ایم کیو ایم اور ․․․․․․․․ الزامات!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
کہنے کو تو مصطفی کمال نے کمال کردیا،
جذبات میں اشکوں کا تڑکا بھی خوب لگایا، سوال اٹھائے اور للکارا، بھائی کو
صاحب بنا دیا۔ قائد کے کردار کے کچھ نئے پہلو بھی قوم کے سامنے وا کئے۔
’را‘ کے ایجنٹ ہونے کا الزام تو ہزاروں مرتبہ پارٹی پر لگ چکا، صرف الزام
ہی نہیں، بات ثبوت اور یقین تک بھی پہنچ چکی ۔ کمال کا مہذب لوگوں کو تیس
برس میں جاہل بنا دینے کا الزام، قائد کو اﷲ تعالیٰ سے رجوع کرنے اور توبہ
کرنے کے مشورہ، لاشوں پر سیاست کرنے کے ہنر سے آشنائی کا ذکر، حکومتوں سے
نکلنے اور دوبارہ واپس آنے کا شرمناک کردار، رابطہ کمیٹی کی الطاف کے
ہاتھوں مسلسل تذلیل، رات کو گالی بکنے اور صبح معافی مانگ لینے کی روایت،
نوجوانوں کو دہشت گرد بنانے کا الزام، زندگی اور موت کا ٹھیکہ الطاف کو
دینے کی بات، رابطہ کمیٹی کا سب کچھ جانتے ہوئے بھی کارکنوں سے مسلسل جھوٹ
بولنے کا رویہ۔ ان تمام الزامات میں کوئی بھی نیا نہیں، اور یہی جواب ایم
کیوایم کے رہنماؤں نے مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے جواب میں دیا ہے، اور
کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں ناکام ہونگی، تمام الزامات جھوٹے ہیں، جواب
دینے کی ضرورت نہیں، ایم کیوایم کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے، الزامات
گھٹیا اور پرانے ہیں۔ ان تمام پرانے الزامات ایک نئی بات کھل کر سامنے آئی
ہے کہ قائدِ تحریک کی کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے ان کے لئے دن اور رات میں
کوئی فرق نہیں، اسی وجہ سے ان کو تقریر وغیرہ میں بھی دقت پیش آتی ہے۔
الزامات تو واقعی نئے نہیں، مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ الزامات لگانے
والا آدمی ضرور نیا ہے، اور وہ ایسا آدمی ہے جسے ایم کیوایم نے لاکھوں میں
ایک منتخب کرکے کراچی کی نظامت کا تاج اس کے سر پر رکھا تھا، اس کو اس قابل
جانا تھا اور اس پر اعتماد کیا تھا۔ اگر کوئی بدنام قاتل یا بھتہ خور رینجر
کے ہاتھوں گرفتار ہوکر اس قسم کے بیانات دیتا ہے تو اس کے بارے میں کہنے
میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی کہ یہ بیان دباؤ میں دیا گیا ہے، مگر جب گھر
کا ایک بھیدی اپنی مرضی سے ہی لنکا ڈھائے گا تو حالات مختلف ہوں گے۔ چونکہ
ایم کیوایم کی قیادت کے پاس ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں، اس لئے انہوں نے
یہ جواب دینا ہی مناسب جانا کہ کوئی جواب ہی نہ دیا جائے۔ تاہم یہ کہا کہ
اگر کچھ لوگوں نے ’را‘ سے رابطہ کیا یا فنڈ لیا، تو ہمارا اس سے کوئی واسطہ
نہیں، یہ الزام کو تسلیم کرنے والی بات ہی ہے۔ ایم کیوایم کے رہنماؤں کی یہ
بات بھی قابلِ غور ہے کہ الزامات پرانے اور گھٹیا ہیں۔ یقینا ایسے ہی ہے،
الزامات پرانے تو ہیں ہی، گھٹیا اس لئے ہیں کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے،
ان کا کردار بھی گھٹیا ہی ہے۔
اس پریس کانفرنس کے بعد یہ شکوک وشبہات بھی سر اٹھا رہے ہیں کہ آیا مصطفی
کمال نے یہ قدم خود اٹھایا ہے یا یہ کام کسی کی شہ پر کیا جارہا ہے، ان پر
بھی یہ الزام لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے سب کچھ کروا رہی ہے۔ سابق ناظم
کراچی کی جانب سے اس الزام کو مسترد بھی کیا جارہا ہے۔ یہ خیال بھی یہاں
سراٹھاتا ہے کہ آخر دسیوں سالوں سے یہ لوگ پارٹی کے ساتھ ہیں، اس کے کارکن
بنے، پھر قیادت کے منصب تک پہنچے، پھر ’’بابائے کراچی‘‘ کے عہدہ جلیلہ پر
متمکن ہوئے، آخر ایم کیوایم کی یہ خرابیاں اس وقت ان کے سامنے کیوں نہیں
آسکیں، انہیں اپنے قائد کی عاداتِ بد کا پہلے علم کیوں نہیں ہوسکا، انہیں
قائد کے حکم پر حکومتوں میں شامل ہونے اور نکلنے کے انداز اس وقت کیوں برے
نہ لگے، ’را‘ کے ایجنٹ ہونے کے الزام پر ہی تو چوبیس برس قبل کراچی میں
آپریشن کلین اپ ہوا تھا، قائد کی شراب نوشی اور بھتہ خوری انہوں نے اتنا
عرصہ کیوں برداشت کئے رکھی؟ آخر کوئی بات تو اندر کی بھی ہوگی، ناراضی کی
کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ اگر یہ واقعی ضمیر کا فیصلہ اور خوفِ خدا کا کرشمہ
ہے تو بہت خوب ہے۔
آئینے کی طرح شفاف اور سورج کی طرح روشن ان الزامات کے باوجود اس حقیقت سے
بھی انکار ممکن نہیں کہ کراچی کے عوام نے ایم کیوایم پر مکمل بھروسہ کیا
ہے۔ہر الیکشن میں اس پر یہ الزام لگتا تھا کہ دھاندلی کے ذریعے کامیابی
ملتی ہے، مگر گزشتہ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں اور اب بلدیاتی الیکشن
میں یقینا کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، تب بھی ایم کیوایم نے بھاری اکثریت حاصل
کی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جمہوریت کی برکات سے ’را‘ کے ایجنٹ، قاتل، بھتہ
خور اور اسی قسم کی دیگر خصوصیات کے حامل لوگ کراچی کی قسمت کے مالک ہیں۔
|
|