انجام سے بے خبر فیصلے کا انجام؟

کئی ماہ کی ذاتی مصروفیات کی بناء پر خاکسارکو لکھنے پڑھنے کا موقع نہ سکا ۔جس پر کئی قارئین نے را بطہ کرکے وجہ پوچھی تو جواب میں معزرت ہی کرتا رہا۔ مگر ایک ایسے قاری نے دوبارہ قلم اٹھانے پر مجبورکردیاجس کا ذکر آگے چل کر کیاجائیگا ۔پہلے گوشہ نشینی کی وجہ توبتادوں انسان کے ارد گردآئے روز کئی واقعات رونماہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو دکھ کی شکل میں صلا حیتیں متاثر ہوتی ہیں کسی بھی کام کو سر انجام دینے کیلئے محاحول کا ساز گار ہونا بہتر ہوتا ہے۔ جو لوگ کسی سے توقع رکھتے ہیں اور جب جواب مایوسی کی شکل میں ملے تو بقول شاعر
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں زخم لگا کر نمک سے مساج کرتے ہیں ۔غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں ۔انجام سے بے خبرعوام کے منتخب نمائندے اقتدار کے نشہ میں دھت نوجوانوں کو روز گار دینے کے بجائے ہر سائل کو اپنی فطر مسکراہٹ کی نذرکردیتے ہیں۔ایسا ہی کچھ راقم کے ساتھ بھی ہوا حالا ت سے دلبرداشتہ ہوکر بے روز گار نوجوان اولاد کے مستقبل کو روشن رکھ نے کی غرض سے حصول روز گار کے لئے بڑے بیٹے کو بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔انجام سے بے خبر فیصلے اکثر ساری زندگی پچھتاوے پر مجبور کردیتے ہیں ۔اور ایسا ہی ایک فیصلے سے خاکسار کو گزرنا پڑھا۔ ایک دوست سے فون پر را بطہ کرکے 8لاکھ رو پے کے عوض ویز ہ رو زگار سعودی عر ب کے لئے منگوایا اوراپنے بڑے بیٹے کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے سعودی عرب کیلئے روانہ کیا ۔یہ سوچ کر شائد سفید پوشی کا بھرم بھی رہ جائے اور بیٹا بھی پڑھ لکھ کر برسرے روز گار ہوجائے ۔مگر سائل کی جلد بازی نے مذید آزمائش میں مبتلاء کردیا ۔ادھر گلفراز افضل کوجد ہ پہنچ کر اقامہ ملنے کے بعد بر سرے روز گار ہوگیا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا سعودی عرب میں نو ماہ گزار نے کے بعد ایک دن آیا جس کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ 6اکتو بر 2015کوراقم کا بیٹا حادثہ کا شکارہوگیا۔گلفراز افضل دوران ڈیوٹی چالیس فٹ بلندی سے ز مین پر آگرا جس کے نتیجہ میں بائیں ٹانگ اور دائیں بازو ٹوٹ گیا ۔فوری طبی امداد کیلئے جد ہ عالی ہسپتال منتقل کیا جہاں پر ڈاکٹروں کی ٹیم نے مضروب کا معائنہ کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا ۔ حادثہ کی خبر پاکستان میں بجلی کی طرح اہل خانہ پر گری جس کے نتیجہ میں کچھ وقت کیلئے تو پورا جسم ساقت ہوگیا ۔اﷲ بھلا کرے نیٹ3Gوالوں کا جد ہ عالی ہسپتال بیڈ نمبر 14زیر علا ج بر خور دار کو دیکھنے اور بات کا موقع ملاتو دل کو سکوں آیا ۔ ٹیکنالوجی نے تو فاصلے کم کردیء اس وقت انداز ہوا کہ اﷲ تعالی کی عطاء کر دہ نعمتوں کا شکر کتنا بھی ادا کیا جائے کم ہے ۔ ایک ز مانہ خط و تار کا ہوا کرتا تھا ۔ ا س کے ریوٹو اور ٹیب ریکارڈ آیا ۔لیکن بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی ٹیکنالوجی نے انسان کو ا س مقام پر پہنچادیا جہاں پر کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ الگ موضوع باعث ہے ا س پربہت کچھ لکھا پڑا جا سکتا ہے ۔ بات ہورہی تھی بر خور دار کے حادثہ کی اﷲ کا شکر ہے خاکسار کے ہزاروں رفقاؤ عزیز سعودی عرب میں حصول روز گار کیلے وہاں پر مقیم ہیں گلفراز افضل کی عیادت کرنے والوں کا تانتا بچھ گیا ڈاکٹر وں نے مضروب کو دو ماہ بیڈ ریسٹ کا مشور دیا تو ساتھیوں نے پاکستان روانہ کرنے کافیصلہ کیا۔ 20دسمبر 2015کو اسلام آباد ائیر پورٹ پر گلفرازافضل کی ملا قات اہل خا نہ سے ویل چہرپر ہوئی اہل خانہ اپنے ضبط پر قابو نہ پاء سکے کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے ٹوٹ گئے آنسوؤں کے سارے بندھن تڑپاء ہے وہ دل جو کبھی دھڑکا نہ تھا۔ لیکن انسان تو پیدائشی طورپر قدم قدم پرمحتاج ہے اور آزمائش کا شکار ۔ جو لوگ اﷲ تعالی کی آز مائش پرصبر و حوصلہ سے کام لیتے ہیں اﷲ تعالی ا پنی آزمائش کو صبر و شکر کرنے والوں پر نعمت میں بدل دیتا ہے۔۔۔ گلفراز افضل کا گھر پہنچنا عزیز اقارب دوست احباب کا کثیر تعداد میں تیماردار ی کیلئے آنا غم حوصلہ میں بدل گیا اس موقع پر ہر مکتب فکر کے لوگوں کی جانب سے ہمدردی صلہ رحمی کے جذبات و احساسات دیکھنے کو ملے جس پر برملا کہا جا سکتا ہے کہ انسان واقعی اﷲ کا بہتریں کنبہ ہے ساری رات کی عبادت سے افضل ہے کہ کسی کے دکھ درد میں حوصلہ افزائی کی جائے ۔ ایم پی اے حاجی صالح خان چوہدری دلپزیر ڈاکٹر محمد اقبال حاجی ولی رحمن ملک عارف حاجی محمد حسن خانیزمان عبدالطیف محمد رفیق سردار میرولی مہتا ب علی آزاد بشیر مغل۔ احمد نواز خان مسعود شوق شہزاد جہانگیری مختار اعوان ملک آصف ، سعید او ر دیگر بے شمار دوستوں کا ذکر نہ کرنا بھی احسان فراموشی ہوگی جنہوں نے میرا اور میرے بیٹے کا حوصلہ بڑھایا بلکہ آزمائش کی گھڑی میں ہمارے شانہ بشا نہ رہ کرہمیں حوصلہ دیا ۔ میں اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اے اﷲ ہم تیری رضا پر راضی ہیں لیکن مجھے گلہ ہے ان وزیر وں و مشیروں اور ان مزارعوں سے جن کے ساتھ زندگی کا بہشتر حصہ خدمت میں گزار۔اا ٓزمائش کی گھڑی میں خون دینے والے اور دودھ پینے والے مجنوؤں کا فرق محسوس دلا یا ۔ اسی لئے کہاجاتا ہے کہ نشہ شرا ب کا ہو یا اقتدار کا دولت کاہو یا اولا د کا نشہ بہر حال نشہ ہوتا ہے اسی لئے نشہ کو ہمارے مذہب میں حرام قرار دیا ہے جو عقل کو زائل کردیتا ہے۔ انسان کیا ہے جس پہ شیداء ہے جہاں اک مٹی کی عمارت اک مٹی کا مکاں خون کا گارا بنا یا اینٹ اس میں ہڈیاں موت کی آندھی جب زور سے ٹکرائے گی ٹوٹ کر پھر یہ عمارت خاک میں مل جائیگی۔ جس وزیر اور مشیر کیلئے خاکسار نے زندگی کے قیمتی تیس سا ل خدمت کی قائد حریت کا لقب دیا ایک پودے سے تناور درخت بنا یا۔ مگر جب پھل کھانے کا وقت آیا تو غیر وں نے گھیر لیا۔۔اس موقع پر جنر ل صلاح الدین ترمذی کا وہ شعر یا دآیا اکثر وہ کہاکرتے ہیں۔ راکھی کی تیر ے باغ کی جب پھل کھانے کا وقت آیا تو غیر آگئے ۔ اسی لئے کہاجاتا ہے کہ سیاست محض فریب جھوٹ کادوسرا نام ہے جس کو عبادت کانام دیکر عوام سے ووٹ لئے جاتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر پھر موسمی بٹیرے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ جس ملک میں کارکنان خود کشیاں کرنے پر مجبورہوں ان کے ان کے بچے پڑھ لکھ کر بھی حصول روز گار کی تلا ش میں در در کے دھکے کھارہے ہوں تو کیا ا س کو عوام کی خدمت کہا جائے گا۔22لاکھ نفوس پر مشتمل مانسہرہ کی آبادی والا ضلع میں عوام کی قسمت کے بدلنے کے داعویدار روزانہ سیکڑو ں افراد کو یرقان جیسے مہلک امراض سے نہ بچا سکے ان کو صاف پینے کا پانی نہ دے سکے۔ گیس جو ہر انسان کی ضرورت ہے کیا کسی کو ملی ہر ہفتے گیس افتتاح کرکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔بے ہنگم ٹریفک مسئلہ حل ہوا روزا نہ کئی افراد ہسپتال پہنچنے سے قبل دم توڑ جاتے ہیں کیا ان کو بچایا جا سکا ۔ پشاور کے بعد دوسر ا بڑا شہر ضلع مانسہرہ کے عوام غربت افلا س بے روزگار ی تعلیم صحت اور دیگر بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ آج ہمارے بچے بچیاں کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں 8اکتوبر 2005کے حولنا ک زلزلہ کا شکار آج بھی ہزار لاکھوں متاثرین امداد کے منتظر ہیں ضلع میں تاریخ کی بڑی بندر بانٹ ہوئی کیا کسی نے احتساب کیا اقتدار کی خاطر پارٹیاں ایسے تبدیل کی جاتی ہیں جیسے ہر صبح شام پہننے کیلئے شلواریں تبدیل کیاکسی نے اس پر نوٹس لیا کل تک جس کو برا بھلا چوکوں چوراہوں میں کہاجاتا تھا اور مانسہرہ کی سرزمین پر اس داخلہ بند کیلئے لا ء اینڈ آڈر کی راہ ہموار کی جارہی تھی آج پارسا یعنی قائد عوام وزراعظم پاکستان کیسے بن گیا یہ سب سیاسی داؤ پیج ہیں جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ان پر قابو پایا جا سکا 22لاکھ کی آ ٓبادی والے ضلع میں صرف تین لاکھ افراد ،ووٹ کاسٹ کرتے ہیں باقی 19لاکھ افراد کس کی قیادت پر یقین رکھتے ہیں یہ بڑا سوال ہے۔ جو ہرمرد وزن کے دل و دماغ پرسوار ہے ۔ میر ی ان تما م سیاسی بازیگروں اور عوام کی خدمت کے جھوٹے داعویداروں سے گزار ش ہے کہ ا پنے نوجوانو ں کے ہاتھوں میں ڈگریاں دیکر خود کشیاں کرنے پر مجبور نہ کریں ان کو ا پ ہی ملک میں وافر مقدار میں روز گار کے مواقع فراہم کریں تاکہ تعمیر و ترقی میں مدد مل سکے۔ اس عنوا ن کا لکھنا کسی کی دل آزاری یا حوصلہ شکنی یا حوصلہ افزائی ہر گز نہیں بلکہ خاکسار کی طر ح نہ جانے کتنے کارکن ان سیاسی بازیگروں کے ایندھن کا شکار ہوں گے ورنہ یہ کہاجا سکتا ہے بلک حقیقت میں کیسی تیری یہ کارستانیاں ہیں ۔ بد نظی اور بد عنوانیاں ہیں ۔ یہاں ہر اک کے ہیں خدمت کے نعرے پھرکیوں اتنی پریشانیاں ہیں ۔ مہنگائی افلا س اور دہشت گردی یہ حکمرانوں کی مہربانیاں ہیں ۔انصاف کو ترستے ہیں مظلوم سارے منصفوں کی عجب من مانیاں ہیں ۔ جس کے پا س بھی بیٹھو تو سنو سب کی درد ناک سی کہا نیاں ہیں۔ خاکسار میرافضل گلزار ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Mirafzal Gulzar
About the Author: Mirafzal Gulzar Read More Articles by Mirafzal Gulzar: 3 Articles with 2024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.