نیب کا ادارہ جنرل پرویز مشرف نے
16نومبر1999ء میں قائم کیا اس کا مقصد کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب کرنا اور
ملک میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کو روکنا تھا تا کہ ملک کو کرپشن سے
پاک کیا جا سکے اور اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں کو آگے لایا جائے۔ جنرل
ریٹائرڈ سید محمد امجد کو اس کا پہلا چیئرمین لگایا گیا ۔ جنرل صاحب اچھی
شہرت کے حامل تھے اور انہوں نے کرپشن کی روک تھام کے لئے اچھے اقدامات کئے۔
2000ء میں جنرل ریٹائرڈ خالد مقبول کو چیئرمین لگایا گیا انہوں نے بھی اپنے
فرائض پوری ذمہ داری سے سر انجام دئیے۔ 2001ء میں جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز
کو چیئرمین نیب لگایا۔ انہوں نے سیاسی مگرمچھوں پر کافی سخت ہاتھ ڈالا جس
سیاستدان پر بھی ہاتھ ڈالتے وہ بھاگ کر مشرف صاحب کی گود میں بیٹھ جاتا۔
مشرف صاحب شاہد عزیز کو فون کرتے چھوڑ دیں یہ اپنی پارٹی کا بندہ ہے۔ جنرل
شاہد عزیز نے مشرف سے کہا کہ اگر ہم اسی طرح ان کو چھوڑتے رہے تو اِ ن کا
احتساب کون کرے گا۔ جنرل شاہد عزیز 2005ء میں چیئرمین نیب کے عہدے سے
سبکدوش ہو گئے۔نوید احسن 2005ء سے 2010ء تک چیئرمین نیب رہے ۔ ان کے بعد
2010ء میں ہی جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کچھ ماہ چیئرمین نیب رہے۔ 2011ء
میں جنرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کو چیئرمین نیب لگایا گیا لیکن ان کی کارکردگی
معمولی رہی ۔
2013 ء میں ن لیگ کی حکومت آئی میاں نواز شریف صاحب وزیر اعظم بنے۔ انہوں
نے اپوزیشن سے مشاورت کے بعد جنرل ریٹائرڈ قمر الزمان چوہدری کو چیئرمین
نیب لگایا ۔
نیب ایک خودمختار ادارہ ہے جو اپنے طریقے کے مطابق کام کرتا ہے ۔ نیب نے جب
سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھ اور ہائیر ایجوکیشن کے چیئرمین
ڈاکٹر عاصم حسین کو 21اکتوبر2015ء میں گرفتار کیا تو پیپلز پارتی نے قمر
الزمان چیئرمین نیب کی مخالفت شروع کر دی کیونکہ ڈاکٹر عاصم حسین نے پیپلز
پارٹی کے دور میں اربوں روپے کی کرپشن کی تھی اور ساتھ دہشت گردوں کی مالی
معاونت بھی کرتا تھا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کا ایک اور صوبائی وزیر شرجیل
انعام میمن کو بھی نیب نے پکڑا کیونکہ اس نے 5ارب روپے کی کرپشن کی تھی۔
پیپلز پارٹی نے اُس وقت سے لے کر آج تک نیب میں قانون سازی کی مہم چلانا
شروع کر دی۔ جب تک پیپلز پارٹی کے لوگ پکڑے جاتے رہے اُس وقت تک نیب بہت
اچھا ادارہ تھا اور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس آ رہا تھا لیکن جب نیب نے
مسلم لیگ ن کے وزیروں پر ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا خاص طور پر ن لیگ کے
کاروبار میں شراکت دار میاں منشاء کو جب نیب نے اپنے دفتر میں بلایا کیونکہ
ان پر 50ارب روپے کی کرپشن کا معاملہ چل رہا تھا ۔ اس کے علاوہ ن لیگ کے جو
دوسرے ترقیاتی پروگرام جاری ہیں اُن کی جانچ پڑتال بھی نیب نے شروع کر دی
جس کی بڑی وجہ منصوبے اپنی مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ رہے تھے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اجلاس بلایا جس میں سنیئر وزیر شامل ہوئے
انہوں نے نیب کے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دئیے جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو
نیب کے خلاف ایکشن لینا پڑا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر 12ارب روپے کی کرپشن
ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم صاحب اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے بجائے اس کے کہ
نیب کے پر کاٹے جائیں ملک سے کرپشن ختم کرنے میں نیب کی مدد کرنی چاہیے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے گٹھ جوڑ کیا ہوا ہے
جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی نے خفیہ طور پر
مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر نیب کے طریقہ کار میں ترمیم کرنے کا لائحہ عمل
تیار کر لیا ہے تا کہ جو تھوڑا بہت نیب کام کر رہی وہ دھرے کا دھرا رہ جائے
اور لوٹ مار کا بازار اسی طرح چلتا رہے۔ اس لوٹ مار کا نام جمہوریت رکھا
ہوا ہے۔ |