مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ ایک عبقری شخصیت
(Tanveer Awan, Islamabad)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ کے اوراق انہی لوگوں کے تذکروں سے معطر رہتے ہیں جن کا جینا اور مرنا
کسی عظیم مقصد کے لیے ہوتا ہے ، جو زندگی کے ودیعت کردہ لمحات اوروقت کی
قدر وقیمت کوجانتے اور اس کے مفید استعمال کا کامل ادراک رکھتے ہیں،ان کا
جنازہ بزبان حال سے ان کی جدوجہد کی کامیابی کا اعلان کر رہا ہوتا
ہے،انسانیت ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کی احسان مند اور ممنون رہی ہے، امیر عزیمت
،مجدد العصر شیراسلام مولانا حق نواز جھنگویؒ انہی شخصیات میں سے نابغہ
روزگار شخصیت ہیں، جو حیات مستعار کا قلیل حصہ لے کر دنیا میں آئے مگر دینی
وملی خدمات کا بہت بڑا فریضہ سرانجام دے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مولانا حق نواز جھنگویؒ 1952ء میں چاہ کچھی والا موضع چیلہ تھانہ مسن ضلع
جھنگ میں ولی محمد مرحوم کے گھر پیدا ہوئے،والدہ محترمہ کا انتقال بچپن میں
ہو گیا تھا ،پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی محلہ میں اپنے ماموں
حافظ جان محمد سے دو سال میں قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا،علم قرات و تجوید
شیخاں والی مسجد خانیوال میں مولانا قاری تاج محمود ؒ فاضل دارلعلوم دیوبند
سےپڑھنے کے بعد علوم اسلامیہ کی تحصیل کے لیے دارلعلوم کبیروالہ میں داخلہ
لیا ،یہاں محدث کبیر مولانا عبدالخالق ؒ اور شیخ الحدیث مولانا علی محمد ؒ
سمیت دیگر کبار اساتذہ سے کسب فیض کیا،دورہ حدیث شریف کے لیے عالم اسلام کی
عظیم دینی درسگاہ جامعہ خیر المدارس میں داخلہ لیا جہاں شیخ الحدیث
مولانامحمد شریف کشمیریؒ اور دیگر شیوخ کے سامنے زانوئے تلمذ طے لیا اور
یہیں سند فراغت حاصل کی۔
مولانا حق نواز جھنگویؒ نے عملی زندگی کی ابتداء جھنگ صدر مسجد پپلیاں والی
میں اپنی خطابت سے کیا،آپ نےاپنے انداز خطابت سے زیادہ جرات مندانہ
رویے،عوام الناس کے ساتھ ہمدردی،غمخواری اور اجلے کردار سے اپناایک حلقہ
عقیدت و محبت قائم کرلیا،آپ نے اپنے مطالعے،مشاہدے،افکار،درد دل،اخلاص ،للہیت
اورتقویٰ کی بنیاد پر بہت کم عرصہ میں اپنے معاصرین علماء کرام میں نمایاں
مقام حاصل کرلیا۔اسلام ،شعائراسلام اورختم نبوت کا تحفظ،توہین صحابہ اور
اہلبیت کا سدباب کرنے اور مسلمانوں میں دینی حمیت کو زندہ کرنے کی جدوجہد
آپ کامقصد حیات تھا،جمیعت علماء اسلام (ف)کے اہم راہنما کی حیثیت سے دینی
خدمات سرانجام دیتے رہے۔
جھنگ کی عوام انتہائی پسماندہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم زندگی
گزار رہے تھے،تعلیم و شعور کی کمی کے ساتھ ساتھ وڈیروں اور جاگیرداروں کے
ظلم و ستم سہہ رہے تھے ،خوف کے مارے عوام حرف شکایت کسی سے نہیں کرتے
تھے،ستم بالائے ستم یہ کہ شیعہ جاگیرداروں کی زیرسرپرستی مسلکی تعصبات اور
انتہاپسندی ،توہین صحابہ کرام کے واقعات آئے روز رونما ہوتے تھے،جن کی روک
تھام اور مظلوم سنی عوام کی آواز کو بلند کرنے کے لیے آپ نے سب سے پہلے
تحریک مدح صحابہ چلائی ، پھر 6ستمبر 1984 پپلیاں والی مسجد میں آپ کی
سرپرستی میں انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی ،مختصر سے عرصہ کے بعد انجمن
کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیل گیا اور مولانا کے موقف کے ہمنواؤں کی تعداد
میں گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا،آپ 1984 ء سے لے کر 1990ء تک
انجمن سپاہ صحابہ کے سرپرست رہے،اس دوران جیلیں،ہتھکڑیاں ،مصائب و مشکلات
اورعزیمت کی عظیم داستانیں آپ نے رقم فرمائیں۔
مولانا حق نواز جھنگویؒ نے جمیعت علماء اسلام (ف) کے ٹکٹ پر 1988ء میں جھنگ
سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا،جس کے بنیادی اسباب
میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ آزاد انسانوں کو اپنی ناجائز خواہشات کی
تکمیل کے لیے جانوروں جیسی زندگی پر مجبور کرنے والی وڈیرہ شاہی اور جاگیر
داری کی قید سے آزادی دلائی جائے،زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروموں کے
لیے راحت کا سامان کیا جائے،مولانا حقنواز جھنگویؒ نے بڑی جرات اور بہادری
سے بیگم عابدہ حسین کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور اسے ناکوں چنے چبوائے، آپ
نے اس کے مقابلے میں39000 ووٹ حاصل کئے ،اگرچہ آپ اس نشست پر کامیاب تو نہ
ہوسکے مگر جاگیرداروں اور وڈیروں کو ایک واضح پیغام دیا کہ اب ان کے ظلم کی
اندھیری رات ختم ہونے کو ہے،قانون،عدل وانصاف اور احترام انسانیت کی روشنی
ضرور پھیل کر رہے گی۔آپ نے اپنے حلقے کے باسیوں کو عزت ،وقار اور اپنے حقوق
اور ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے جینے کا ڈھنگ سیکھایا،مولانا حقنواز
جھنگویؒ ظلم کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے، دیہاتی اور شہری طبقہ
یکساں طور پر آپ کا گرویدہ ہوگیاتھا،آپ کو ہردلعزیزی اور ایسی محبوبیت حاصل
ہوئی جس کی دوسرے صرف آرزو ہی کرسکتے تھے۔علاقہ کی وڈیرہ شاہی نے محسوس کر
لیا تھا کہ مولانا حق نواز ؒ آئندہ الیکشن میں انہیں ضرور شکست دیں گے۔
مولاناحق نواز جھنگویؒ نے شہادت سے قبل خطبہ جمعہ میں ایک خطرے کی طرف
اشارہ فرمایا کہ ان کے خلاف ایران،دبئی اور پاکستان میں قتل کرنے کی سازش
کامنصوبہ تیار کیا گیا ہے،اور ان کے قتل کا منصوبہ 20 اور 25 فروری کے
درمیان مکمل کیا جائے گا،اور وہی ہوا جس کا امیر عزیمت ؒ نے خدشہ ظاہر کیا
تھا کہ 22 فروری مغرب کے بعد گھر کی دہلیز پر دہشت گردوں کو گولیوں کو
نشانہ بنے ، اس وقت آپ کی عمر 38 سال تھی۔مولانا حق نوازجھنگویؒ کی
مظلومانہ شہادت پر پورا عالم اسلام دکھی اور مضطرب تھا،اس افسوس ناک واقعے
کوہر کوئی اسلام اور اہل اسلام کا بہت بڑا نقصان قرار دے رہا تھا،موجودہ
وزیر اعظم اور اس دور کے وزیر اعلیٰ محترم نواز شریف صاحب نے آپ کے سفاکانہ
قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ،اور پسماندگان کے نام تعزیتی
پیغام میں کہا کہ مولانا اسلام کے اعلیٰ پائے کے مبلغ تھے،جنہوں نے اپنی
ساری زندگی تبلیغ اسلام اور ختم نبوت کے لیے وقف کر رکھی تھی،ان کی وفات
ملک میں اسلام قوتوں کے لیے عظیم نقصان ہے۔(روزنامہ جنگ،راولپنڈی 23فروری
1990)
جب کہ صدرمملکت غلام اسحاق خان اور بینظیر بھٹو سمیت دیگر قومی راہنماؤں نے
دکھ کا اظہار کیاتھا۔
بقول مفسر وخادم قرآن مولانا اسلم شیخوپوری شہیدؒ مولانا حق نوازجھنگوی
شہید ؒ نے مختصر زندگی میں تعلیمی و تدریسی ذمہ داریاں بھی نبھائیں ،سیاست
بھی کی،آمریت کو بھی للکارا،جمہوریت کی جنگ بھی لڑی،الیکشن میں بھی حصہ
لیا،مرحلہ دار ورسن سے بھی گزرے،جیلوں کو بھی آباد کیا،ہزاروں اجتماعات سے
بھی خطاب کیا،لاکھوں انسانوں کے دلوں میں اسلام کی حقانیت ،رسول اللہ کی
محبت اور صحابہ کی عظمت کو بٹھایا ،منظم جماعت سپاہ صحابہ کو ملکی سطح ہر
مقبول عام کیا۔۔۔۔یہ سب کام جھٹ پٹ انجام دے کر ۔۔۔۔شہادت کا تاج پہن کر۔۔۔۔ہماری
آنکھوں سے اوجھل ہوگے۔ |
|