامنے آتے
رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی کراچی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت
سے جلد مردم شماری کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، لیکن حالات کودیکھ کر
لگتا ہے کہ فی الحال مردم شماری ہوتی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ ملک میں مردم
شماری کے لیے حکومت تقریباً ایک سال قبل ہی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی
آئی) سے منظوری لے چکی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ عمل مارچ سے بھی آگے بڑھنے
کا امکان ہے۔ اس حوالے سے ذرایع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف 29 فروری کو
ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں تمام وزرائے اعلیٰ کو مردم
شماری میں تاخیر کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔ ذرایع کے مطابق مردم شماری
کا اگلا شیڈول ممکنہ طور پر سی سی آئی کے اجلاس میں زیر بحث آئے گا اور
ابھی یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تاخیر صرف چند ماہ کے لیے ہوگی یا
اس سے زاید کے لیے ہوگی۔ وفاقی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر 3 لاکھ فوج ان کی
مدد کے لیے مہیا کی جائے تو وہ صرف 18دن کے اندر یہ عمل مکمل کر سکتے ہیں،
جبکہ دوسری جانب فوج ملک کے مختلف حصوں میں مصروف ہونے کی وجہ سے مذکورہ
تعداد میں اپنے جوان اور افسر مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، جس کے بعد
ایک بار پھر مردم شماری کا عمل تاخیر کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ جمعہ
کو پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ و شماریات رانا محمد افضل خان نے قومی
اسمبلی کو بتایا تھا کہ حکومت فوجی اہلکاروں کی عدم دستیابی کے باعث مردم
شماری کا انعقاد شیڈول کے مطابق نہیں کرسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاک
فوج حامی بھرے تو حکومت اپریل یا مئی میں اس 18 روزہ ملکی مہم کا انعقاد
کرسکتی ہے۔ تاہم مردم شماری ڈویژن سے وابستہ موجودہ اور سابق عہدیداروں نے
انکشاف کیا کہ مردم شماری میں تاخیر کی وجہ انتظامی کی بجائے سیاسی ہوسکتی
ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر 2016ءمیں بھی مردم شماری نہ ہوئی تو 2018ءکے الیکشن کا
انعقاد متاثر ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ملک میں آخری بار مردم شماری 1998ءمیں ہوئی تھی، اس کے بعد
18سال سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوسکی ہے۔ 2010ءمیں سابق وزیراعظم سید
یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری
کروانے کی منظوری دی تھی، جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010ءمیں،
جبکہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011ءمیں ہونی تھی، لیکن نہیں ہو سکی۔ اس سے
پہلے 2008ءمیں بھی مردم شماری ہونی تھی، لیکن اس کو بھی بعض وجوہ کی بنا پر
ایک سال کے لیے موخر کر دیا گیا، جبکہ 2009ءمیں فاٹا، بلوچستان اور خیبر
پختونخوا کی حکومتوں کے کہنے پر مردم شماری اور خانہ شماری ایک بار پھر
موخر کر دی گئی۔ ملک میں آخری مردم شماری 1998ءمیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے
ملک میں ہر دس سال بعد یعنی 1951ئ، 1961ئ، 1972ءاور 1981ءمیں مردم شماری
ہوئی تھی۔ 1991ءکی مردم شماری تین بار ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ سے
13مارچ 1998ءکو ہوئی تھی۔ ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کر لیا
گیا تھا، لیکن اندرون سندھ آبادی میں 770 فیصد اضافے کی ناقابلِ یقین
رپورٹوں کے پیش نظریہ عمل روک دیاگیا۔ اس وقت کی خانہ شماری کے مطابق
پاکستان کی آبادی 81ملین سے بڑھ کر 133ملین ہو گئی تھی۔ اس طرح اب 18سال
گزرچکے ہیں، لیکن چھٹی مردم شماری نہیں ہو رہی۔ اب وفاقی حکومت نے ملک میں
مردم شماری کی منظوری دی ہے، جو تین سال سے التواءمیں تھی، لیکن بعض صوبوں
کے تحفظات کے باعث اس بار بھی مردم شماری التواءکا شکار ہوتی نظر آرہی ہے۔
اتوار کے روز پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے تحت اس حوالے سے کل جماعتی
کانفرنس منعقد کی گئی ہے، جس میں شامل سیاسی، مذہبی، قوم پرست اور سول
سوسائٹی کے نمائندوں نے متفقہ طور پر مردم شماری کے حوالے سے وفاقی حکومت
سے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری کے عمل کی نگرانی
صوبائی حکومتوں کے سپرد کی جائے اور مردم شماری کی ابتدا سے اختتام تک
مشترکہ نگرانی کا نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی شماریاتی ادارے کی
گورننگ کونسل میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی دی جائے۔ خانہ شماری کی مدت
میں کم از کم 10 دن اور مردم شماری کی مدت میں کم از کم ایک ماہ مقرر کی
جائے۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مردم شماری میں نگرانی اور
سیکورٹی کی نگرانی دی جائے اور وفاقی حکومت غیر ملکی تارکین وطن کو واپس ان
کے ممالک میں بھیجنے اور ان کی رجسٹریشن کا مناسب انتظام کرے۔ قومی مردم
شماری کی صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مربوط پالیسی کا تعین کیا جائے۔ تمام
غیر قانونی طور پر تارکین وطن کو جاری ہونے والے شناختی کارڈ کو منسوخ کیا
جائے اور مردم شماری کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی جائیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں مردم شماری کرانا انتہائی ضروری ہے، 18سال سے
حکومتیں اس عمل کو ملتوی کرتی آئی ہیں، اب اس میں مزید تاخیر نہیں ہونی
چاہیے، لیکن اس حوالے سے وفاق تمام صوبوں کو اعتماد میں لےنا اور ان کے
تحفظات دور کرنا ضروری ہے۔ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کرانی چاہیے۔ مردم
شماری کے حوالے سے کل جماعتی کانفرنس میں پیش کیے گئے مطالبات بے جا نہیں
ہیں۔ مردم شماری کے انعقاد کے حوالے سے تمام صوبوں اور وفاق میں ہم آہنگی
ضروری ہے۔
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ جدید طریقوں سے مردم شماری کا عمل بڑی حد
تک آسان ہوسکتا ہے، لیکن سب سے پہلے اس کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
نادرا کے پاس شہریوں کا بڑا ڈیٹابیس موجود ہے۔ نادرا جیسے ادارے کے ہوتے
ہوئے روایتی انداز میں مردم شماری کرانے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔
بیشتر ممالک میں 19ویں صدی کے دستی انداز کو یکسر ترک کر دیا گیا ہے۔ مردم
شماری کے عمل میں آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد کس طرح حاصل کی جا سکتی
ہے۔ جن ممالک نے جدید خطوط پر مردم شماری کا عمل شروع کر رکھا ہے، وہاں بھی
نادرا جیسے قومی ادارے سے کام لیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت مردم شماری پر
16ارب روپے خرچ کر رہی ہے حالانکہ اس رقم کا ایک چوتھائی نادرا کو دے کر
بااعتماد اور باوثوق انداز میں 100فیصد کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور ب فارم
جاری کیے جا سکتے ہیں۔ نادرا ملک کے 95 حصے تک رسائی رکھتا ہے، جبکہ دیگر
حصے تک آسانی سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ نادرا بھی وہی کوائف مانگتا ہے
جو مردم شماری کے دوران اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے 70ممالک کے پاس مردم
شماری کرانے کا مخصوص ادارہ نہیں ہے۔ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے بعض
ارکان کا کہنا ہے کہ مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے، ہم ملک بھر میں مردم
شماری ہی مرحلے میں کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو سیاسی
جماعتیں اس کے نتائج پر اعتراض کریں گی۔ |
|