جے این یو کی آگ

یوں تو وطن عزیز میں دو نظریات کے حامی روز اول سے رہے ہیں ،گاندھی اور گوڈسے دونوں نظریات میں وقت بے وقت ایک دوسرے کے مخالف رحجانات ہمیشہ سے دیکھنے کو آتے رہے ہیں پر ان دنوں جو حالات بنے ہوئے ہیں وہ ہندوستانیوں کے لئے باعث تشویش ہیں ۔سیکولرزم اور کمیونلزم کی اس جنگ میں ملک پوری طرح پس رہا ہے ،ہندوستان چونکہ جمہوری ملک ہے اور ایک دوسرے کے نظریات اور اختلافات رائے کو کسی طرح غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا پر اگر ان اختلافات رائے کا نتیجہ تھپڑ ،گالیاں ،اور بلاوجہ کی گرفتاریاں ہو تو یقینن یہ کسی بھی جمہوری ملک کے لئے باعث تشویش ہوگا۔آج جو انگلیاں وطن عزیز کی راجدھانی میں سالوں سے اعلیٰ تعلیم کا مرکز رہے جے این یو کی جانب اٹھ رہی ہیں وہ یقینن تشویش کا سبب ہیں۔حالانکہ مجھے جے این یو میں پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا پر جامعہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے کئی ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ہوئی جو کسی نہ کسی طرح جے این یو سے جڑے ہوئے تھے ،کئی ایسے ٹیچروں سے ملنا ہوا جو نہایت ہی فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ,,ہم جے این یو کے پروڈکٹ ہیں ,,جے این یو کی تہذیب و ثقافت ہے ہی کچھ ایسی ، وہاں سے پی ایچ ڈی کررہے میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ آپ جب بھی جے این یوجائیں جن خیالات جس نظریات کے مالک ہوں آپ خود کو تنہا محسوس نہیں کرینگے کیونکہ وہاں ایک الگ کلچر ہے جہاں آپکی ملاقات مختلف خیالات ، منفرد ذہن ،سوچ اور نظریہ کے حامی لوگوں سے ہوجائیگی ،اور یہی خوبی جے این یو کو دوسرے تمام اداروں سے الگ کرتی ہے ۔بات اگر جے این یو کی کی جارہی ہے تو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ جے این یو میں مارکسسٹ اور کمیونسٹ نظریات کے حامیوں کی تعداد زیادہے پر اے بی وی پی (سنگھ کے خیالات )اور این ایس یو آئی (نیشنل کانگرس ) کے لوگوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ان تمام ذہنیت کے لوگوں کی موجودگی اس بات کا اشارہ ہے کہ جے این یو کا کلچر ڈیموکریٹک ہندوستان کی ہوبہو عکاسی کرتا ہے ۔اپنی تمام تر خوبیوں کی وجہ سے ہندوستان کے مختلف شہروں سے اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی کا رخ کرنے والوں کی پہلی پسند ہوتا ہے جے این یو۔

لیکن ان دنوں جس طرح کے حالات جے این یو کے اندر اور باہر دیکھنے کو مل رہے ہیں اس کی وجہ کر جے این یو میں تعلیم حاصل کررہے اور ایڈمیشن کا خواب دیکھ رہے بچوں کے والدین یقنن پریشان ہیں،جس طرح ایک چھوٹے سے واقعہ کو ہوا دے کر مشہورزمانہ یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اسے ایک سوچی سمجھی سازش کہا جاسکتا ہے ۔ایک ایسا مسئلہ جو کالج کی چہاردیواریوں میں ختم ہوجانا چاہے تھااس میں ملک کے وزیر داخلہ کا کودنا ان کی جلدبازی کا سیدھا ثبوت ہے ،مرکزی حکومت کے زیر سایہ آنے والی دلی پولیس نے جس طرح کی ایک طرفہ کاررٍوائیاں کی وہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مرکزی حکومت جے این یو جیسے بے باک کلچر پر سنگھ وادی نظریات کا قد غن لگانا چاہتی ہے ،بلاکسی تفتیش اور ثبوت کے کسی کو مجرم قرار دینا اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں چھوٹی موٹی چنگاریوں کو وطن پرستی اور غداری وطن سے جوڑ کر بآسانی شعلوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ،جس طرح ملک کی بڑی یونیورسٹیوں پر حملے ہورہے ہیں اس سے صاف لگتا ہے کہ مرکزی سرکار آر ایس ایس کے اجنڈے کے تحت تعلیمی اداروں کا بھگواکرن کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے ۔یہ ملک کے لئے سب سے خطرناک دور ہے طلبہ اساتذہ اور جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے میڈیا پر حملے ہوں،ہاتھوں میں ترنگا لیکر وندے ماترم کے نعرے بلند کرتے ہوئے فساد مچانے والوں کو وطن پرست اور ان کی باتوں سے انحراف کرنے والے ان کی ذہنیت سے مختلف ذہن رکھنے والوں کو جب غددار وطن کہا جانے لگے ،جب وطن پرستی کے سرٹیفکٹ بانٹے جانے لگے،جب اہل قلم اور اہل علم کو سڑکوں پر نعرے اور بینروں کے ساتھ دیکھا جانے لگے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ملک کی سا لمیت خطرے میں ہے ،یہ ہندوستان کا مزاج رہا ہے کہ یہاں ایک ساتھ بیٹھ کر لوگ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھتے ہوئے بھی ایک پلیٹ فارم پر ایک دوسرے سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں ،پر ان دنوں جو حالات ملک کے ہیں ہر وقت خدشہ بنا رہتا ہے کہ نہ جانے آپکی کون سی بات لوگوں کو بری لگ جائے نہ جانے کس جانب سے پتھر آجائیں ۔

موجودہ مرکزی سرکارجس طرح کے بلندبانگ نعرہ کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی اسکا دس فیصد بھی اس نے حقیقت میں کر کے نہیں دیکھایا اور اپنی اسی ناکامی کو چھپانے کے لئے بلاوجہ کے مدعے اٹھائے جارہے ہیں ،اور اس بار اسکا سیدھا نشانہ اعلیٰ تعلیمی مراکز ہیں ،حیدراآباد یونیورسٹی میں روہتویملا کی خودکشی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار پر اٹھتی انگلیاں اور اب جے این یو کے معاملے کو اس طرح کا سیاسی رنگ دینا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ مرکزی سرکارایک بار پھر اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کا کام ان اداروں کے کاندھو پر بندوق رکھ کر کریگی ،چونکہ ملک کی کچھ بڑی ریاستوں میں راجیہ سبھا کے الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے سیاسی پارٹیاں اپنی زمین تیار کرنے میں جٹ گئی ہیں،انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے ان کے اس سیاسی داؤ پیچ سے ملک کی ایک سینٹرل یونیورسٹی،اور وہاں تعلیم کا خواب سجائے بیٹھے طلبہ کا مستقبل کس قدر متاثر ہورہا ہے ۔

بہار کے وزیر اعلیٰ نیتیش کمار کی کہی گئی یہ بات کہ ,,مرکزی حکومت اس طرح کے جذباتی مسئلے اٹھا کر پورے ملک میں اس طرح کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے کہ بنیادی مسائل پس پشت ہوجائیں اور سب کی نظر ان جذباتی مسائل کی طرف چلی جائے,بلکل درست لگتی ہیں ۔

اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اسے سزا دی جائے پر اس کھیل میں پوری یونیورسٹی کو نہ لپیٹا جائے شٹ ڈاؤن جے این یو جیسے نعروں پر بھی احتجاج کیا جائے،کیونکہ مٹھی بھر آگ لگانے والے لوگ اس سیاسی رسہ کشی میں اپنا کام بآسانی پورا کررہے ہیں ،اور خسارہ تو صرف عوام کے حصے میں آنا ہے ،جے این یو کے اس مسئلے کا اثر سیدھے طور پر وہاں کے طلبہ کے کریئر پر پڑیگا،ان کی ذات سب سے زیادہ متاثر ہوگی پر اس کی فکر کون کرے تمام تر سیاسی رہنما اپنی سیاست چمکانے کے لئے جے این یو کو بلی کا بکرا بنارہے ہیں ۔
اگر جے این یو میں لگی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مثبت قدم نہ اٹھائے گئے تو اس نتائج یقینن خطرناک ہونگے ،اس لئے بہتر ہوگا کہ مرکزی سرکار اور اپوزیشن پارٹیاں اس معاملے کا سیاسی مفاد پسے پشت رکھ کر ملک کی بہتری کے لئے کوئی قدم اٹھائیں ۔

کسی ایک کوماسٹر مائنڈ قرار دینے کے بجائے معاملے کی غیرجانبدارانہ تفتیش کی جائے،دہلی پولیس کو بھی اس معاملے کی سنجیدگی کودیکھتے ہوئے اپنے قدم اٹھانے ہونگے ،فیصلہ کا حق عدالت کے پاس ہے میڈیا بلاثبوت کسی کو غدار وطن ثابت کر اپنی ٹی آر پی کے لئے اس آگ کو مزید تقویت نہ بخشے ۔جس طرح سے اس معاملے کو بلا سوچے سمجھے اتنا تول دیا گیا تو اب ضروری ہوجاتا ہے کہ یہ آگ ٹھنڈی ہونے کے لئے مثبت اقدام کئے جائیں ،نہ کہ بلاوجہ کی بیان بازی،تاکہ یہ آگ صرف جے این یو تک محدود رہے نہ کہ ملک کے تمام حصے اس کی گرفت میں آجائیں ۔
Misbah Fatma
About the Author: Misbah Fatma Read More Articles by Misbah Fatma: 14 Articles with 11264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.