مردم شماری میں نادرا سے مدد لی جائے

پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جسے سیاسی جماعتیں اپنی بقا کا مسئلہ قرار دے رہی ہیں ، انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے ، پاکستان کے آئین کے مطابق ہر دس بعد مردم شماری کرونا ضروری ہے ۔ لیکن آئین اس حوالے سے خاموش ہے کہ مردم شماری کس طریقے سے کروائی جائے ۔ سب سے پہلے تو ہم یہ جان لیتے ہیں کہ مردم شماری ہے کیا ؟ آسان لفظوں میں ایسے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ تقریباََ تمام ممالک میں کچھ وقفے کے بعد جو عموماََ دس سال ہوتا ہے ، مردم شماری ہوتی ہے ، اس سے مراد ملک میں لوگوں کی تعداد اور ان کے بارے میں مواد اکٹھا کرنا ہوتا ہے ۔ یہ مواد معاشی منصوبہ بندی میں مددگاری ثابت ہوتا ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیاہیں ، ملک کی آبادی میں کیا اضافہ یا کمی آئی ہے ملک کی آبادی کا تعلق کس زبان اور نسل سے ہء ، ان کی تعلیم کیا ہے ، وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں مردم شماری ہر دس سال بعد ہونی چاہیے تھی ، سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چا رسال بعد 1951ء میں ہوئی تھی پھر،1998،1981،1972,،1961،میں ہوئی ، 1972والی مردم شماری اصل میں 1971کو ہونے والی تھی ، مگر بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال کی تاخیر ہوئی اور پھر1991ء میں مردم شماری سیاسی گہماگہمی کے باعث موخر ہوئی ، پاکستان میں آخری بار مردم شماری 1998ء میں کرائی گئی۔آخر مردم شماری کیوں ضروری ہے۔ 18سال بعد مردم شماری کیلئے تمام سیاسی جماعتیں بے چینی کا اظہار کیوں کر رہی ہیں ، اس بحث پر جائے بغیر ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ مردم شماری ہونی چاہیے ، ماسوائے بلوچستان کے قوم پرست جماعتوں نے اعلان کیا کہ ابھی وقت مناسب نہیں ہے۔متفق اس بات کیلئے ہیں کہ فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں ۔ لیکن پاکستان کی افواج اس وقت زمینی جنگ میں مصروف ہے ، مغربی شمالی سرحدوں اور مشرقی سرحدوں پر پاک فوج الجھی ہوئی ہے ۔ اس لئے ان کی جانب سے مردم شماری کیلئے مزید دستوں کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ مردم شماری کے یہ فائدے ہیں مردم شماری کے وہ فائدے ہیں ، یہ نقصانات ہیں تو وہ نقصانات ہیں ، پیپلز پارٹی اسے موت و زندگی کامسئلہ قرار دے رہی ہے لیکن اپنے دور اقتدار میں مردم شماری نہیں کرا سکی ۔ تخمینہ ساڑھے چودہ ارب روپے کا لگایا جا رہا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بڑھ بھی جائے ۔ فنڈہ کونسا کسی سیاسی جماعت کی جیب سے جاتا ہے ۔ میں مردم شماری کے کورگھ دھندے اور گنجلک اعداد و شمار میں نہیں جاتا ، لیکن عام شہری کی حیثیت سے یہ جانتا ہوں کہ مردم شماری صرف معاشی جائزے کا نام نہیں بلکہ لسانی ،صوبائیت اور فرقہ واریت کا بھی دوسرا نام ہے ۔ مردم شماری میں پاکستانیوں کے بارے میں ہی نہیں بلکہ یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ پختون کتنے ہیں ، پنجابی کتنے ہیں ، سندھی کتنے ہیں ، بلوچی کتنے ہیں ؟۔ان کی مادری زبان کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ لسانیت اور صوبائیت کا چکر ہی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب پاکستان دو قومی نظریئے کے تحت بنا تو دو باتوں کو سامنے ہونا چاہیے کہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔۔۔ بس اس کے علاوہ کون کس قوم سے تعلق رکھتا ہے ، یہ طریقہ لسانیت اور صوبائیت کو ہوا دیتا ہے اور سب بڑی خرا بی کی جڑ بھی ۔تمام مردم شماری اٹھا کر دیکھ لیں اس میں تعداد با حساب قومیت نظر آئے گی ، ارے بھائی جب دو قومی نظریہ ہے اور اسلام میں مسلم اور غیر مسلم قومیتیں ہیں تو لسانی قومیتیں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔مردم شماری کا فار میٹ ہی لسانیت کی بنیاد پر ہے ۔ جب اردو قومی زبان ہے تو بس ۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ کیا جاننے کی ضرورت ہے کہ کون کون سی زبانیں ملک میں کتنی تعداد میں بولی جاتی ہیں ، یہی تو سارا جھگڑا ہے کہ ہمیں اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے ، ارے پاکستان میں پاکستانی ہو ، تو پھر اقلیت کا کیا سوال ۔ اگر انتظامی لحاظ سے صوبے ہیں تو پھر کسی صوبے میں چاہیے کوئی بھی کتنی زیادہ تعداد میں زبان بولتا ہو اس کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا آئین پاکستان میں یہ لکھا ہے کہ سندھی بولنے والا خیبر پختونخوا نہیں جا سکتا ، پنجابی بولنے والا ، بلوچستان نہیں جا سکتا ، جب قومی شناختی بنا دیا گیا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ اسکی شناخت پاکستانیت ہے ۔اس سے لسانیت کا خاتمہ ہوجائے گا ، دو صوبوں میں لڑائی ختم ہوجائے گی کہ ہم اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں ، افغانستان تین عشروں سے جنگ میں مصروف ہے کیا س کی نسل ختم ہوگئی ، یہودیوں کو لاکھوں کی تعداد میں عسیائیوں نے قتل کیا ، کیا اس سے اسرائیل ختم ہوگیا ،جاپان میں امریکہ نے ایٹم بم گرایا کیا اس سے جاپانی ختم ہوگئے ، ویت نام میں امریکہ نے کیا کیا نہیں کیا ، کیا ویت نام کا وجود مٹ گیا۔ ہماری صرف ایک پہچان ہے اسلام اور پاکستان ۔ باقی سب خرافات اور وقت کا ضائع ہے۔تعلیم کے حوالے سے کتنے پڑھے لکھے ہیں تو گھر گھر جانے کی کیاضرورت، سرکاری اور پرائیوٹ اداروں اور مدارس میں یہ تفصیلات ایک دن میں مل جاتی ہے کہ کتنے طالب علم ہیں ، ان سے کہہ دیں کہ آپ بتادیا کریں کہ ہر سال کتنے بچے کون سی تعلیم حاصل کرکے نکلتے ہیں ، تعلیمی وزرات کیلئے یہ کونسا مشکل کام ہے۔کتنے لوگ ہنر مند ہیں اور کتنے بے روزگار ، اس کا اندازہ ملک کی تمام فیکٹریوں میں لگایا جاسکتا ہے ان سب کا ڈیٹا ان کے پاس موجود ہے ۔وہ بتا دیں گے کہ کتنوں کو عارضی ملازمت کے نام پر کنٹریکٹ بنیادوں پر پسا جا رہا ہے اور کتنے ملازمین مستقل ہیں ، سرکاری اداروں میں یہ تعداد تو صرف ایک منٹ میں معلوم کی جاسکتی ہے۔جب مرد و عورت سب برابر ہیں ، تو اس میں اس بات کی تخصیص کیوں کہ عورتیں کتنی ہیں ، مرد کتنے ہیں ؟۔ با حیثیت انسان کتنے لوگ ہیں یہ سب نادرا سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ آپ ساڑھے چودہ ارب روپے مردم شماری پر خرچ کرنے کے بجائے نادرا پر خرچ کردیں ، وہ گھر گھر جاکر ایک ایک فرد کا بائیو میٹرک کرائے ، اس کا اندارج کرے ، اس کے کارڈ جاری کرے ، تمام تفصیلات ایک جگہ جمع کرے ، اس کے لئے اگر ساڑھے چودہ سو ارب بھی خرچ ہوتے ہیں تو کوئی بات نہیں ، ہمیشہ کیلئے اس مسئلے سے جان چھٹ جائے گی۔ گھر گھر جا کر نادرا کی ٹیمیں بغیر رشوت لئے اُسی وقت بائیو میٹرک سسٹم سے عوام کا اندارج کرے ، ویسے تو 98فیصد اندارج نادرا کے پاس موجود ہی ہے جو مردم شماری میں جانا جاتا ہے ، لیکن سیاسی جماعتوں کی تسلی کے لئے ایک بار اور کرلیں ۔ حدود ، حلقے سب الیکشن کمیشن نادرا کے تعاون سے ہی بنائے جاتے ہیں ۔ ووٹر لسٹ بھی نادرا بنا رہی ہے۔تو پھر کیا قباحت ہے نادرا جیسا قابل بھروسہ ادارہ جو پاکستانی کو پاکستانیت ہونے کے شناخت دیتا ہے اس کو یہ ٹاسک دے دیا جائے۔ بائیو میٹرک سسٹم کے بعد وہ کسی بھی جگہ چلا جائے ڈبل اندارج نہیں کرا سکے گے۔اپنا مستقل ایڈریس اور موجودہ ایڈریس کی بنا پر کسی دوسرے صوبے کا حق نہیں مارا جائے گا۔جدید دور ہے ، تمام دنیا فرسودہ نظام کو چھوڑ کر جدیدیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور ہم پوچھتے پھر رہے ہیں کہ تمھاری زبان کون سی ہے اور تم کپڑے کونسے پہنتے ہو۔

مردم شماری ہوئے 18سال تو ویسے ہی ہوگئے ہیں ، دو سال اور سہی ، دو سالہ پراجیکٹ بنا کر مردم شماری کو نادرا کے ساتھ منسلک کردیا جائے ۔ گھر گھر جا کر ٹیمیں بائیو میٹرک کے ذریعے اندراج کریں ۔پھر جب چاہیں مردم شماری کرالیں ، آئین پاکستان میں مردم شماری کرانے کا کوئی طریقہ نہیں دیا گیا ، الیکشن کمیشن نے بھی تو اپنا فارمیٹ تبدیل کیا ، ووٹر لسٹ میں تصویریں ڈال کر اب وہ گھر گھر جاکر ووٹرز کا اندارج نہیں کرتی بلکہ خود کار عمل کے ذریعے لسٹ میں اٹھارہ سال ہونے پر اس فرد کا نام ازخود لسٹ میں آجاتا ہے۔ووٹر لسٹ میں گھروں کے ایڈریس درست نہیں ہوتے لیکن شناختی کارڈ میں تمام معلومات درست اندراج ہوتی ہے ، مرد ؍عورت؍ زبان؍تعلیم؍ ہنرمندی؍قوم؍ موجودہ پتہ؍ مستقل پتہ؍خون کا گروپ؍کتنے بچے ہیں؍ لڑکیاں کتنی ہیں ؍ لڑکے کتنے ہیں ؍ بے روزگار ی؍ روزگار؍ معذور؍ بیرون ملک کتنے ہیں۔تمام اندارج نادرا میں پہلے ہی ہو رہے ہیں ۔ حتمی طور پر اس معاملے کو جیسے ہمیشہ مسئلہ بنا دیا جاتا ہے ۔ گلی گلی موبائل نادرا کی ٹیمیں جاکر خانہ شماری بھی کریں گی کہ کون سی آبادی غیر قانونی ہے اور کون سی نہیں ، کتنے گز پر کتنا مکان ہے ، کون ٹیکس دیتا ہے اور کون نہیں دیتا ۔وغیرہ وغیرہ۔تو پورے علاقے کا بائیو میٹرک سروے بھی ہوجائے گا۔

اٹھارہ سال میں مردم شماری کو نہیں ہوئی تو پاکستان میں کوئی قیامت نہیں آگئی۔دو سال میں مردم شماری، خانہ شماری کیلئے مختص رقم کو جدید نظام کے تحت لایا جائے ، چاہیے اس کے لئے مزید ساڑھے چودہ ارب خرچ کرنے پڑیں تو کیا مضائقہ ہے۔ایک مصدقہ ریکارڈ تو سامنے آجائے گا ، کسی بھی جرم میں ملوث ہونے والے شخص کے فنگر پرنٹس ،اس کا ٹیکس دیٹا ، ووٹر لسٹ ، علاقے میں درست آبادی کے تناسب سے درست حلقہ بندی ، میرے حساب سے مردم شماری کا کسی کو معلوم کرنا ہو تو وہ ایک گھنٹہ میں کسی بھی علاقے کا دیٹا معلوم کرسکتا ہے اس سے این ایف سی ایوراڈ کے رقم کی تقسیم بھی متنازعہ نہیں بنے گی ۔غیر ملکیوں کی پہچان بھی ازخود ہوجائے گی۔جرائم پیشہ افراد نادرا کے مکڑی کے جال میں ازخود آسکیں گے ، کیونکہ ان کے پاس شناخت نہیں ہوگی تو وہ پاکستانی ہونے پر رشوت دیکر بیرون ملک بھاگ نہیں سکے ۔ ایک گھر میں600افراد کے ووٹ نہیں نکلے گے۔ شاید یہ طریقہ وقت طلب ہو، لیکن ایسے مرحلہ وار شروع کردیا جائے ، کہاں ملک میں امن ہے وہاں اس کی ابتدا کر دی جائے ،بد امن علاقوں کی نشان دہی بھی سامنے آجائے گی۔کچھ مشکل نہیں ہے ، مینول سسٹم میں صرف دھاندلی ہے اور مخصوص طبقات سیاسی جماعتوں کو فائدہ ۔ جبکہ نادرا سسٹم میں ایسا کچھ نہیں۔ فرق مردم زار شماری سے ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744178 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.