حنظلہ عماد
بھارت سرکار نے ایک عرصہ دراز سے دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی ہے کہ
جنت نظیر وادی کشمیر میں سب معمول کے مطابق ہے۔ بس چند سرپھرے ہیں جو
پاکستان کے کہنے پر ریاست میں امن مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور انھی
سرپھروں کو قابو میں رکھنے کے لیے 8 لاکھ بھارتی فوج وہاں موجود ہے۔ اس
جھوٹ کی لگاتار کثرت نے ایک حد تک دنیا کو بھی بھارت کا ہمنوا بنادیا تھا
لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہونے والے تعلیم
یافتہ اور پڑھے لکھے نوجوانوں نے اس نظریہ کی کمر توڑ دی ہے کہ ہتھیار صرف
وہ اٹھاتے ہیں جو پیسوں کے لالچ میں آتے ہیں۔ بلکہ اس وقت کشمیری
یونیورسٹیوں کے طلبا کی طرف سے تحریک کا ہراول دستہ بننے سے نہ صرف بھارت
سرکار بلکہ بھارت کے بہت سے پڑھے لکھے شہریوں کو بھی اس بات کی سمجھ آنے
لگی ہے کہ بھارت سرکار ایک عرصہ دراز سے کشمیریوں کے ساتھ کیا سلوک روا
رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر بھارت میں بہت سے نوجوان اب تحریک آزادی
کشمیر کی حمایت کررہے ہیں۔
گزشتہ دنوں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں افضل گورو کے عدالتی قتل کے خلاف
ہونے والے مظاہروں میں یہی بات کھل کر سامنے آئی ہے ۔ اگرچہ بھارت سرکار
اور میڈیا نے اس بات کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ یہ نعرے بازی اور
ہنگامہ کچھ بیرونی طاقتوں کے اشارے پر ہوا۔ حتیٰ کہ نوجوان طلبا پر جہادی
تنظیموں سے تعلق کا الزام بھی لگا، انھیں ڈرانے کے لیے غداری کے مقدمے قائم
ہوئے اور ان کا میڈیا ٹرائل بھی ہوا لیکن یہ نوجوان طلبا شعور کی آنکھ سے
دیکھ رہے تھے کہ بھارت سرکار کشمیریوں کے ساتھ سلوک کررہی ہے۔ چنانچہ ان کے
احتجاج میں شدت آئی ہے اور محض جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے شروع ہونے والا
احتجاج بھارت بھر کی 20یونیورسٹیوں تک پھیل گیا ہے۔ملک بھر میں طلبا نے اس
مقصد کی حمایت کی اور کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرنے پر ان کے ساتھ اظہار
یکجہتی کیا۔
ان سب حالات کے بعد ایک عرصہ دراز تک افضل گورو کے عدالتی قتل کے متعلق دبی
رہنے والی بحث پھر سے زندہ ہوگئی ہے۔ اگرچہ طاقت کے استعمال سے ان نظریات
کو دبانے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے لیکن بھارت میں تحریک آزادی کشمیر کے لیے
حمایت بڑھتی ہی جارہی ہے اور بھارت سرکار اس معاملے پر شدید پریشان ہے۔
ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں کہ جب بھارت سرکار کی کشمیر
پالیسی پر نہ صرف تنقید کی گئی بلکہ بارہا اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ
بھارت سرکار کو اب کشمیر کو چھوڑ دینا چاہیے۔ 2010ء میں کشمیر میں چلنے
والی تحریک میں جب تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں کے نوجوانوں نے شمولیت
اختیار کی تو اس پر بھارت بھر سے ان کشمیریوں کے حق میں آوازیں بلند ہوئیں۔
اگرچہ بھارت سرکار نے ان آوازوں کو دبادیا لیکن پھر بھی کچھ آوازیں بیرونی
دنیا تک سنی گئیں۔ ان آوازوں میں بھارتی معروف قلم کار ارون دھتی رائے کی
آواز بڑی نمایاں تھی۔ وہ اپنے اس نظریے پر قائم ہیں کہ بھارت سرکار اور فوج
کشمیر میں نہتی مظلوم عوام پر ظلم ڈھارہی ہے۔ ارون دھتی رائے نے ہی ماضی
میں یہ بیانات دیئے کہ کشمیر میں کالے قوانین انسانی حقوق کی بدترین خلاف
ورزی ہیں اور اس کے علاوہ ان کا یہ بیان بھی بھارت میں کافی متنازعہ رہا کہ
دہلی کی عورتوں کے ریپ پر تو شور مچایا جاتا ہے لیکن جو کشمیری عورتیں
بھارتی فوج کے ہاتھوں ریپ ہوتی ہیں ان کے حق میں آواز بلند کیوں نہیں ہوتی۔
ارون دھتی رائے پر ہی الزام ہے کہ سید علی گیلانی کو ایک سیمینار میں بلوا
کر اور تقریر کرواکر انھوں نے ملک دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔
اس جیسی آوازیں تو اگرچہ ماضی میں بھی اٹھتی رہی ہیں لیکن جواہر لعل نہرو
یونیورسٹی کے طلبا کی طرف سے سرعام کشمیریوں کی حمایت کرنے پر بہت سی دبی
آوازیں اور خدشات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ یہ خدشات عوام میں تو موجود
ہیں ،ساتھ ہی ساتھ خواص میں بھی اس کا شکار نظر آتے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ
بہیمانہ سلوک سے بھارتی سیاستدان تک متفق نہیں ہیں۔ ان کی جانب سے بھی اب
برملا کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی جارہی ہے۔ آندھرا پردیش کے ممبر
پارلیمنٹ نے اپنی تقریر کے دوران پارلیمنٹ میں کہا کہ ’’متواتر مرکزی
حکومتوں نے رائے شماری کا وعدہ پورا نہ کرکے جموں و کشمیر کی عوام کے ساتھ
دھوکہ کیا ہے۔ ‘‘ وائی آر ایس کانگریس پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ برائے
پارلیمانی حلقہ پترو پتی وارا پرساد راویلا کاپلائی نے پارلیمنٹ میں تقریر
کرتے ہوئے کہا کہ ’’ تاریخ کا مطالعہ کریں، ہم نے بار بار انھیں (جموں و
کشمیر کے عوام کو ) دھوکہ دیا ہے۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے
ہمیں اس کو دوسری طرف (پاکستان) کو دینا ہے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا، اس کے
بعد ہم نے رائے شماری کا وعدہ کیا ، وہ بھی پورا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی
دیگر ممبر پارلیمنٹ نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔
جب بحث بھارت کے میڈیا میں چھڑ گئی تو ایسے موقع پر سابق ہوم منسٹر
اورسینئر کانگریس لیڈر چدم برم نے بھی اس بات کا اظہار کردیا کہ افضل گورو
کے کیس کو درست انداز میں نہیں لیا گیا اور اس بات کے امکانات ہیں کہ اس کا
عدالتی قتل ہوا ہے۔
الغرض بھارت سرکار کو اس وقت کشمیریوں سے تو جو خطرات ہیں سو ہیں اس وقت آگ
اپنے ہی گھر میں بھڑک اٹھی ہے۔ بھارت سرکار کو اپنی ہی عوام اور سیاستدانوں
کو جواب دینا پڑ رہا ہے کہ وہ کشمیر میں اتنے عرصے سے کیا کررہے ہیں اور
کشمیری بھارت کے اس قدر معاشی پیکجز کے باوجود بھارت اور اس کی فوج کے اس
قدر خلاف کیوں ہیں؟
اگرچہ بھارت میں اس وقت بی جے پی جیسی ہندو انتہا پسند حکومت ہے اور وہ
اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو پوری طرح سے آگے بڑھارہی ہے۔ اسی مقصد کے لیے آر
ایس ایس کے غنڈوں کو نہ صرف مسلح کیا جارہا ہے بلکہ ان کی مدد سے کشمیریوں
کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی بھی توقع کی جارہی ہے۔ لیکن بھارت
سرکار کے اس رویے نے نہ صرف کشمیریوں بلکہ بھارت کی دیگر اقلیتوں جن میں
سرفہرست مسلمان اور دیگر شامل ہیں ، کو بھی خبردار کر دیا ہے۔
آر ایس ایس کے اس کردار سے پیشگی خبردار کرتے ہوئے ان اقلیتوں نے بھارت
سرکار کے اس رویے کے خلاف آواز بلند کرنا شرو ع کردی ہے۔ چنانچہ منی پور،
ناگا لینڈ اور اس طرح کی دیگر ریاستوں میں بھارت مخالف سرگرمیوں میں نہ صرف
تیزی آئی ہے بلکہ نکسل باڑی تحریک جوکہ علیحدگی کی تحریک ہے ، باقاعدہ
مضبوط بھی ہوگئی ہے۔ ان ریاستوں کی عوام نے بھی کثیر تعداد میں احتجاجی
مظاہرے کیے ہیں جن میں نہ صرف کشمیریوں کو آزادی دینے کی بات کی گئی ہے
بلکہ ان ریاستوں کے عوام نے بھی اپنے دیرینہ مطالبات پورا کرنے کی مانگ
ظاہر کی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اقلیتیں جیسا کہ سکھ برادری، جاٹ اور دلت بھی
اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہورہے ہیں۔
ایسے حالات میں بھارت سرکار کو کشمیریوں کے ساتھ عرصہ دراز سے کی جانے والی
ناانصافیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر ابتدا میں بھارت مسئلہ کشمیر
سے دست بردار ہوجاتا اور کشمیریوں کو ان کا حق دے دیتا تو شاید نوبت یہاں
تک نہ پہنچتی۔ لیکن کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ہمت اور ان کی کامیابیوں
نے بھارت کے اندر دیگر بہت سے گروہوں کو مہمیز دی ہے۔ اس سے وہ بھی نہ صرف
اپنے حقوق مانگ رہے ہیں بلکہ بہت سے گروہ علیحدگی کی تحریکوں کی صورت
اختیار کرچکے ہیں۔
ان حالات میں کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اگر بھارت کشمیر سے دست
بردار ہوتا ہے تو اسے منی پور، ناگا لینڈ، آسام اور خالصتان سے بھی ہاتھ
دھونا پڑیں گے۔ جبکہ دوسری صورت میں نہ صرف بھارتی فوج بدنام ہورہی ہے بلکہ
دنیا بھر میں اس کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ بھارت کی نوجوان نسل کی طرف سے
سامنے آنے والے کشمیریوں کے لیے ہمدردی کے جذبات بھارت سرکار کے واسطے ایک
نیا درد سر ہیں۔ ان حالات میں مودی سرکار کیا ترتیب اختیار کرتی ہے اور
حالات مزید کس نہج پر آگے بڑھتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اشارے اسی
بات کے ہیں کہ بھارت سرکار صرف کشمیریوں کو آزادی نہ دے کر ایک بڑی مشکل
میں گرفتار ہونے والی ہے اور یہ مشکل شاید بھارت کے وجود کو نگلنے پر بھی
قادر ہے۔ |