۲۰۱۳ کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمپین
عروج پر تھا تو ہر فلیٹ فارم اور ہر گلی سے ایک آواز سنائی دیتی تھی ۔ــ
ــ(احتساب ) ہر کوئی اس لفظ کو اپنی طریقے سے مارکیٹنگ کررہا تھا ۔ کوئی
آزاد احتساب کی بات کرتا تو کوئی غیر جانبدار احتساب کی ، تو کوئی کہڑا
احتساب کی ۔ الیکشن کے نتائج کے بعد کوئی مرکز میں تو کوئی صوبوں
برسراقتدارآیا۔ اب پاکستان کے عوام اس خیال میں تھے کہ لفظ احتساب کی
مارکیٹنگ کے بعد عوام لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس آئے گی ۔ اور ملک معاشی
طور پر مضبوط ہوگا ۔ اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
سب سے پہلے خیبرپختونخوامیں برسراقتدار آنے والی جماعت تحریک انصاف نے
احتساب کا عمل شروع کیا۔ اور ۷ جنوری ۲۰۱۴ کو احتساب کمیشن قائم کیا ۔ جس
کی برسراقتدار آنے والی جماعت تحریک انصاف نے خوب مارکیٹنگ بھی کی اور یہ
کہا جاتا رہا کہ خیبرپختونخواکا احتساب کمیشن ایک آزاد اور خودمختار اور
مثالی ادارہ قائم کیا گیا ہے ۔ اور اس کا سربرہ ایک اصول پسندجنرل (ر)حامد
خان کو اس کا ڈی جی مقررکیا ۔کیونکہ شروع میں اس ادارے نے ایک وزیر اور
حاضر سروس سکریٹری کو گرفتار کیا۔اور ساتھ میں اپوزیشن کے کچھ افراد کو
گرفتار کیا ۔ اپوزیشن کی طرف سے اس کیمشن کو خوب تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔
اور بعض اوقات اس کو پرویز کمیشن کا نام بھی دیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا
کہ اس کو مذید فعال بنایا جاتا ۔ لیکن ایسا کیا ہوا کی اس بل میں ترمیم
کرنا پڑی ۔ اور اس ترمیم کے ساتھ ڈی جی جنرل (ر)حامد خان صاحب کو احتجاجن
مستفی ہونا پڑا۔ اور وزیراعلی پرویزخٹک صاحب کی طرف یہ کہا گیا کہ افسروں
کو ڈرایا جا رہاہے جسکی وجہ سے کوئی کام نہیں کررہا۔ وزیراعلی صاحب کی یہ
بات ٹھیک ہے کیونکہ یہاں پر تو المیہ یہ ہے کہ تنخوا تو کام نہ کرنے کی
ملتی ہے کام کرنے کے لئے تو عام شہریوں کو رشوت دینی پڑتی ہے۔
اسی طرح جب سند ھ میں احتساب کا عمل شروع ہوا تو نیب ، ایف آئی اے ، رینجرز
نے کاروائی کا اغاز کیا تو سند ھ حکومت وفاقی حکومت پر برس پڑی ۔ اور پی پی
پی کی طرف سے ن لیگ پریہ الزام لگایا گیا کہ ن لیگ والے ہمارے رہنماوں کی
پگڑیاں اچال رہی ہے ۔ تو ن لیگ کی طرف سے صاف انکار کیاگیا۔ اور کہا گیا کہ
کرپشن کے خلاف تو نیب کام کررہی ہے ۔ جس پر حکومت کا کنٹرول نہیں ۔ اس وقت
سندھ حکومت نے خوب شور مچایا ۔ اس وقت تحریک انصاف نے بھی سندھ میں نیب کی
کرپشن کے خلاف کاروائیوں کی مکمل حمایت کی ۔اورسندھ اسمبلی میں جب سندھ
حکومت کی طرف سے ترمیمی بل پیش کیاگیاتو اس پر سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف
کے ممبران نے خوب احتجاج کیا۔
جب احتساب کا یہ سلسلہ پنجاب کی طرف بڑا تو سب سے پہلے وزیراعظم نوازشریف
صاحب سندھ اور خیبرپختونخوا حکومتوں کے نقش قدم پر چل پڑے اور یہاں تک کہ
دیا کہ افسروں کو ڈرانا اور عزتیں اچھالنا ٹھیک نہیں ، اس لئے نیب اپنے
دائرے میں رہے ۔ ورنہ حکومت نیب کے حلاف کاروائی کرے گی ۔ اور بغیر تصدیق
کے گھروں میں گھس جاتے ہیں ،اور ایماندار لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ وزیراعظم
نوازشریف صاحب کے ساتھ پنجاب کے رانا صاحب بھی میدان میں آگئے ۔ اور اسی
طرح سب لوگوں نے شور مچانہ شروع کیا ۔ اور تو اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ
صاحب بھی شکایت دے ڈالی اور کہا کہ جناب ایف آئی اے بھی یہی کام کر رہی ہے
۔ اب عوام اس سوچ پر مجبور ہے کہ آخر وہ کونسا ادارہ ہے جو ملک میں کرپشن
پر گرفت کر سکے۔ اور اگر احتساب کے اس عمل کا باغور مطالعہ کیا جائے تو پیہ
چلتاہے ۔ کہ یہاں پراحتساب کوئی نہیں کرنا چاہتا ۔ صرف انتحابات سے پہلے
ایک لفظ احتساب کی مارکیٹنگ کرکے عوام سے با اسانی ووٹ وصول کی جا سکتے ہیں
۔ کیونکہ جب احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے ہر طرف سے صرف ایک آواز سنائی دیتی
ہے ۔ پگڑیاں اچھالی جارہی ہے ۔ جس پر حبیب جالب نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام ذر ہے خطرے میں ۔۔۔۔حقیقت میں جو رہزن ہے وہی
رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگ ظلمت پر ۔۔۔۔ وہ نوحہ گرہے خطرے میں وہ
دانشور ہے خطری میں |