عمران خان سے عربی کی تنفیذ کا مطالبہ
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
پچھلے دنوں ہم نے ایک وفد کی شکل میں تحریکِ
انصاف کی قیادت سے ملاقات کی،بہت دوستانہ اور مشفقانہ انداز میں یہ نشست
ہوئی،اس موقعے پر جو گزارشات وفد نے پیش کیں،وہ من وعن کے ساتھ یہاں قارئین
کی نذر کی جاتی ہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
محترم و مکرم جناب چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
اﷲ تعالی نے آپ کو پاکستانی سیاست کو اعتدال میں لانے اور طبقاتی نظام کو
ایک مساوی نظام میں لانے کے لئے چنا ہے اس کے لئے آپ نے ایک طویل و مسلسل
محنت کی ہے اور نہایت خوش اسلوبی سے یہ سفر طے کیا ہے، ہم امید رکھتے ہیں
کہ اس سفر میں مزید آسانیاں پیدا ہوں ، آپ سے اﷲ تعالی اس ملک میں وہ کام
لیں جو اﷲ تعالی نے عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے لیا تھا ،آپ کے ذریعے اس قوم
کو عدل و انصاف ملے اور وہ ماحول ہم دیکھ پائیں جو مدینہ منورہ کی ریاست
میں دیکھنے کو ملا تھا ۔آپ نے ہر شعبہ میں قابل قدر اصلاحی اقدامات فرمائے
ہیں اور روز افزوں بہتری کی طرف قدم بڑھاتے چلے جارہے ہیں ،اﷲ تعالی ان تما
م خیر کے کاموں میں آپ کا ہاتھ تھام لیں اور آپ کو پوری انسانیت کے لئے
نافع بنائیں ۔
جناب عالی!ہم ایک اہم نقطے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جس کی
طرف آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اور پہلے سربراہ جناب سر آغاخان نے موتمر
عالم اسلامی کے ایک اجلاس جو کراچی میں 9فروری 1951ء کو منعقد ہو،میں انہوں
نے بڑے مدلل انداز میں بطور التجاء فرمایا کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان
بنانے کا آخری فیصلہ نہ کریں بلکہ عربی کو اختیار کریں ۔
جناب عالی ! کوریا،تائیوان اور اب جرمنی جوکام کرچکے ہیں، اس کے لئے ہمارے
پاس صوبہ خیبر پختون خواہ میں عربی زبان میٹرک تک موجود بھی ہے ،اساتذہ بھی
موجود ہیں صرف اتنی بات ہے کہ وہ اختیاری ہونے کی وجہ سے اپنا مقام حاصل
نہیں کرپارہی، اگر آپ اس کو لازمی کردیں، تو امید ہے پاکستان اپنے ان 22عرب
ممالک کے ساتھ بالکل ڈائریکٹ ہو جائے گا، جہاں ہماری بہت ساری آبادی عربی
نہ جاننے کی وجہ سے لیبر میں کام کرنے پر مجبور ہے ،اور ساتھ ہی اپنے دین
کے علوم سے عربی نہ جاننے کی بنا پر نا واقف ہے ،جس کی وجہ سے ایک قسم
کااخلاقی اور فرقہ وارانہ بحران ہے، جس کا سامناہم سب یکساں کر رہے ہیں ،آپ
کا یہ فیصلہ جہاں بہت سے بیرون پاکستان لوگوں کی مشکلات دور کرے گا، وہاں
بے شمار روز گار کے مواقع کا راستہ ہموار ہوگا اور عرب و عجم کی تجارت باہم
متعارف ہو گی، جس سے ہمارے ملک کو آگے بڑھنے کے نئے راستے ملیں گے ،ان شاء
اﷲ۔
پاکستان عریبک لینگویج بورڈ اس سلسلے میں تمام تر پیچیدگیوں میں بطور معاون
اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے حاضر ہے ۔
جس طرح بھٹو مرحوم نے قادیانیت کادیرینہ مسئلہ حل کیاتھا اسی طرح اﷲ تعالی
سے دعا ہے کہ وہ یہ عظیم کا م آپ سے انتہائی خوش اسلوبی سے لیں اور آپ کو
عالم اسلام کی تقویت کا ذریعہ بنائیں ۔
ڈاکٹرشیخ ولی خان المظفر
سربراہ پاکستان عریبک لینگویج بورڈ
سر سلطان آغا خان سوئم ،آپ پاکستان کی خالق جماعت ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے
بانی اور اس جماعت کے پہلے سربراہ تھے۔1906سے 1912تک اس جماعت کے صدر رہے ۔
یکم اکتوبر ،1906میں اُنہوں نے 35نامور مسلمانوں کے ایک ممتاز وفد کی شملہ
میں قیادت کی اوربرصغیرکے مسلمانوں کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی ۔اپنے
تاریخی خطاب میں اُنہوں نے برطانوی وائسر ائے پر زوردیا کہ مسلمانوں کو ایک
جداگانہ قوم کے طور پر تسلیم کیاجائے اور ان کی تکریم کی جائے۔1930 اور
1931میں گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی نمائندگی کی، آپ دُنیا بھر کی
اسماعیلی روحانی جماعت کے48ویں امامِ حاضرتھے۔ آپ نے تقریباً ستّر سال
امامت کی ہے جو اسماعیلی اماموں میں سے سب سے طویل امامت ہے۔ عربی،
فارسی،انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے ماہر، عظیم مدبر اور سیاست دان
تھے،آپ سماجی مصلح بھی تھے،آپ نے 200 سے زائد اسکول قائم کئے،1937میں جمعیت
الاقوام کے صدرمنتخب ہوئے۔آپ کراچی میں 2،نومبر1877 کو پیدا ہے اورآپ کا
انتقال 11،جولائی 1957ء میں ہوا، آخری آرام گاہ مصر کے شہر’’اسوان‘‘میں
ہے۔اجلاس موتمر عالم اِسلامی منعقدہ کراچی ،9فروری 1951میں سرسلطان آغا خان
سوئم کے تاریخی انگریزی خطاب کا اُردو ترجمہ:
’’جناب ِصدر و برادانِ اِسلام !۔۔میں آپ کو یقین دلاناچاہتاہوں کہ آج آپ کو
خطاب کرتے ہوئے میں اپنے دِل پر ذمہ داری کا بوجھ محسوس کرتا ہوں ، آج جو
کچھ میں کہنے والا ہوں ،اُس کی وجہ سے میں اس ملک کے’’بعض اہم طبقات کی نظر
میں بہت قابلِ ملامت ‘‘قرار دیا جاؤں گا ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جوخیالات
میرے دل میں ہیں، اس آباد اور طاقت وَرملک کی خدمت میں پورے دلائل کیساتھ
جس حد تک کہ ایک مختصر خطبہ میں اُنہیں بیان کیا جاسکتا ہے، پیش کرنا میرا
فرض ہے اور اس فرض کو اداکرنے کا جو موقع آج مجھے حاصل ہے اگر اسے میں نے
ہاتھ سے کھودیا تو میں اسلام کے ساتھ غدّاری کا مرتکب ہوں گا۔مجھے ڈرہے کہ
میرے بعض دلائل ان حضرات کے لیے انتہائی ناگُوارہوں گے جنہوں نے آج سے
مختلف حالات کے ماتحت اپنی زندگیوں کے بیشترحصّے اُس مقصد عزیز کے خدمت میں
صرف کئے ہیں جس کا وقت میری نظر میں گذر چکا ہے، اوراب ایسے اہم حالات
ہمارے سامنے ہیں کہ وہ کبھی پہلے ہمارے وہم و خیال میں نہیں آئے
تھے۔پاکستان کے مسلم آبادی اور ہر صوبہ کی آبادی کے سامنے اپنے خیالات اور
دلائل کو پیش کرنا اپنافرض سمجھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر کوئی ذمّہ داری آج
میرے ذہن میں نہیں ہے ۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ جس قدم کو میں’’ مہلک اور
افسوس ناک‘‘ سمجھتا ہوں وہ ابھی نہیں اٹھایاگیا ہے اور وہ ابھی دستور کاحصہ
نہیں بنا ہے۔ایک قوم کی زبان اس کی آواز کا اظہار ہوتی ہے اور اُس کے علاوہ
دوسری انسانی جماعتوں کے ساتھ اس کی ترجمانی کا وسیلہ ہوتی ہے، قبل اس کے
کہ میرا کہنا بعد از وقت ہوجائے میں پیرانہ سال انسان اس جگہ کے مسلمان
بھائیوں سے التجا کرتا ہوں کہ’’اُردو‘‘ کو پاکستان کی قومی زبان بنانے
کاآخری فیصلہ نہ کریں، بلکہ عربی کو اختیار کریں ، برائے خدا آپ میرے دلائل
سنیں۔
پہلے میں اُردو کے خلاف اپنی دلیل بیان کروں گا ،اگر ہندوستان کی گذشتہ
برطانوی سلطنت کا دوسرا حصّہ ، اُردو کو اپنی قومی زبان بنا لیتا تو
پاکستان کے لیے بھی ایسا کرنے کی یہ ایک معقول وجہ ہوجاتی، ہمارے جنوب کی
طرف جو عظیم جمہوری مملکت ہے اُس کے ساتھ لسانی رابطہ و تعلقات کا ایک اہم
نقطہ پیدا ہوجاتا ، پاکستان اور اس کے عظیم الشّان ہمسایہ کے درمیان تعلقات
کی زنجیر کو توڑ نے کو اس سطح ارضی پر کوئی اور شخص ہو تو ہو ۔میں کبھی
ایسا کرنے کے لیے راضی نہیں ہوسکتا۔
دوستوں ، نہ صرف اُردو بلکہ ہندوستانی کو بھی بھارت کے طول و عرض سے خارج
کرکے ہندی کو اس کی جگہ قومی زبان تسلیم کرلیا گیا ہے، باشندگان ِبھارت کو
پورا حق ہے کہ جس زبان کوان کی اکثریت اپنے لئے مناسب اورتاریخی اعتبار سے
قابل لحاظ سمجھے اسے اپنی قومی زبان بنائیں۔وہاں کی اکثریت کو یہ حق تھا کہ
اپنی پسندیدہ زبان کو ملکی زبان کا درجہ دیدیں۔
پاکستان میں اُردو کا انتخاب آپ کواپنے ہمسایہ ملک سے تعلقات کی اصلاح یا
استواری میں کوئی مدد نہیں دے سکتا اورنہ وہاں کی مسلم اقلیت کو کسی نوع کی
کوئی امداد اس کی بدولت پہنچ سکتی ہے، آپ خواہ کتنے ہی عربی اور فارسی
الفاظ اس میں شامل کردیں ، اس سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اس کے نحو، اس کی
ترکیب اور اس کی بنیادی اصول سب کے سب ہندی سے ماخوز ہیں، نہ کہ عربی سے ۔کیا
ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان اُن کی زمانہ عروج میں اُردو تھی،پٹھانوں کے
طویل دور حکومت میں حکمران طبقہ کی زبان اُردو کبھی نہیں رہی۔مغلوں کے دور
کاجوشاندار حصّہ تھا اس کا خیال کیجئے ،تو معلوم ہوگا کہ تعلیم یافتہ طبقہ
کی زبان اُردو ہر گز نہیں تھی، میرادعویٰ ہے کہ کوئی شخص اورنگ زیب، شاہ
جہاں، جہانگیر، اکبر ،ہمایوں اور بابر کا کوئی اُردو نوشتہ نہیں
دکھلاسکتا،شاہی محلوں اور درباروں میں محض فارسی یا کبھی کبھی ترکی بولی
جاتی تھی،میں نے اورنگ زیب کی بہت سی تحریریں دیکھی ہیں اور وہ نہایت عمدہ
فارسی میں ہیں۔یہی حال تاج محل کا ہے،آپ جاکردیکھئے کہ شہنشاہ اور اس کی
شہرہ آفاق بیگم کے مزار پر کس زبان کی تحریریں ہیں۔ فارسی عدالت کی زبان
تھی اور تمام تعلیم یافتہ طبقہ اور درباری یہاں تک کہ انیسوی صدی کے
ابتدائی حصّہ میں دوردراز بنگال میں خودہندو تعلیم یافتہ طبقہ فارسی لکھتا
پڑتا تھا نہ کہ اُردو۔مکالے کے زمانہ تک فارسی او نچے طبقوں کی زبان تھی
اور اس میں مذہب کی کوئی تفریق نہیں تھی اور تمام سرکاری کا غذات اور مختلف
مرکزی عدالتوں میں فارسی استعمال ہوتی تھی۔ہمیں تاریخی حقائق کو پیش نظر
رکھنا چاہیے۔ اُردو زوال کے شروع ہونے کے بعد مسلمانانِ ہند کی زبان بنی،
یہ زبان ان کے دور انحطاط سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے چوٹی کے شُعر ااسی دُور
میں پیدا ہوئے اس سلسلہ کا آخری اور سب سے بڑا شاعِر اقبال تھا ،اقبال نے
بیدار ہوکر اُردو کو ترک کردیا اور اس کی جگہ فارسی شاعری کو اختیار کیا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ لندن میں اقبال کے اعزاز میں ایک جلسہ پروفیسر
نکلسن جیسے اشخاص نے منعقد کیا، میں بھی اس میں شریک تھا، اقبال نے کہا کہ
میں نے اپنی شاعری کے واسطے فارسی کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ،اس کا تعلق
اسلام کے زمانہ عروج سے ہے نہ کہ اس کی بدبختیوں کے دور سے، کیا آپ کو یہ ،مناسب
معلوم ہوتا ہے کہ دورِانحطا ط کی زبان اب ایسے دور کیلئے ہماری قومی زبان
بنائی جائے جس کی بابت ہمارا یہ خیال ہے کہ اس میں ہماری حیات نَوکے قومی
تو قعات پنہاں ہیں ۔ اُردو کے تمام مشاہیراساتذہ اس دور سے تعلق رکھتے
ہیں۔جبکہ ہم انتہائی یا س اور شکست خوردگی سے دوچار تھے ۔ اس وقت ہماری یہ
کوشش معقول سمجھی جاسکتی تھی کہ ایک ایسی زبان اختیار کی جائے جس
کاماخذہندی ہو اور اس میں عربی اور فارسی الفاظ کی آمیزش ہو تا کہ ملک کی
ہم وطن اکثریت کے ساتھ بہتر مفاہمت کی صورتیں پیدا ہوجائیں۔ مگر آج برطانیہ
کی وہ عظیم الشان محکوم سلطنت تقسیم ہوچکی ہے، اور اس کی جگہ دوبڑی آزاد
قومیں لے چکی ہیں۔اور تمام دُنیایہ اُمید کرتی ہے کہ دونوں قوموں نے تقسیم
کی حقیقت کو مستقل طور پر تسلیم کرلیاہے۔کیا موجودہ باشندگانِ پاکستان کی
فطری اور قومی زبان اُردو ہے، کیایہ بنگال کی زبان ہے؟جہاں مسلمان کی
اکثریت آباد ہے؟ کیا یہ وہ زبان ہے جسے آپ ڈھاکہ اورچٹاگانگ کے کوچوں میں
سُنتے ہیں، کیایہ شمال مغرب کے سرحد وں(کے پی کے) کی زبان ہے، کیایہ سندھ
کی زبان ہے،کیایہ پنجاب کی زبان ہے؟ یقینا سلطنت ِ مغلیہ کے زوال کے بعد
بعض قطعات ملک کے ہندواورمسلمانوں کواُردوزبان کی صورت میں ایک وسیلۂ
اتحادمل گیا تھا،مگر آج ان دوملکوں کے باہمی مفاہمت کے واسطے دوسری نوع کے
وسائل تلاش کرنے ہوں گے۔
اُردو کے تخلیق کرنے والے کون تھے؟ اُردو کی بنیادیں کہاں ہیں؟ یہ کہاں سے
آئی ؟عساکر شاہی کے چھوٹے ملازمین اس کے بنانے والے تھے، شاہی دربار کے
ساتھ ہندی بولنے والی ایک کثیر التعداد جماعت رہتی تھی، زمانہ کے اعتداد کے
ساتھ ساتھ وہ جماعت ، فارسی اورعربی کے الفاظ کو ہندی قالب میں ڈھال کر
اپنی زبان میں شامل کرتی گئی۔یہ صورت بالکل اسی طرح پیش آئی جس طرح کہ اس
کے بعد انگریزی الفاظ مثلاً گلاس ،کیمپ وغیرہ کے شمولیت سے اُردو کی ایک
نئی شکل ’’ہندوستانی‘‘ کی صورت میں پیداہوگئی۔کیا آپ لشکری زبان کو اپنی
نئی نوز ائیدہ سلطنت کی قومی زبان بنانا چاہتے ہیں، یادربار کی زبان کو ؟ہر
مسلمان بچہ جس کی کچھ تھوڑی بہت حیثیت ہوتی ہے عربی میں قرآن پڑھنا سیکھتا
ہے، خواہ وہ ڈھاکہ کارہنے والا ہو یا کوئٹہ کا۔ وہ الف ۔بے۔سیکھتا ہے قرآن
پڑھ سکے۔عربی اِسلام کی زبان ہے، قرآن عربی میں ہے۔نبیؐ کریم کی احادیث
عربی میں ہے، اسپین میں جب اسلامی تہذیب اپنی اعلیٰ ترین صورت میں تھی تو
عربی میں تھی۔کسی حد تک آپ کے سب بچوں کو ہمیشہ عربی پڑھنا ضروری ہے۔یہ حال
آپ کے مغربی حصّہ کا بھی ہے، خواہ وہ سندھ ہو، خواہ بلوچستانی سرحد۔
عملی اور دُنیاوی نقطۂ نظر سے غور کیجئے تو عربی بہ حثیت قومی زبان کے ایک
آن میں نہ صرف چارکروڑ عربی بولنے والے آزاد ملکوں کے مسلمان باشندوں سے آپ
کو وابستہ کردے گی جوآپ کے مغرب میں بستے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ کم وبیش چھ
(پچاس)کروڑ ایسے عربی بولنے والے باشندوں سے بھی جو آزادتو نہیں ہیں، مگر
افریقہ میں بستے ہیں،اٹلانٹک کے ساحل تک ،نہ صرف شمال میں بلکہ جنوب میں
نائجیراور گولڈکوسٹ کے ملکوں تک اُونچے طبقوں کے باشندے عربی جانتے
ہیں۔سوڈان کے تمام حصّوں میں خواہ وہ دریائے نیل کے کنارے ہوں یا فرانسیسی
اقتدار میں عربی پرتگال مغربی افریقہ کے سرحد تک بولی اور سمجھی جاتی
ہے۔مشرقی افریقہ میں نہ صرف زنجبار میں بلکہ ایک دوسرے سے دُور،ایسے ملکوں
میں بھی جیسے کہ مدغاسکر اور پرتگال مشرقی افریقہ میں، باشندوں کی زبان
عربی ہے۔اگر ہم عربی کے لیے مشرق کا رُخ کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام
انڈونیشیا اورملائیشیا کے آٹھ(تیس) کروڑ مسلمان میں پھیلا اور پروان چڑھا۔
آٹھ کروڑ مسلمانوں سے میرا مطلب فلپائن تک کے مسلمانوں سے ہے۔
سری لنکا میں بھی خوش حال گھرانوں کے مسلمان بچے، کچھ نہ کچھ عربی ضرور
سیکھتے ہیں۔ کیا یہ مناسب اور بجانہ ہوگا کہ پاکستان کی یہ طاقتور اسلامی
سلطنت جو جغرافیائی طور پرمرکزی حیثیت رکھتی ہے۔جو مشرق کے دس(پچاس) کروڑ
مسلمانوں کو مغرب کے دس(پچاس) کروڑ مسلمانوں سے جوڑتی ہے۔جو مشرق میں
جزائر، فلپائن اور انڈونیشیا کے عظیم سلطنت اور ملائیشیا اور برما سے لیکر
مغرب میں افریقہ کے دس کروڑ مسلمانوں میں اٹلانٹک کے ساحل تک ، ایک خاص
حیثیت کی حامل ہے۔
عربی زبان کو اپنی قومی زبان بنائے۔بجائے اس کے کہ ایسی زبان کو جو اسلامی
سلطنتوں کے زوال سے تعلق رکھتی ہے اختیار کرکے اپنے سب ہمسایوں اور دُنیائے
اسلام سے الگ ہوجائے۔
حضرات،برادرانِ اِسلام ،باشندگانِ پاکستان ، باشندگان ہر صوبہ پاکستان اس
سے پہلے کہ آپ آخری قدم اُٹھائیں، جس قدم کی بابت مجھے افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ وہ کھائی میں اوندھے منہ گرنے کے مترادف ہوگا۔ میں آپ سے اپیل
کرتا ہوں کہ اس مسئلہ پر غور وفکر کیجئے ۔اور ہر شخص کو موقع دیجئے کہ وہ
اپنے خیالات ظاہر کرے ، جلدی نہ کیجئے اور اچھی طرح سمجھئے اورغور کیجئے۔جن
لوگوں کو میں نے آج ناراض کیا ہے ، اُن سے میں اپیل کرتاہوں کہ اس مسئلہ پر
جو بحث وتمحیص پیش آنے والی ہے اس میں تحمل اور رواداری سے کام لیں اور
باقی سب صاحبان سے میری التجا ہے کہ واقعات کو اور آج کی دُنیا کو صحیح نظر
سے اور تاریخی رُوشنی میں دیکھیں۔خُدا سے میری التجا ہے کہ اس مُلک کے
باشندوں کا راستہ اس مسئلہ کے تصفیہ کرنے سے قبل ربّانی روشنی سے منّور
کردیا جائے۔ |
|