بلدیاتی نمائندے انصاف کیلئے دربدر
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
ویسے تو ہمارے سیاستدان اور حکمران جمہوریت
کادرس دینے اور جمہوریت کی افادیت بیان کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دیتے لیکن جب بات عملی طور پر آجاتی ہے تو ان نام نہاد جمہوریت کادرس
دینے والوں کی نہ تو اپنی پارٹیوں میں جمہوریت نظر آتی ہے اور نہ ہی ان کی
طرز حکمرانی میں ہمیں جمہوریت محسوس ہوتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے
یہ نام نہاد جمہوری نمائندے تمام فیصلے ڈکٹیٹر کی طرح کرتے ہیں ،پارلیمنٹ
کا کردار بھی برائے نام ہے۔جمہوریت کا بنیاد بلدیاتی نظام سے ہی شروع ہوتا
ہے لیکن ہماری تاریخ گواہ ہے کہ بلدیاتی نظام کسی بھی جمہوری حکومت میں
مضبوط ہونا تو درکنار ہمارے جمہوری حکمران بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے
بھی تیار نہیں ہوتے اب جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر ملک بھر میں بلدیاتی
انتخابات مکمل ہوچکے ہیں لیکن ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں ۔ پنجاب ،سندھ
اور بلوچستان میں تو قانونی طور پر ان بلدیاتی نمائندوں کو بے اختیار بنایا
گیا ہے جو اختیارات پرویز مشرف نے دیے تھے ان کو بھی ختم کیا گیا ، اربوں
روپے خرچ کرنے اور کئی جانیں ضائع ہونے کے باوجودبلدیاتی نمائندے بے اختیار
بیٹھے ہیں جوکام ان کو کرنے چاہیے تھے وہ کام ہمارے قانون سازی کرنے کیلئے
منتخب اسمبلی کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں گلی محلے کے نالوں کی صفائی اور پانی
کے نلکے لگوانے کو جمہوری سیاست کہا جاتا ہے۔ پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں
تو ان بلدیاتی نمائندوں کو قانونی طور پر بے اختیار بنایا گیا ہے لیکن خیبر
پختونخوا میں پرویز خٹک کی سیاست نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ پرویز خٹک اور
تحریک انصاف کی حکومت نے تو قانونی طور پران کے پر نہیں کاٹے لیکن منتخب
ہونے کے بعد آج دس ماہ گزرنے کے باوجود بلدیاتی نمائندے اپنے حقوق اور
اختیارات کو حاصل کرنے اور انصاف کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔
آج صوبے میں پیپلزپارٹی،عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ اور جمعیت علما اسلام
کے بلدیاتی نمائندے اپنی جگہ اختیارات اور فنڈز کا رونا روتے ہیں لیکن ان
سب سے بڑھ کر خود تحریک انصاف کے نمائندے بھی اپنے اختیارات کے حصول کے لئے
احتجاج اور دھرنے دے رہے ہیں گزشتہ روز اسلام آباد میں اپنے حقوق کے لئے
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نمائندوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے
گھر کے سامنے احتجاج کیا اور گھر جانے والے راستے کو بلا ک کر دیا ۔ میرے
خیال میں یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جمہوریت جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں پر
ہمارا نظام بالکل کمزور اور بے اختیار ہے۔ جہاں سے سیاست شروع ہوتی ہے اور
عوام کے بنیادی مسائل حل ہوتے ہیں وہاں پر آج جمہوری دور میں ہمیں چوبیس
گھنٹے جمہوریت کادرس دینے والے ان لوگوں کو اختیارات دینے اور اس نظام کو
مضبوط بنانے کیلئے تیار نہیں ۔ خیبر پختونخوا حکومت اور خود عمران خان نے
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کو مضبوط بنانے اور تمام اختیارات ان
کو دینے کے لئے کئی مرتبہ ذکر کیا ہے کہ ہم نے حقیقی معنوں میں اختیارات
بلدیاتی نمائندوں کو دیا ہے ۔ اب گاؤں ،دیہات سمیت شہروں میں بھی عوام کو
اپنے وزیروں کے دفتر کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے بلکہ ان کے کام محلے ہی میں
کیے جائیں گے۔ترقیاتی فنڈز کا تیس فی صد حصہ بلدیاتی نمائندوں کو دیا جائے
گا جس سے روزمرہ کے کام کیے جائیں گے لیکن اب معلوم ہوا کہ یہ باتیں صرف
ہوا میں تھیں ، وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایک دفعہ پھر عمران خان کو ماموں
بنا یا اور جو ترقیاتی فنڈز کے نام پر پیسے دیے جائیں گے ان میں 80فی صد
رقم صرف تنخواہیں اور دفتروں کے روزمرہ اخراجات پر خرچ ہوں گے باقی 20فی صد
رقم سے بلدیاتی نمائندے عوام کو بنیادی سہولت دیں گے اور یہ رقم بھی
بلدیاتی نمائندے براہ راست خرچ نہیں کریں گے بلکہ وہ سرکاری بابوں کے ذریعے
سے خرچ کی جائے گی جس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے کہ ہمارے گاؤں میں یونین
کونسل کو تیس لاکھ روپے ملے جو دس لوگوں پر تقسیم ہوئے کہ ان سے اپنے اپنے
محلوں میں پانی کابور یعنی کنواں غریب گھرانوں سے شروع کیے جائیں جس پر
زیادہ سے زیادہ خرچہ 70سے 80ہزار روپے آتا ہے لیکن پرویز خٹک کی سرکاری ٹیم
کو خوش کرنے کے لئے یہ رقم بابوخرچ کر یں جس کے لئے انہوں نے ایک کنواں
کیلئے دو لاکھ روپے رکھے ہیں یعنی خرچہ ڈبل سے بھی زیادہ کردیا ہے اسی طرح
یہ رقم پھر کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے لیکن یہ کرپشن حلال اور صاف ستھری ہے۔
ایک تو اس نام نہاد بلدیاتی نظام میں کونسلروں کا بارات بنایا گیا جو
بیچارے اب ایک دوسرے کو صرف دیکھ رہے ہیں جو ڈسٹرکٹ اور تحصیل ناظم ہے ان
کے پاس بھی کوئی ایسے فنڈز نہیں جس سے وہ علاقے کے کام کر سکیں۔ ہسپتالوں
اور اسکولوں کے نظام کو بہتر بنانے کی جو امیدیں تھیں کہ بلدیاتی نمائندے
ان کو چیک کریں گے ۔ میرٹ کو بہتر بنانے کے لئے بلدیاتی نمائندے چھاپے
ماریں گے تو یہ سب کچھ صرف خواب ہی رہ گیا ہے۔ حقیقت میں اختیارات آج بھی
سرکاری عہدیداروں کے پاس ہے۔ زلزے کے موقع پر بھی ان بلدیاتی نمائندوں کے
پاس کوئی کام یا نظام نہیں تھا جن سے امداد یا سرکاری کام ان کے کے ذریعے
کیے جاتے اب بھی حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں، ان میں صرف وہ لوگ یا نمائندے
کامیاب ہیں جو وزیراعلیٰ ،کسی وزیر مشیریا ایم پی اے کے بھائی اور رشتہ دار
ہیں باقی کا اﷲ ہی حافظ ۔ جب تک ان بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نہیں ملتے
اس وقت تک یہ پورا نظام عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔عوام کا جمہوریت
اور اس نام نہاد نظام سے اعتبار اٹھتا جائے گا۔
وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں بنیادی کام تو ان نمائندوں سے نہیں لیتیں
لیکن کم ازکم اب ملک پر رحم کرکے مردم شماری ان بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے
بہت آسانی کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ ہر بلدیا تی نمائندے اپنے محلے اور
یونین کونسل میں مردم شماری کریں جس پر خرچ بھی نہیں آئے گا اور سکیورٹی کے
مسائل بھی درپیش نہیں ہوں گے حکومت کی جانب سے صرف ان کو فارمز مہیا کئے
جائے باقی عوام خود بھی اپنے کوائف لکھ سکتے ہیں اور بلدیاتی نمائندے بھی
آسانی سے یہ کام کر سکتے ہیں تا کہ ان نمائندوں پر اربوں روپے خرچ ہونے کے
کچھ فوائد تومل جائیں اور تاریخ میں ان کانام آجائے۔ |
|