اداکا ر حبیب مرحوم
(Munir Bin Bashir, Karachi)
فلمی دنیا میں زندگی اور جوانی بسر کر نے کے باوجود فلمی عادات و خرافات سے پاک رہے اور خاندانی شرافت زندہ رہی - عملی زندگی میں ایک کامیاب شفیق باپ تھے |
|
|
اداکار حبیب مرحوم اب جبکہ اپنے خالق حقیقی
سے جا ملے ہیں ‘ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ عام اداکاروں سے ہٹ کر تھے---
اداکاری کے لحاظ سے بھی اور عام زندگی میں اپنے رہنے کے اطوار سے بھی - اس
کی بنیادی وجہ انکی تعلیم اور گھریلو تربیت تھی - وہ 1934 کو لدھیا نہ میں
پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اینگلو عربک اسکول دہلی سے حاصل کی - اس کے
بعد علی گڑھ یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان 1947 میں پاس کیا - قیام پاکستان
کے بعد نومبر میں پاکستان آگئے -
اس ابتدائی تعلیم نے ان کے اندر مزید تعلیم کا شوق پیدا کر دیا تھا -
چنانچہ فلمی زندگی کے دوران ہی انہوں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا - بعد
ازاں مزید دو ایم اے بھی کئے - اس طرح سے وہ تین ایم کی ڈگریاں (اردو-
انگریزی - فارسی ) رکھتے تھے - علی گڑھ کی تعلیم کا اتنا اثر ہوا تھا کہ جب
بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے کسی فارغ التحصیل فرد سے ملاقات ہوتی تو حفظ
مراتب ‘ یعنی سینئر ۔ جونئیر کے ادب آداب کا بہت خیال رکھتے تھے -
ہجرت کے بعد ابتدائی ایام مالی لحاظ سے نہایت دشواری کے عالم میں گزرے تھے
- انہوں نے اپنا خرچ چلانے کے لئے شارٹ ہینڈ کی تربیت بھی حاصل کی -
ان کی فلمی زندگی میں آنے کا واقعہ بھی نہایت دلچسپ ہے - 1956 کی بات ہے وہ
بی اے فائنل کے طالب علم تھے - وہ اپنے کسی دوست کے ہمراہ اسٹوڈیو سیر کرنے
گئے تھے- وہاں فلم “لخت جگر “ کے ہدائت کار لقمان موجود تھے - وہ فلم کے
ایک اداکار کے انتقال کے سبب پریشان تھے - وہ کسی مناسب اداکار کی تلاش میں
تھے اور مختلف افراد اس مقصد کے لئے انٹرویو دینے آئے ہوئے تھے لیکن ہدایت
کار لقمان کی نظر میں کوئی بھی نہیں جچ رہا تھا - ہدایت کار کی نظر حبیب پر
پڑی تو انہیں حبیب کے اندرنہ جانے کیا بات نظر آئی انہوں نے انہیں زور دیا
کہ وہ بھی انٹرویو دیں - حبیب مرحوم نے اس بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا -
اس سے قبل نہ کبھی اسکول کالج میں کسی ڈرامے میں حصہ لیا تھا - جب کہ وہاں
جو افراد انٹرویو دے رہے تھے ان کا کسی نہ کسی لحاظ سے ڈ راموں سے تعلق تھا
- ہدایت کار لقمان کے بہت زیادہ اصرار پر وہ بھی انٹرویو میں پیش ہوئے -
ایک جوہری نگینے کو ‘ چاہے نگینہ کسی بھی حال میں ہو پہچان لیتا ہے - سو
یہی صورت حال یہاں کی بھی تھی - حبیب منتخب ہو گئے اور یوں حبیب نے فلمی
دنیا میں قدم رکھا - پہلی فلم یہی “لخت جگر “ تھی -
ان کی ابتدائی فلموں میں “آدمی“ اور “زہر عشق“ بھی تھیں - دونون اپنی جگہ
ایک مقام رکھتی تھیں - فلم“آدمی“ کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا - لیکن حبیب
مرحوم سمجھتے تھے کہ “زہر عشق“ میں ان کا م کافی مشکل اور پیچیدہ نوعیت کا
تھا -
1960 میں ایک فلمی رسالے “ایسٹرن فلم “ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ
فلم میں اداکاری نہ صرف اب ان کا شوق بن چکا ہے بلکہ اب روزی کا ذریعہ بھی
ہے - اس لئے وہ اپنی اداکاری میں حقیقی رنگ دینے کی پوری سعی کرتے ہیں -
1960 میں کہی گئی بات کو انہوں نے تمام عمر نبھا یا اور اداکاری کے معیار ر
کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا - نوجوان نسل جو
کیرئر اور ملازمت کے بارے میں پوچھتی رہتی کہ کامیابی کے زینے کیسے چڑھ
سکتے ہیں کے لئے ایک درس چھوڑ گئے - وہ کہا کرتے تھے کہ ایک پرعزم آدمی
شکست نہیں قبول کر سکتا - “ایسٹرن فلم“ کے ایک انٹرویو میں اس بات کی تلقین
کرتے ہوئے وہ اسلام کے ایک عظیم فرزند‘ شیر میسور ٹیپو سلطان کی مثال دیتے
ہیں -
یہ تعلیم اور والدین کی تربیت کا اثر ہی تھا کہ وہ فلمی دنیا کے غلط کاموں
سے ہمیشہ دور رہے - ایک فلم “آخری داؤ“ میں انہیں ایک شرابی آدمی کا کردار
کرنا پڑا- لوگوں نے مشورہ دیا کہ معمولی سی شراب پی کر اداکاری کرو تو
اداکاری کو ایک حقیقت کا روپ مل جائے گا اور اس میں نکھار آجائے گا - -
لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا - اس کردار کو ادا کرنے کے لئے بہت زیادہ
مشق اور مشقت کرنی پڑی - لیکن انہوں نے یہ محنت کر نا قبول کر لیا -
جب انہوں نے اداکارہ نغمہ سے شادی کی تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا تھا “ ا
للہ کرے یہ شادی کامیاب رہے “ میں اداکار حبیب کے زندگی کے اطوار سے آگاہی
رکھتا تھا - ان کے ذہنی رجحان اور نغمہ کے ذہنی رجحان میں کافی فرق تھا -
یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی - لیکن علٰحیدگی باوقار طریقے سے ہوئی - اس کے
بعد انہوں نے ایک گھریلو خاتون سے شادی کی اور آخر تک کامیاب زندگی گزاری -
بچے ان سے محبت کرتے تھے کہ عملی زندگی میں با پ کے روپ میں ایک نہایت ہی
شفیق انسان تھے - ایک مرتبہ “جیو“ ٹی وی کے سہیل وڑائچ نے ان کے ساتھ ایک
پروگرام “ایکدن جیو کے ساتھ“ کیا تھا - اس میں سہیل وڑائچ نے چبھتے ہوئے
سوالات بھی کئے لیکن وہ خوشدلی سے مسکراتے ہوئے جواب دیتے رہے - اور یہی
انکی طبیعت کا خاصہ تھا - وہ ایک تین سو گز کے گھر میں رہ رہے تھے - اس
بارے میں سوال کیا کہ “آپ نے کتنا کمایا - اور اب تین سو گز کے گھر میں رہ
رہے ہیں - کیا صدمہ نہیں ہوتا “ اداکار حبیب نے کہا کہ “اتار چڑھاؤ زندگی
کا حصہ ہیں “
انہیں دوسرا نگار ایوارڈ فلم “ثریا“ میں دیا گیا - ان کی دوسری قابل ذکر
فلمیں سپیرن‘ اولاد ‘ ایاز ‘ مہتاب ‘ مان کے آنسو ‘ خاندان ‘ آشیانہ ‘ ہیں
- وہ اپنی پنجابی فلموں کے سبب بھی کبھی لوگوں کے دلوں سے نہیں اتر سکیں گے
- یار مار ‘ دل دا جانی‘ بابل دا ویہڑہ ‘ دنیا پیسے دی ‘ چن مکھناں ‘ سجن
بے پرواہ ‘ ٹیکسی ڈرائیور ‘ جی دار ‘ات خدا دا ویر فلموں کا نام سنتے ہی
اداکار حبیب کی اداکاری یاد آتی ہے - اس کے علاوہ انہوں نے پشتو اور سندھی
فلمییں بھی بنائیں - حکومت نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں
تمغہ حسن کا ر کردگی سے نوازا - انہوں نے 218 فلموں میں اپنی اداکاری کے
جوہر دکھائے -
مشہور کالم نگار عبدالقادر حسن ‘ ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل ‘ اپنے کالم
مطبوعہ 18 فروری 2016 میں لکھا “ فلمی دنیا میں زندگی اور جوانی بسر کر نے
کے باوجود فلمی عادات و خرافات سے پاک رہا -- اور خاندانی شرافت زندہ رہی -
--مجھے ایسے لوگ کم ہی ملے“
اور یہی میرا بھی کہنا ہے ان کی فلمی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں بنا --
عملی زندگی میں ایک کامیاب شفیق باپ تھے -- فلمی دنیا کی خرابات سے پاک رہے
آئیے ان کی مغفرت کے لئے دعا کریں کہ اللہ ان کی لغزشوں کو در گزر کر اور
انہیں اپنے یہاں اعلیٰ مقام عطا کر -آمین --یا رب العالمین - |
|