کیسے بدلیں گے ہم اپنے دیش کو

کیسے بدلیں گے ہم اپنے دیش کو کہتے ہیں کہ اندھیرا قائم رہے
26مئی2014ء کی بات ہے جب کانگرس پارٹی چناؤ ہار گئی تھی اور زعفران پارٹی نے ایک دہائی کے بعد بھاری اکثریت کے ساتھ سرکار بنانے کی قواعد شروع کی تھی اور جناب نریندر مودی نے بھارت کے وزیراعظم کے طورر حلف نامہ اٹھایا اورپارلیمنٹ میں داخل ہونے سے قبل آپ سب نے دیکھا ہی ہوگا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کا ماتھا ٹیک کر پارلیمنٹ کو عوامی مندر قرار دیتے ہوئے قومی خدمات بخوبی سے انجام دینے کاعہد لیا۔ اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت کی جامع خارجہ پالیسی کو نئی شکل دینے کا فیصلہ لیا تاکہ غیرممالک کے ساتھ آپسی وباہمی رشتے بہت ہی بہتر ومضبوط ہوسکیں۔ حالانکہ اس وقت ملک کی اقتصادی صورتحال کافی نازک دور سے گزر رہی تھی اوروزیراعظم نریندر مودی کے سامنے کئی چلینجوں کا سامنا تو ضرور تھا پھر بھی انہوں نے سب سے پہلے بھارت کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کو اپنا اولین فرض مناسب سمجھا ۔ اپنے لئے گئے فیصلہ پرعمل پیرا کی شروعات کرتے ہوئے انہوں نے تمام ترقی یافتہ اورترقی پذیر ممالک کا دورہ کیا۔ آخرکار ان کی محنت رنگ لائی ملک کی عکس بندی ہوئی ۔ دنیا بھر کے لوگوں میں ہمارے ملک کے تئیں مثبت سوچ وسمجھ کا احساس پیدا ہونے لگا۔ چاروں اطراف بھارت دیش کی سراہنا کی جاتی رہی دنیا بھر سے کئی جانے مانے ہستیاں بھارت کا دورہ کرنے پر دلکش ہوئے ‘ سیاحت کا دور شروع ہونے لگا۔ گزشتہ دوبرسوں کے دوران کئی تواریخی معاہدے بھی نصیب ہوئے۔ حقیقی معنوں میں یہ کہنا مناسب ہے کہ شری نریندر مودی کی اگوائی میں بھارت نے دنیا بھرمیں اپنی الگ سی پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کی اور ملک کارتبہ بلند کیا۔ نریندر مودی کی خارجہ پالیسی فارمولہ کافی حد تک کامیاب نظر آنے لگی جو کہ سب کے سامنے صاف شیشے کی مانند عیاں ہے۔ آزاد بھارت کے بعد پہلی بار ایسا واقع سامنے میں آیا جب کسی وزیراعظم کی اگوائی میں بھارت کی پہچان پورے عالم میں کچھ خاص مقام بنانے کی حیثیت سے تصور کی جارہی ہے۔ اتناہی نہیں بلکہ اقتصادی صورتحال کے سبب ملک میں آئی بہتری کا بھی دعوی کیا جارہاہے۔ شاید آپ بھی اس بات کے ضمن میں واقف کار ہیں اورکسی سے اوجھل بھی نہیں ہے کہ کم عرصہ کے دوران ہی وزیراعظم ہند شری نریندر مودی تواریخ کے صف اول میں شامل ہوچکے ہیں جنہوں نے تواریخ میں اپنا نام راقم کی اورمشہوریت حاصل کی۔

یقینا اگر ہم بات کریں تو خوشحال بھارت و سوچ بھارت ابھیان کیلئے بھی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں میں جھاڑو اٹھایا۔ یہی خاص وجہ ہے شاید کہدنیا بھرمیں بھارت کی جے جے کاروں کی گونج آج سب کو سنائی دی جارہی ہے۔ اتنا سب کچھ جان کر بھی ہم دراصل کیوں انجان بن جاتے ہیں جس کی بدولت ہمیں شرمسار کاسامنا کرناپڑتاہے۔ حقیقتا مجھے اس وقت کافی دکھ اور افسوس ہوا جب ریزرویشن معاملے کو لیکر جاٹ برادری نے ملک کے کئی ریاستوں میں قہرام برپا دیا اپنا احتجاج رجسٹرڈکرانے کے بجائے ہلہ بول دیا قانون کی سرعام دھجیاں اڑادی ۔عام لوگوں کی کمائی پر شب خون مار دیا۔دن دہاڑے لوٹ کھسوٹ کیاگیا۔ آگ زنی کی وارداتوں کو انجام دیا گیا۔کروڑوں روپے کی قومی املاک کو آگ کے حوالے کردیا اور اپنی بدنما و بد نظمی خلصت و چال چلن کا جان بوجھ کر مظاہرہ کیا جس سے ہماری اعتمادگی پر سوالیہ نشان لگ گیا اورپھر دنیا بھرمیں چرچا ہوئی۔ ایک طرف جوانہرلعل یونیورسٹی کا مدعا بھی چھایا رہا ۔ملک کے خلاف سرعام نعرے بازی کی گئی تعلیمی ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسری طرف شہر سرینگر کے پانپور علاقے میں اسی روز ملی ٹینٹوں کا تشددانہ کارروائیمیں وطن پر مرمٹنے والے فوجی جوان شہید ہوئے اوربیش بہا قیمتیں تلف ہوئیں۔

دکھ سے کہنا پڑ رہاہے کہ ملک بھرمیں معمولی بات کا انکشاف ہوتے ہی سیاست دان اپنی ٹانگ اڑادیتے ہیں اوراپنی مکاری بھاشا کی بول سنادیتے ہیں کیو نکہ وہ اپنی ہربات کو اظہار رائے کی آزادی سمجھ کر کچھ بھی بول دیتے ہیں چاہئے ان کی بول غیر سنجیدہ کیوں نہ ہو۔ان کی یہ روایت صدیوں سے مسلسل ہے۔ اپنی سیاست کاری کو چمکانے کیلئے وہ ملک کے تمام تر مفاد داؤں پر لگانے سے گریز نہیں کردیتے ہیں۔صداقت سے کوسوں دور اپنی من مرضی سے اکثر بھاشا کااستعمال کردیتے ہیں جس سے ملک کی عکس بندی متاثر ہوتی ہے۔ اب ملک کی عوام بھی سیاستدانوں کے جھوٹے بیانوں سے تنگ آچکی ہے اوران پرکوئی یقین نہیں کرتا باوجود اس کے ان پر کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔کبھی کبھار ان کے زبانوں سے ایک بیان سننے کو ملتاہے بعدازاں یا تواس بیان سے مکرجاتے ہیں یا پھراپنا بیان واپس لینے کا حق بطوراظہار رائے آزادی وہ سمجھتے ہیں۔ ان کے زبانوں سے کیا کچھ نکلتاہے وہ تو وہ خود ہی جانتے ہیں کیونکہ ان پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے جو انہیں مرضی میں آتا ہے وہ آخرکار کرہی دیتے۔ ملک کے سیاستدانوں کی زبانوں پریقین کرنا بھی ہرایک کو کافی مشکل سا لگتاہے اوراب اس طرح کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ ملک میں سیاسی معیار گرتاہوا نظر آرہاہے۔ لہذا کیسے بدلیں گے ہم اپنے دیش کو کیونکہ اس طرح کے لوگ پرانی کہاوت کو دوہراتے اورکہتے ہیں کہ اندھیرا قائم رہے‘‘

حالانکہ اگرسرکاری نوکریوں کیلئے ریزرویشن پالیسی پر وضاحت کی جائے تو جمہوری ملک میں ریزرویشن کا مطلب پہلے سے ہی غلط طورپراخذ اور بیان کیاگیا ہے۔1947ء میں جب بھارت غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوا تو چھوا چھوت کی بیماری نے اس وقت پورے ملک کو جھنکو میں رکھ دیاتھا۔چھوا چھوت اورغریبی ‘ افلاس ‘ بھوک کو مٹانے و سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کے پختہ عزائم کو پورا کرنے کیلئے تب جاکر رزیزروریشن پالیسی کو اپنا یاگیا۔ درجہ فہرست ذاتوں اورقبائلوں و غریبی سطح سے نیچے درگزر کرنے والے افراد کو سرکاری نوکریوں ودیگر مراعات کیلئے خصوصی چھوٹ دینے کا بھارت سرکار نے بھیڑا اٹھایا۔لیکن چوک کہاں پر ہوئی اس بات پرکسی نے آج تک نظرثانی نہیں۔ حالانکہ چھوا چھوت ‘ امتیازی سلوک یعنی بھید بھاؤ کو مٹانے کیلئے کارگر اقدام بھارت سرکارنے کیا تھا لیکن افسوس کاعالم یہ ہے کہ بھارت سرکار نے اپنی ریزروریشن پالیسی میں کبھی ترمیم نہیں کی اورنہ ہی اپنائی جارہی ریزروریشن پالیسی کیلئے ٹا رگٹ ٹائم یا ٹائم فریم ورک رکھاکہ آیا کب تک کمزور اوردرجہ فہرست ذاتوں کو قابل شہری بنایا جاسکے۔اس طرح ریزرویشن پالیسی کی آ ڑ میں کچھ اورچند مفاد پرست عناصرہی فائدہ اٹھانے کے اہل ثابت ہوئے۔ کہنا یہاں پر ضروری بن جاتا ہے کہ جن لوگوں نے ریزرویشن پالیسی کے تحت نوکری حاصل کیں سماج میں اچھا مقام حاصل کیا ان کے پوتا پوتے ابھی بھی ریزرویشن پالیسی کا فائدہ اٹھارہے ہیں جبکہ ضرورتمند وحاجت مند افرا د ابھی بھی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔

مثال کے طورپر ریزروریشن معاملے کو لیکر اگر عام بات پرچرچا کریں تو ایک ہونہار طالب علم 90% فیصد نمبرات حاصل کرنے کے باوجودبھی میرٹ سے اکثر باہرہوجاتاہے جبکہ اس کے برعکس 40%فیصد نمبرات حاصل کرنے والے ڈاکٹر یا ماہرامراض آسانی سے بن جاتے ہیں۔ سرکار کی ریزروریشن پالیسی کے سبب آج اکثر طورپر اس طرح کی خبریں ضرور شائع ہوتے ہوئے آپ نے بھی دیکھی ہوں گی کہ ایسے ڈاکٹر صاحباں بعدازاں آپریشن کے دوران مریض کے شکم میں گاز کی پٹی یا کینچی ہی بھول جاتے ہیں یا کبھی کبھار ایک اعضاء کے بجائے دوسرے جسم کے اعضاکا آپریشن کرڈال دیتے ہیں ۔تب جاکر کئی دنوں تک اس طرح کی خبریں چرچا میں آجانے کے باوجودمعاملات پھرٹھنڈے بستے میں پڑ جاتے ہیں۔ اب صورتحال ایسی پیدا ہوچکی ہے کہ اچھے خاصے ڈاکٹر صاحباں اپنے ملک کی صورتحال سے تنگ آکر غیرممالک میں اپنی خدمات بخوبی سے انجام دے رہے ہیں ۔ ملک کے کئی ہونہار اور قابل ترین افراد اسرکاروں کی عدم توجہی کے باعث العمر ہونے کے بعد یاتو ڈپریشن کے شکار ہوجاتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو دوسرے ممالک میں کام کے اہل سمجھتے ہیں۔ جبکہ نااہل افراد کو ریزوریشن کے باعث کئی مواقع حاصل نصیب ہوتے ہیں اورعوام اتناسب کچھ جان کربھی مایوس اوردنگ رہ جاتی ہے اورڈاکٹروں کی اچھی خدمات کیلئے ترستے رہتے ہیں۔

میں صرف محکمہ صحت شعبہ کے بارے میں بیان کرنا جائز نہیں سمجھتاہوں اس طرح کی صورتحال ملک کے اندر ہرشعبہ جات سے وابستہ پذیرہے۔ چاہئے آپ محکمہ مال سے وابستہ ہو یا پھر محکمہ زراعت یا آبپاشی تو ملک کے اندر بدعنوانی کے سبب ہرشعبہ جات میں خامیاں نظر آرہی ہیں۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی یوروپی ممالک کے صحافی نے لکھا ہے کہ کئی بار قدرتی آفات آنے کے باوجود بھی ان کے ممالک جنوبی ایشیائی ممالک سے کافی ترقی یافتہ اور کافی آگے ہیں کیونکہ وہاں پر بدعنوانی کا بول بالا نہیں ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں بدعنوانی عروج پر تصور کی جارہی ہے۔یہاں پرترقی کو فروغ دینے کے بجائے مذہبی ‘ فرقہ پرستی‘ آپسی منافرت‘ ذات پات کی بنیادوں پر تقسیم کاری کو فروغ دیاجاتاہے۔ ۔ یہی خاص وجہ ہے کہ زبانوں ‘ ذات پات‘ مذاہب کے بنیادوں پر ملک میں تقسیم کاری سازش رچائی گئی جوکہ آج کے دور میں سب کیلئے مہنگاثابت پڑ رہاہے۔

در حقیقت یہ ہے کہ اپنی مفاد کے خاطر متعدد سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈران اپنی ووٹ بیلٹ پالیسی کیلئے ریزرویشن پالیسی کو ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہی مذہب ‘ فرقہ پرستی‘ ذات پات کی بنیاد وں پر آپسی رنجش منافرت و تقسیم کاری کرنے کی سازش کاحصہ بنیں۔ سابق پردھان منتری شری وی پی سنگھ کے دوران بھی ملک بھر میں ریزرویشن پالیسی کو کافی ہنگامہ اثر ہوا تب کے وزیراعظم کے دوران اقتدار کے دوران کروڑوں روپے مالیت کی قومی املاک سواہا ہوگئی ۔ کئی قیمتیں جانیں تلف ہوگئیں تھیں اس کے باوجود بھی تب کی سرکاروں نے معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیا اوراکڑ سے کام لیتے ہوئے ریزرویشن پالیسی اضافی شرح کے ساتھ اپنائی گئی جس پر بعدازاں عدالت عظمی ٰ نے بھی مہرلگائی تب جاکر بھی عملائی جارہی ریزویشن پالیسی کیلئے ٹائم فریم یا ٹارگٹ ٹائم نہیں رکھا گیا۔

اگر آپ کو یقین آجائے تو ووٹ بیلٹ و ریزرویشن پالیسی تنازعہ کی جڑ ہے جس کی بدولت سماج میں آپسی منافرت آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے ۔لہذا اگر موجودہ ریزرویشن پالیسی کاخاتمہ یقینی طورپر ہوتا تو سالانہ آمدن کی مقرربنیادوں پر ریزرویشن پالیسی مرتب ہوتی تو یقینا سب یکساں سلوک کے مالک بن جاتے اور نہ مساوی حقوق تعزیرات ہند کے دفعات 14,15,16 سلب ہوتے اورنہ ہی دفعہ21 کے تحت سب جینے کے حق سے محروم ہوتے ۔

ریزرویشن معاملات کے بارے میں مجھے ایک اورواقع یاد آیا جب ریاست مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال وکئی علاقوں میں ریزرویشن پالیسی پر رہنگا مہ آرائی حتجاج کیاگیا۔ تب گورجر طبقہ سڑکوں پر اترآئے تھے اورزبردست احتجا جوں کے بیچوں بیچ کروڑوں مالیت کا نقصان قوم کواٹھانا پڑا ۔سڑکیں سننان ہوئیں لوگوں کی آجاوہی مفلوج ہوئی تھیں چاروں اطراف دھواں ہی دھواں نظر آرہا تھا ۔بعدازاں پھر معاملہ ٹھنڈے بستے میں پڑگیا لیکن ہنگامہ کرنے والے اورقانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ْآج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔ حالانکہ پرامن احتجاج کرنے کاحق سب کو ہے لیکن ملک میں احتجاج کے دور ان صورتحال کیسی پیدا ہوتی ہے وہ حال ہی ہریانہ سے لیکر ملک بھر میں جاٹ برداری کا شرمناک واقع خود بیان کررہاہے۔ ریزرویشن مانگ کو لیکر بے گناہ لوگوں کا دن دہاڑے لوٹ کھسوٹ کیاگیا ۔مبینہ طورپر خواتین کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اورایسے شرمناک معاملات ابھر کرسامنے آئے جس سے بیرون ممالک میں بھی ملک کے شہریوں کو کھری کھوٹی آج بھی سننی پڑ رہی ہے۔

بھارت کو 67برس آزاد ہونے کو ہوئے لیکن آزاد ہم کہاں ہے جہاں پرقوانین کی سرعام دھجیاں اڑائی جارہی ہے حالانکہ برطانیہ حکومت کے دوران بھارت میں چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے ۔قتل اقدام کرنے پر سزا بھگتنی پڑتی تھی۔کوئی بھی غلطی کرنے پر لاٹھیاں برسنے کو ملتی تھیں یعنی ہرحالت میں قصور وار کو نہ صرف اپنی غلطیوں کا احساس دلایا جاتا تھابلکہ قوانین پرعمل پیرا کرنے کا مصمم ارادہ بھی سمجھا یاجا تاتھا ۔ اس کی بدولت آج ہمارے بھارت ورش میں کیا کچھ ہورہاہے وہ کسی بھی اوجھل نہیں ہے۔قانوں کی دھجیاں سرعام اڑائی جارہی ہیں قاتل کیمرے میں قید ہونے کے باوجود انصاف کا تقاضاہ تصورسے باہر سمجھنے میں آرہاہے۔قانون کی کتابیں وکلاء کے الماریوں میں قید ہوچکی ہیں ان کانفاذ عمل فضا سے باہر ہے۔ انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکانے پر لوگوں کو خود تذلیل ہونا پڑ رہاہے ۔ حق انصاف کیلئے ایک شہری کو سالوں سال لگ جاتے ہیں ۔عدالتوں سے فارغ ہونے کے باوجود بھی عدالتوں کے احکامات لاگو کرانے کیلئے پھرسفارشوں کی ضرورت پڑتی ہے۔قاتل قتل کرنے سے قبل ایسی صورتحال سے پہلے سے ہی واقف کار ہوتے ہیں جس سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتے ہوئے دکھائی دیاجارہاہے۔ قانون کاسہارالینے کے بجائے آج ملک کے شہری انصاف کے مندروں کو تجارتی مرکز سمجھ کربیٹھے ہیں جہاں ایک طرف عدالتی نظام میں کافی مدت لگنے سے لوگوں کو پریشان ہونا پڑ رہاہے تووہیں دوسری طرف وکلاء اوراسٹامپ فروش جیسے افراد قانون فروخت کار ثابت ہورہے ہیں۔

بات یہاں تک صرف ہضم نہیں ہوتی ہے بلکہ سب کا بدلاؤلانے کیلئے تعلیمی نورسے آراستہ ہونے کی بات ہروقت کی جاتی ہے دفعہ 45 کے تحت 14سال کی عمر تک مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیاگیاتھا لیکن بدقسمتی سے تعلیمی منورسے آراستہ ہونے کے بجائے والدین آج کل کافی مایوسی کے شکار ہیں۔ تعلیمی ادارے تجارتی مرکز بن بیٹھے ہیں۔سرکاری سکولوں میں اساتذہ بغیر خدمات بڑی تنخواہوں کے مالک بنادئیے گئے ۔ سرکاری سکولوں کے بجائے سرکاری اساتذہ پرائیویٹ ٹیوشن پر ہی زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کچھ اورہی ہے جہاں پر صرف وہ منافع خوری کے وعدہ بند ہیں بلکہ مختلف کورسز پروہ طلباء اورطلبات کے جیسیں کاٹ کر ادارووں کے نام پر کروڑوں پراپرٹی کے مالک بننے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ لہذا تعلیم ہی ایسا نورتھا جس سے ملک میں تبدیلی کے توقعات پورا کئے جاسکتے تھے لیکن اس ضمن میں بھی بدامنی پھیلائی گئی۔نرسری کلاسوں میں داخلہ لینے کیلئے بھی عدالتوں کی طرف رخ کرنا پڑ رہاہے۔غریب بچے تعلیی نورسے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ملک کی صورتحال کو کس قدر بیان کیاجائے ہرایک کو نابینائی کی شکل کو اختیار کرنے پرمجبورکیاجارہاہے۔باوقار صحافی برادری کو سماجی قدروں کو روشناس کرنے سے کوسوں دور جانے کیلئے مجبورکیاجارہاہے۔سماجی بدعات کو خاتمہ کرنے کے سوچ والے صحافی کا ہی خاتمہ کیاجارہاہے توبات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی ہے لیکن سوال یہاں پر یہ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر’’ کیسے بدلیں گے ہم اپنے دیش کو کیونکہ کچھ کہتے ہیں کہ اندھیرا قائم رہے‘‘
دنیا بدلتے دیکھا ان کا تقدیر ضرور بدلتے دیکھا
پر اپنے اندر شکونی ماما دیکھا پاسہ پھینکتے ہی دیکھا
دروپدی کے جسم سے ساڑھی اتارنے کی کتنے باورے ہوئے
رویت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کہ
ہریانہ کے کھیتوں میں کئی ساڑھیوں کے چرچے ہوئے
 
Raina Kumar
About the Author: Raina Kumar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.