میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
(SULTAN HUSSAIN, Peshawar City)
تین قسطوں پر مشتمل کالم کا پہلا حصہ حاضر ہے |
|
کہتے ہیں بادشاہوں کو سیر سپاٹے کا بڑا شوق
ہوتا ہے آج کل لوگ لمبی ڈرائیو پہ نکل جاتے ہیں جو غریب ہوتے ہیں وہ مال
روڈ یا '' گورا بازار'' کی سیر کرتے ہیں لیکن چونکہ پرانے زمانے میں نہ تو
گورا یا کالا بازار ہوتا تھا اور نہ گاڑیاں تھیں کہ بادشاہ لمبی سیر پر نکل
جاتے یا گورا یا کالا بازار چلے جاتے اس لئے وہ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سیر
سپاٹے کیلئے نکل جاتے اور شکار بھی کھیل لیتے بختیار خلجی ہندوستان کا
مشہور بادشاہ تھا ایک بار وہ سیر کے لیے نکل گئے ایک جنگل کے قریب اسے ایک
جھونپڑی نظر آئی تو بادشاہ سلامت وہاں پہنچ گئے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فقیر
ناگفتہ بہہ حالت میں بیٹھا یاد الٰہی میں مشغول ہے بادشاہ کو اس پر بڑا ترس
آیا اور رحمدلی کے جذبے سے کہا '' سائیں میں بادشاہ ہوں جس چیز کی تمہیں
حاجت ہو مانگو''فقیر نے کہا ''بادشاہ سلامت میری ایک ہی حاجت ہے'' بادشاہ
نے پوچھا '' کیا'' فقیر نے جواب دیا'' مجھے مکھیاں بہت ستاتی ہیں انہیں کہہ
دے مجھے نہ ستایا کریں ''بادشاہ نے مسکرا کر کہا '' میں مکھیوں کو کیسے باز
رکھ سکتا ہوں'' اب فقیر کے مسکرانے کی باری تھی سو اس نے بھی مسکرا کر کہا
'' جس کو مکھیوں پر اختیار نہیں وہ بھلا مجھے کیا دے سکتا ہے'' کہتے ہیں
شوق کا کوئی مول نہیں بادشاہوں کو سیر سپاٹے اور شکار کھیلنے کا شوق ہوتا
تھا (آج کل کے ہمارے ''بادشاہوں'' کو بھی یہی شوق ہیں لیکن انہیں ساتھ ہی
قومی خزانے گھر لے جانے کابھی شوق ہوتاہے) عام آدمی کو شکار سے کیا غرض اسے
صرف کھانے کا شوق ہوتا ہے کوئی سانپ کھاتا ہے کوئی اس کا جوس پیتا ہے اور
چین میں یہی کچھ چینی کر رہے ہیں کسی کو اس کے پالنے اور کسی کو اس کے
کھانے کا شوق ہوتا ہے کوئی مینڈک کھاتا ہے کوئی اسے پالتا ہے یہی نہیں کچھ
ملکوں کے لوگوں کو چوہے بھی کھانے کا شوق ہے بڑے شوق سے کھاتے ہیں یہ ان کی
مرغوب خوراک ہے تاہم امریکی بڑے بے ذوق ہیں اب انہیں چینی ذوق سے چوہے
کھلاتے ہیں تو انہوں نے اعتراض کر دیا۔ کہتے ہیں چوہوں سے ہی سرطان کی وبا
آئی تھی ہمیں تو علم نہیں لیکن تاریخ دان بتاتے ہیں تاریخ دانوں کو بھی بس
موقع چاہیے ہوسکتا ہے کہ یہ درست ہی ہو یا پھر انپوں نے لوگوں کو ڈرایا ہو
اسی لیے پاکستان میں لوگ چوہوں سے عاجز ہیں ویسے پاکستان میں چوہے ہیں بھی
بہت زیادہ اب یہی دیکھ لیں گذشتہ دنوں کے ایک چوہے نے بچے کو کاٹ کھایا جس
سے وہ بچہ اس جہان فانی سے روٹ کر چلا گیا اس سے قبل بھی کچھ بچوں کے کاٹنے
کے بارے میں پتہ چلا تھا۔ چوہوں کی بات چل نکلی ہے تو کچھ عرصہ قبل پشاور
کے ایک باشندے نے اڑھائی سال میں ایک لاکھ چوہوں کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا
اور کہا تھا کہ اگر حکومت تعاون کرے تو وہ پورے شہر کو چوہوں سے پاک کر دے
گا ویسے پیشکش تو بہت اچھی تھی اس سے دو فائدے حاصل ہو سکتے تھے حکومت کو
اس پر ہمدردانہ بلکہ بے رحمانہ غور کرنا چاہے تھا لیکن حکومت نے اس پر غور
نہیں کیا اور اس مفید تجویز کو دروغ اعتنا نہ سمجھا جس کی وجہ سے اب چوہے
بھی بڑے دلیر ہوگئے بڑوں پر تو بس نہیں چلتا اب بچوں کو کاٹنے لگے ہیںاگر
اس شخص کی پیش کش پر عمل کیا جاتا تو اس کے دو فائدے ہوتے اپ سوچیں گے کہ
وہ کیا تو اتنی بے صبری کی بھی کیا ضرورت ہے دو بھی نہیں بلکہ اس کے تین
فائدے ہو سکتے تھے اور وہ تین فائدے کیا ہیں ہم آپ کو یہ مفید فاہدے بتاتے
ہیں نمبر ایک یہ کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس شخص کا نام آنے کے ساتھ
ہی ساتھ پورے دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوتا بلکہ پاکستان کے نام کو
چار چاند لگ جاتا لیکن حکومت نے یہ سنہری موقع ضائع کر دیا اب تک مغرب والے
دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کو یاد کررہے ہیں پھر چوہے مارنے کے حوالے سے
پاکستان کوعالمی سطح پر یاد کیا جاتا کیونکہ چوہے مارنا بھی کوئی آسان کام
نہیں ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا کام بھی نہیں ہے اگر کسی میں ہمت ہے تو
سامنے آئے اب تک دنیا کے کسی قوم میں بھی اتنی ہمت نہیں اس لئے ایسا کوئی
سپوت ایسا ابھی تک پیدا نہ ہو سکا جو یہ کارنامہ انجام دیتا اور انشاء اللہ
آئندہ بھی کوئی ایسا سپوت پیدا نہیں ہوسکے گا اور یہ اعزاز صرف پاکستان کو
ہی حاصل رہے گا وہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی سرپھیرا اس چیلنج کو قبول کرے
اور سامنے آجائے ویسے پاکستانی قوم کو یقین ہے کہ ایسا کوئی سرپھیرا بھی اس
دنیا میں پیدا نہیں ہوا یہ تو تھا اس کا پہلا فائدہ اس کا دوسرا فائدہ کیا
ہے یہ ابھی ہم آپ کو نہیں بتائیں گے اسے اگلی قسط تک راز میں ہی رہنے دیں
اتنی بے صبری بھی اچھی نہیں تھوڑا سا انتظار کیجئے پی ٹی وی کے پروگرام قبل
از مسیح تو آپ نے ضرور دیکھے ہونگے جب قومی نشریاتی رابطے میں خلل پڑتا تھا
تو اکثر ایک سلائیڈ سکرین پر نظر آتا تھا'' انتظار فرمائیے'' تو قارئین
چوہا مار مہم کے دوسرے اور تیسرے فائدے کو جاننے کیلئے آپ بھی انتظار
فرمایئے ابھی قومی نشریاتی رابطے میں خلل سے جیسے ہی رابطے بحال ہوں گے ہم
آپ کو وہاں لے چلیں گے جہاں سے دوسری قسط کے لیے رابطہ منقطع ہوا تھا۔ |
|