امید کی آخری کرن

اگر دیانتدارانہ طور پر دیکھا جائے تو ملک پاکستان میں جمہوریت جمہوریت کرتی کسی پارٹی کے اندر اس وقت اگر خالصتاً جمہوریت کہیں موجود ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس کے بعد کسی حد تک ایم کیو ایم اور اب تحریک انصاف بھی ان کے نقش قدم پر رواں دواں ہے،جماعت اسلامی خالص جمہوری قدریں اور سچے کھرے لوگ رکھنے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں گھر کیوں نہیں کر سکی اور نہ آئندہ کوئی ایسی امید ہے وجہ کیا ہے اس موضوع پر پھر کسی مناسب وقت پر رائے زنی کروں گا رہی ایم کیو ایم تو اس کی قیادت کو چھوڑ کر باقی عہدوں کے لیے باقاعدہ لوگوں سے رائے لی جاتی ہے تاہم اس کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے یا کم از کم تھا ضرور کہ اس پارٹی میں آنے کے راستے تو ہیں مگر واپس جانے کا کوئی نہیں اور جو بھی پارٹی یا قیادت سے بغاوت کرے اگلی جماعت عالم بالا میں جا کر جائن کرتا ہے یہ میری رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے اور اس سے اختلاف بھی ممکن ہے، آج میرا مو ضوع پاکستان تحریک انصاف کے آمدہ انٹرا پارٹی الیکشن اور اس پارٹی سے وابستہ پاکستانی قوم کی امیدیں ہیں،بیس پچیس سال پہلے جب عمران خان نے نہ نہ کرتے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو اس وقت ملک کی دو بڑی جماعتیں ملک کے افق پر مکمل طور پر چھائی ہوئی تھیں ،اس وقت عمران خان کا انداز بھی غیر سنجیدہ اور کسی حد تک بچگانہ تھا ،کسی کو بھی نہیں لگتا تھا کہ یہ جماعت کبھی ملک کے ایوانوں میں کوئی خاطر خواہ ہلچل پیدا کر سکے گی،عمران خان نے کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر اپنی جد جہد جاری رکھی،کبھی اسمبلی میں فقط ایک سیٹ ملی تو کبھی مکمل جھنڈی ،پھر قدرت کو شاید عمران پہ رحم آیا یا پیپلز پارٹی پر غصہ کہ بے نظیر اٹھا کر پارٹی کے سر پر زرداری رکھ دیا،اسی دن سے پیپلز پارٹی کے اصلی کارکنوں کو کھٹکا لگ گیا تھا کہ اب ہماری پارٹی دنو ں کی مہمان ہے،پھر وہ جماعت جو چاروں صوبوں کے درمیان زنجیر سمجھی جاتی تھی سکڑتے سمٹتے ایک علاقائی سطح تک محدود ہو کر رہ گئی،پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں جناب زرداری نے اس جماعت کو اس سطح تک پہنچا دیا جسے شاید کوئی دشمن اس کے نصف تک بھی نہ پہنچا سکتا،پھر لوگوں نے پیپلز پارٹی سے اکتا کر اقتدا ر کا ہما میاں برادران کے سر پر بٹھا دیا کہ شاید آٹھ دس سالہ جلا وطنی ک بعد یہ لوگ بدل گئے ہوں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مدتوں سرور محل اور انگلینڈ بد ر ی نے میاں برادران کا کچھ بھی نہیں بگاڑا اور یہ آج بھی اسی فطرت پہ قائم ہیں ،ضد انا ہٹ دھرمی جس کا دوسرا نام ہے ،ان کو دیکھ کہ اﷲ کے آخری رسول ہادی برحق ﷺ کی بات شدت سے یاد آتی ہے کہ احد پہاڑ تو اپنی جگہ سے ہٹ سکتا ہے مگر فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی،کسی نے اس قو ل کی عملی شکل دیکھنی ہو تو میاں برادران کو دیکھ لے،دعوے اورنعرے تو پاکستان بدلنے اور عام لوگوں کی حالت بدلنے کے تھے،مگر جس مجبوری سے بلدیاتی انتخابات کروائے اور اب آگے جو کچھ یہ ان منتخب نمائندوں کے ساتھ کر رہے ہیں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،آج حکومت سیالکوٹ،گوجروانوالہ فیصل آبا د اور رائے ونڈ تک محدود ہو چکی ہے،خاندان کا ہر چھوٹا بڑا کسی نہ کسی اہم عہدے پر براجمان ہے، ان چار شہروں کے علاوہ کوئی نہیں جو میاں برادران کے سامنے آنکھ اونچی کر سکے ہاں ایک چوہدری نثار لوہے کا چنا ضرور ہے جسے دیکھیے کب تک برداشت کیا جاتا ہے، دن رات سارا زور کرپشن لوٹ مار کے ساتھ قرضوں پر ہے،کسی کو پرواہ نہیں کہ یہ ادا کیسے ہوں گے کب ہوں گے کون کرے گا،عوام حیران و پریشان ہے کہ جسے نجات دہندہ اور مسیحا سمجھ کے سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں وہی ڈکیت نکلتا ہے،اوراصل ظلم تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ اپوزیشن بھی اس سارے کھیل میں شامل ہے اور خاموش تماشائی ہے،وہ بھی شاید اسی فارمولے پر عمل پیرا ہے کہ ہم نے تمھیں نہیں چھیڑ ا اب تمھا را ہمیں چھیڑنا بنتا نہیں کل پھر جب ہماری باری آئے گی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے جو آج آپ ہمارے ساتھ کریں گے یا کر رہے ہیں،مگر اب باریاں لینے والوں کو شاید اندازہ نہیں کہ یہ 90کی دہائی نہیں 2016ہے،آج حالات واقعات تبدل ہو چکے ہیں ملک بدل چکا ہے لوگ بدل چکے ہیں،اب مزید اپنا استحصال برداشت کرنے کو تیا ر نہیں ہیں،خیبر پختون خواہ کے لوگوں نے عمران کو ووٹ دیا باقی ملک نے چپ کر کے دیکھا کہ خان کیا کرتا ہے کیا تبدیلی آتی ہے ،پہلے پہل پی ٹی آئی کے لوگوں کو شیخ رشید اور چند دیگر اور نمونوں کی وجہ سے عموماً دفاعی پوزیشن پہ جانا پڑتا تھا مگر آج حالات یکسر مختلف ہیں ،اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو اس وقت ملک کے جس حصے میں کرپشن سب سے کم ہے وہ علاقہ کے پی کے ہی ہے،یہ واحد صوبہ ہے جہاں ایک ٹریفک وارڈن کو مجسٹریٹ جتنے اختیارات دیے گئے ہیں ،پہلی دفعہ یہ بھی دیکھا گیا کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر چالان ہورہے ہیں،پولیس کا رویہ عوام سے بہت حد تک دوستانہ اور نرم ہو گیا،انرجی کرائسسز پہ بھرپور ورک کیا گیا اور امید ہے کہ صوبہ بہت جلد اس بحران سے نہ صرف نکل جائے گا بلکہ وفاق کی بندشوں سے بھی آزاد ہو جائے گا،حالانکہ کہ یہ سب سے مشکل صوبہ اور علاقہ تھا ،آج کے پی کے لوگ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ مطمئن اور محفوظ محسوس کر رہے ہیں حکومت میں زیادہ تعداد ان ایم پی ایز کی ہے جن کا تعلق عام افراد سے ہے،کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں بھی ہیں جن سے صرف نظر ممکن نہیں اور پارٹی کے بڑوں کو جس پر سر جوڑنے کی ضرورت ہے،اب انٹراپارٹی الیکشن کا مرحلہ جس انداز سے نپٹانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ انتہائی جدید اور شفاف ہے ،سائنس و ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور اس کو رکنیت سازی کے لیے جس طرح پی ٹی آئی نے استعمال کرنا شروع کیا ہے یہ باقیوں کے لیے بھی باعث تقلید ہے اور اگرالیکشن کمیشن بھی اس پر غورکرے اور اسے سنجیدگی سے لے تو نہ صرف قوم کے اربوں روپے بچ سکتے ہیں بلکہ الیکشن بھی صاف شفاف اور جلد ہو سکتے ہیں رزلٹ میں بھی کسی بھی قسم کا ردو بدل ممکن نہیں ہو سکے گا سب سے بڑی بات یہ کہ کسی بھی الیکشن کے لیے الگ سے میلہ سجانے کی ضرورت نہیں پڑے گی قوم کا بھی بھلا ہوگا اور ملک کا بھی،تاہم پی ٹی آئی کے بڑوں سے گذارش ہے کہ عموماً لوگوں نے اپنے اپنے موبائل پر پیکجز کرا رکھے ہیں اور ان کے پاس بیلنس نہیں ہوتا جس سے مسیج کرنے میں لوگوں کو دشواری کا سامنا ہے یہ میسج جو دو تین روپے کا ہے اس کے لیے کم لوگ ہی پچاس روپے کا بیلنس ڈلوانے کی زحمت کرتے ہیں، کہ ایزی لوڈ ولے دکاندار پچاس سے کم بیلنس لوڈ نہیں کرتے، یہ میسج یا تو فری ہو اور اگر ایسا ممکن نہیں تو یہ چارجز پارٹی ادا کرے، تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شمولیت اختیار کریں،اگر پارٹی یہ بار نہیں اٹھاتی تو پارٹی کے مخیر حضرات بھی ایزی لوڈ کی سم لے کر یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں،ملک کا ہر دوسرا شہری نہ صرف موجودہ سیٹ اپ اور نظام سے تنگ ہے بلکہ تبدیلی اور جلد تبدیلی کا بھی خواہاں ہے،حالیہ بلدیاتی الیکشنز میں بہت سی جگہوں پر پارٹی نے اپنے امیدوار ہی کھڑے نہیں کیے اور نہ باقاعدہ لوگوں تک پارٹی کانمائندہ پہنچ سکا ہے جس کی بڑی وجہ تنظیمی معاملات نا اہل زیادہ سخت لفظ ہے کم فہم افراد کے ہاتھ میں ہیں ،اب کے انٹرا پارٹی الیکشنز میں پرجوش اور ساٖ ف ستھرے لوگوں کو آگے آنا چاہیے جو معاملات کو احسن انداز سے آگے بڑھا سکیں ،ایک اور روشن پہلو یہ بھی ہے کہ جو شخص پارٹی کے اندر کوئی عہدہ رکھتا ہو گا وہ ایم این اے یا ایم پی اے نہیں بن سکے گا،پی ٹی آئی کے لیے اب پاکستان کی سرزمین انتہائی زرخیز ہو چکی ہے اب صرف اس پر ٹھیک ٹھیک انداز سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،فیس بک سے باہرنکل کر اصل کارکنوں کوگراؤنڈ پہ آنا پڑے گا،تنقید کا جواب گالیوں کی بجائے دلیل سے دینا ہوگا،میں نے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں کے وقت دو کالم لکھے ایک میں عمران میں تنقید کی دوسرے میں علامہ طاہر القادری پہ،آپ یقین کریں عمران پر تنقید کے نتیجے میں ری ایکشن یہ آیا کہ لگا کہ پی ٹی آئی کے فیس بکئے میری تکہ بوٹی بنا کر کھا جائیں گے دوسری طرف طاہر القادری پر تنقید اور شدید تنقید کے جواب میں ملک بھر سے صرف حیدرا ٓباد سے ایک شخص نے چند نا زیبا الفاظ لکھے جس پر باقاعدہ پارٹی کے اعلیٰ حکام نے مجھ سے معزرت کی اور ان صاحب سے اپنی لا تعلقی کا اظہا ر کیا،حالانکہ وہ اتنے بھی سخت الفاظ نہیں تھے ان صاحب کا بھی حق تھا جو انہوں نے کہا ہم جب دوسروں پہ تنقید کرتے ہیں تو خود بھی تنقید سہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں،پی ٹی آئی کے پاس اب یوتھ کا سب سے بڑا حصہ ہے،کبھی جماعت اسلامی کے پاس پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت ہر پارٹی سے زیادہ ہوتی تھی اب وہ وقت دور نہیں جب پی ٹی آئی اس صف میں سب سے آگے ہو گی،ضرورت کارکنوں کی تربیت کی ہے اگر صیح تربیت کر کے ان کی سمت صحیح کر دی جائے تو ملک کی کوئی بھی جماعت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی،اس کے علاوہ عام افراد جنہیں روزمرہ کے کاموں کے سلسلے میں پٹواری اور تھانیدار سے واسطہ پڑتا ہے ان کے اند ر احساس تحفظ پید اکیا جائے کہ وہ لاوارث نہیں ہیں پوری جماعت ان کے پیچھے ہے اس کے لیے انتظامی سطح پر کام کیا جائے اور معاشرے کے ہر فعال طبقے کے جماعت کے اندر الگ الگ فورم بنائے جائیں ،پارٹی کے اندر وکلا کا الگ فورم ہو ،صحافیوں کا الگ فورم ہو ،ٹیچرز کا الگ فورم ہو،کلرکو ں کا الگ فورم ہو،تاجروں کا الگ فورم ہو،الغرض ہر شخص کے لیے اپنے مسئلے کے حل کے لیے ایک فورم موجود ہو اور پارٹی قیادت چاہے مقامی ہو یا قومی ہر سطح پر اس کی بھرپور راہنمائی کرے،یہ جماعت اس وقت پاکستانی قوم کی آخری اور واحد امید ہے اگر اب کی بار بھی قوم سے ہاتھ ہو گیا یا یہ جماعت بھی پہلی جماعتوں جیسی نکلی تو پھر اﷲ کے نام پہ حاصل ہونے والے اس ملک کا اﷲ تو حافظ ہے ہی،مگر حالات کیا رخ اختیا ر کر جائیں یہ اسی اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا،،،،،،،،اﷲ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔