پاکستان کے7ویں وزیرِ اعظم فیروز خان
نون نے پاکستان کیلئے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جسکی وجہ سے پاکستان کی
جغرافیائی اہمیت میں ایک ایسا اضافہ ہو گیا کہ اگر کبھی مستقبل قریب میں
وہاں کے مسائل بخوبی حل ہو گئے تو پاکستان کی اگلی نسل معاشی طور پر ایک
مضبوط قوم بن کر اُبھرے گی۔
دسمبر1957 ء میں ملک فیروز خان نون پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔یہ وہ دہائی
تھی جس میں پاکستان کے سربراہوں کے درمیان"میوزیکل چیئر"کے تحت فیصلہ ہو تا
تھا کہ اب کون پاکستان کا سربراہ بنے گا۔لہذا زیادہ عرصہ تو کوئی اپنے عہدے
پر رہتا نہیں تھا۔ اسلیئے چند ماہ میں جس سے بھی ملک کیلئے کوئی ایک آدھا
بہتر کام ہو سکتا تھا کرنے کی کوشش ضرور کرتا اور پھر وہ بھی محلاتی سازشوں
کی نظر ہو جاتا ۔بس اس ہی تسلسل کی ایک کڑی فیروز خان نون بھی ہیں جووزارتِ
عظمیٰ کے عہدے پر تو کم و پیش (10 )دس ماہ رہے۔ لیکن ایک کام اُنھوں نے اس
ملک و قوم کیلئے ایسا کیا جو ہمیشہ تاریخی حیثیت میں یاد رکھا جائے گا۔وہ
تھا " پسنی گوادر " کا وسیع وعریض علاقہ جو اُنھوں نے پاکستان میں شامل
کروا لیا۔ جس سے مستقبل میں ہمارے ملک کو دفاعی طور پر بہت فائدہ ہوا ۔یعنی
خاص طور پر "بندگا ہ کی تعمیر"۔ تاریخ میں" گوادر" قبل ازیں "قلات "کا حصہ
بھی رہ چکا تھا۔لیکن کسی وجہ سے "سلطان ِ مسقط "نے اپنی عملداری میں لے لیا
تو" خان آف قلات "نے اُس پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا تھا۔بلکہ دوستی و
مروت میں خاموش رہا۔
جہاں تک خارجی معاملات کا تعلق تھا وزیرِاعظم فیروز خان نون ماضی میں وزیرِ
خارجہ پاکستان بھی رہ چکے تھے ۔لہذا اس شعبے میں اُنکے ماضی کے تجربے سے
پاکستان کو فائدہ حاصل ہو گیا۔ اُن کے عہد میں "سلطانِ مسقط" سے مذاکرات کے
نتیجے میں گوادر کی بندر گاہ اور اس کے آس پاس کا علاقہ چالیس لاکھ پونڈ کے
عوض پاکستان نے حاصل کر لیا اور 8ِ ستمبر 1958 ء کو پاکستان کے رقبے میں
تقریباً 300 مربع میل کا اضافہ ہوگیا۔ گوادر کی بندرگاہ اور آس پاس کے
علاقے کا انتظام اور بندوبست 1784 ء سے لیکر اُس وقت تک ہز ہائی نس دی
"سلطان مسقط اینڈ عمان" کے ہاتھوں میں تھا، لیکن چونکہ اس کا تعلق پاکستان
کے ساتھ بنتا تھا۔ لہذا "برطانوی حکومت" نے مصالحت کندہ کے فرائض انجام
دیتے ہوئے اس سلسلے کو حل کروا دیا۔اسکی اہم وجہ یہ تھی کہ وزیرِاعظم فیروز
خان نون کے برطانوی حکومت سے تعلقات قیامِ پاکستان سے پہلے ہی سے بہتر تھے
۔
اس اہم کارنامے کو " ملک امجد علی نون " اپنی کتاب " نیرنگئی سیاستِ دَوراں
" کے صفحہ نمبر:30 پر اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
"ملک فیروزخان نون نے جس حکمتِ عملی سے یہ علاقہ پاکستان میں شامل کروایا
،یہ ایک لمبی داستان ہے۔اس زمانے میںجنرل ایوب خان پاکستان بری فوج کے
سربراہ تھے ۔ایک میٹنگ میں جب فیروزخان نون نے گوادر کے علاقے کی اہمیت پر
روشنی ڈالی تو ایوب خان نے ملک فیروزخان نون کی باتوں سے کلی اتفاق کیا مگر
اس نے فوج کشی کر کے بزورِ قوت گوادر حاصل کرنا چاہا تو ملک فیروزخان نون
نے ایوب خان کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ان کو خیال تھا کہ ہم لڑائی کر کے
سلطان ِ اومان ( مسقط) سے کیوں دُشمنی مول لیں۔انھوں نے دولتِ مشترکہ کا
ممبر ہونے کے ناتے اور برطانوی وزیر ِ اعظم ہیرالڈ میکملن اور لیڈی ڈور تھی
کے علاوہ ان کے وزیر ِ خارجہ مسٹر سلون لائیڈ جو پاکستان کے دورے پر بھی
آئے تھے کےذریعے کمال حسن و خوبی کے ساتھ سلطا ن ِ مسقط سے گوادر کا معاملہ
کروایا اورپھر اس واقعے کا جشن بھی نہ منانے دیا کہ مبادااس سے سلطان ِ
مسقط کے جذبات مجروح ہوں"۔ |