واقعی ’اساں قیدی تخت لاہور دے‘

صوبہ پنجاب ہر لحاظ سے پاکستان کا بڑا صوبہ ہے اور ملکی سیاست کا تقریباًً ٹاتمام دارومدار پنجاب پر ہی رہتا ہے سابقہ ہونے والے الیکشن کا موازنہ کرلیا جائے یا پھر بیوروکریسی کی گیمز کا موازنہ کیا جائے تو سب کی کڑیاں پنجاب اور خصوصاًً لاہور سے جاملتی ہیں۔ پچھلی حکومتیں بھی لاہور کے سیاست دانوں کی مرہون منت رہیں مارشل لاء کے تمام ادوار بھی لاہور کی حمایت سے اپنی آب وتاب میں رہے۔اکھاڑ پچھاڑ اور منصوبہ بندی بھی اسی دل پنجاب لاہور میں ہوتی رہیں۔اس وقت بھی جب کسی بھی سیاستدان کو کسی سیاسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ لاہور کی جانب دوڑا چلا آتا ہے خیر اب حکومت ہی لوہاروں یا لاہوریوں کی ہے لیکن سابقہ ادوار سیاست بھی لاہور سے شروع اور اسلام آباد جا کے ختم ہوئے ہیں۔ بڑے سیاسی دھرنے بھی لاہور سے شروع ہوئے ہیں۔ یہ سمجھ لیجئے حکومت بنانے اور گرانے کا پورا انتظام پنجاب کے شہر لاہور میں ہی کیا جاتا ہے۔ نو کروڑ سے زائد آبادی کے اس صوبہ پنجاب کا دارلحکومت لاہور ہے اور پنجاب کے تمام سیاستدانوں کا دارلامان بھی لاہورہی ہے۔ ہر آنے والے دور میں لاہور کی ترقی کو ہی پورے پنجاب کی ترقی سمجھا گیا اور پورے پنجاب کی سیاست بھی لاہور شہر سے شروع اور ختم ہوئی۔ابھی نظردوڑائی جائے تو یہی نظرآتا ہے کہ موجودہ وفاقی وصوبائی حکومت جتنے بھی نام نہاد ترقیاتی کام کررہی ہے وہ صرف لاہور کی طرف ہیں اگر تھوڑی بہت گنجائش نکلتی ہے تو اپنے حصہ داروں کے ـ’’اپر پنجاب‘‘یا شمالی پنجاب کے لئے نکالی جاتی ہے۔صوبے کا باقی حصہ ابھی تک اسی پرانے دور کی غلامی میں نظرآتا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں اپنے ملتان شہر میں فلائی اوورز بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جس کا نتیجہ اسے الیکشن میں مل گیا۔اس وقت ملتان میں میاں شہباز شریف نے بھی اچھی خاصی سڑکوں کو اپنی ’سیاسی بصیرت‘ کے تحت توڑ کے اسے میٹرو بس جیسے مہنگے منصوبے کی نظر کردیا جس کی کوئی خاص ضرورت واہمیت نہیں ہے۔

حسب روایت اس بار بھی انتالیس ارب روپے کے جنوبی پنجاب کے فنڈ کو اپنے ’اورنج ٹرین‘ جسے یار دوست ’چھکڑاٹرین‘ کہتے ہیں میں شامل کردیا اور جنوبی پنجاب کو اگلے بجٹ تک اور اگلے کسی ایسے منصوبے کے حوالے کردیا۔جنوبی پنجاب کے لئے بجٹ اور فنڈ تو منظور ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں ایسے ناکارہ یا اضافی فنڈز کو پنجاب کے کسی ایسے ’ترقیاتی‘ کام میں شامل کردیا جاتا ہے۔یہ سلسلہ کئی ادوار سے بلکہ تخلیق پاکستان سے چلتا آرہا ہے اور جنوبی پنجاب کی محرومیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔سیاستدان بوقت انتخابات مختلف نعرے لگا کر غریب عوام سے ووٹ بٹور کر پانچ سال رفو چکر ہونے کے بعد پھر اگلے انتخابات میں نت نعروں اور جماعتوں مین شریک ہوکر آجاتے ہیں اور عوام ستر سالوں سے اسی کھیل میں بکریوں کی طرح ہانکی جارہی ہے۔جنوبی پنجاب کے کسی بھی علاقے کا رخ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی ’ترقیاتی کاموں کی ضرورت لاہور کو ہے‘۔

میرا اپنا تعلق پنجاب بلکہ جنوبی پنجاب کے ایسے ضلع سے ہے جو تاریخی حیثیت رکھنے کے علاوہ پسماندہ حیثیت رکھنے میں اپنا مقام رکھتا ہے جی اس ضلع کو ڈیرہ غازی خان کے نام سے جانتے ہیں۔اس ضلع میں رہنے والی زیادہ آبادی سرائیکی بلوچ قبائل سے تعلق رکھتی ہے۔تاریخی حیثیت یہ ہے کہ سردار فاروق احمد لغاری جو مملکت پاکستان کے صدر رہے اس کے علاوہ سردار ذوالفقار خان کھوسہ جو گورنر پنجاب رہے ہیں ان کے بیٹے دوست محمد کھوسہ کچھ عرصہ کے لئے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں کھوسہ قبیلہ سے ہی سردار لطیف خان کھوسہ سابق گورنر پنجاب بھی ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں۔موجودہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی بھی ڈیرہ ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ انکی زندگی کا زیادہ حصہ ڈیرہ شہر میں گزرا ہے ۔اس کے علاوہ ڈیرہ ڈویژن سے ہی سردار بلخ شیر مزاری سابق نگران وزیراعظم، پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے مظفر گڑھ کی مشہور سیاسی شخصیت غلام مصطفی کھر اور سابق وزیرخارجہ حناربانی کھر بھی ڈیرہ ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔جمشید دستی جن کا تعلق بھی مظفرگڑھ شہر سے ہے وہ بھی ڈیرہ کی سیاست میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اور شامل رہتے ہیں ۔اس وقت کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کا تعلق بھی برسر اقتدار پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہے۔ ڈیرہ ضلع کی سیاست اس وقت دو گروپوں میں تقسیم ہے ایک گروپ کو سردار جمال لغاری لیڈ کررہے ہیں اور دوسرے گروپ کو ایم این اے حافظ عبدالکریم لیڈ کررہے ہیں یہ دونوں گروپ مسلم لیگ نواز کا حصہ ہیں ۔ملتان سے ڈیرہ غازیخان کے لئے نکلیں تو سب سے پہلے سڑکیں ماتم کرتی نظرآئیں گی اور مقامی سیاستدانوں کو کوسیں گی۔مجھے یاد ہے کہ2014میں سردار جمال خان لغاری ممبر صوبائی اسمبلی نے ایک جوش وجذبہ سے اسمبلی میں ایک خوشامدی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میاں شہباز شریف صاحب نے وہ کام کردکھایا جو پہلے کبھی نہ ہوا کہ مظفرگڑھ شہر سے فورٹ منرو تک دورویہ سڑک کی منظوری دی اسی طرح شہر کے چاروں اطراف مزید سڑکیں بھی بنائی جائیں گی لیکن دوسال گزرنے کے بعد تاحال ایسا کوئی منصوبہ ابھی تک نظر نہیں آیا اور نہ ہی ایسی تقریر دوبارہ سننے کو ملی۔بتاتا چلوں کہ فورٹ منرو ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے اسے جنوبی پنجاب کا ’مری‘ بھی کہتے ہیں اور یہ مقام سلسلہ کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں دامن میں ہے اور انتہائی صحت افزا مقام ہے یہ تقریباًً پچاس ہزار کی قبائلی آبادی پر مشتمل ہے ۔لغاری سرداروں کی سرداری انہی قبائلیوں کی وجہ سے قائم ہے کیونکہ یہ قبائلی لوگ اتنے سادہ لوگ ہونے کے باوجود ہر الیکشن میں لغاری سرداروں کو اکثریتی ووٹ دے کر کامیاب کراتے ہیں اور اس علاقے کا ٹرن آوٹ ساٹھ فیصد سے زیادہ ہوتا ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے سرداروں کو’مائی باپ‘ کہنے والے یہ بیچارے ابھی تک زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔اس دور میں یہ لوگ بارش سے جمع شدہ تالاب کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔اس کے علاوہ ڈیرہ شہر کو دیا جانے والا میڈیکل کالج ابھی تک رجسٹرڈ نہیں ہوسکا،دی جانے والی یونیورسٹی ابھی تک نامکمل ہے۔اس کے علاوہ کئی اعلانات ابھی تک کاغذی شکل میں بھی تبدیل نہیں ہوسکے۔لاکھوں کی آبادی کے اس شہر میں گلیاں ٹوٹی ہوئی نظرآئیں گی، چاروں صوبوں کو ملانے والا انڈس ہائی وے روزانہ کئی انسانی جانوں کے نقصان کا باعث بنتا ہے دیہاتوں میں جانے والی سڑکیں اپنی محرومیاں خود بتاتی ہیں۔

یہ محرومیاں اس خطے کی مقدر نہیں ہیں مجبوریاں ہیں اور یہ مجبوریاں اپنے سیاسی نیتاؤں کی کرم نوازیاں ہونے کے ساتھ ساتھ تخت لاہور کے بادشاہوں کی وجہ سے ہیں۔جنوبی پنجاب کے لوگ اگر ’تخت لہور‘ سے نفرت کرتے ہیں یا اپنے صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں یہ کوئی لسانی تعصب نہیں بلکہ یہ وہ محرومیاں ہیں جن کا بہت ہی مختصر ذکر کیا ہے۔ہر بار الیکشن میں جھوٹے دعوے اور وعدے دے کر ان لوگوں کی سادہ مزاجی کا مذاق بنایا جاتا ہے۔جس کی نفرت ہرروز بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان میں لگنے والی لسانی آگ کا کچھ اثر جنوبی پنجاب میں بھی پایا گیا ہے یہ نہ ہو کہ انہی محرمیوں کو اگر تسلسل دیاجاتا رہا تو یہ علیحدگی کے نعرے کوئی اور رخ نہ اختیار کرلیں۔تخت لہور پر براجمان شہنشاہوں کو سوچنا ہوگا کہ پنجاب صرف لاہور تک محدود نہیں ہے ۔اگر ان علاقوں کے ممبران پارلیمنٹ اپنی قوم کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تو جناب والا آپ بھی ارباب اختیار ہیں آپ کا بھی فرض ہے کہ آپ ان سادہ لوح سادہ مزاج لوگوں کا خیال کرلیں ورنہ ’تخت لہور‘ کے خلاف بڑھنے والی نفرت کبھی بھی لاوا اگل سکتی ہے۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.