غلامی آخر کب تک؟

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا 70 برس بیت چکے ہیں۔ ملک کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قومی زبان اردو ہے۔

پاکستان کے جمہوری نظام کو اگر دیکھا جائے تو جمہوریت کا مطلب عوام کے ذریعے عوام پر عوام کی مفاد کے لیے حکومت کرنا ہے۔ اسمبلی کی آئینی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے جمہوریہ زیادہ تر فوجی آمروں کے زد میں رہی۔ بچی کچی مدت میں ایک آدھ بار سے زائد اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انتخاب لڑنے کے لیے کوئی بھی خاص شرط ، کوئی معیار موجود نہیں۔ ہر کوئی انتخاب لڑ سکتا ہے۔ نا اہلی کے بعد بھی کسی پر سیاست کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ جعلی ڈگری، کرپشن اور غیر قانونی اثاثے بنانے والے ہر الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ وزارتوں میں اضافہ کیا جا تا ہے۔ اسمبلی ممبران کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں۔ مراعات دئے جاتے ہیں۔ جب بجٹ پیش کیا جا تا ہے تو نتیجہ خسارہ ہی نکلتا ہے۔ خسارے سے بچنے کے لیے دو راستے نکالتے ہیں۔ خسارہ ختم کرنے کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں۔ قرضوں کا سود بھرنے کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جاتا ہے۔ نتیجہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔
 
ایک حکومت آتی ہے۔ خزانہ خالی ہوتا ہے۔ قرضوں کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ قرضوں کی منظوری کا شرط مہنگائی میں اضافہ کرانا ہوتا ہے۔ غلاموں کی طرح بیرونی شرائط مان کر قیمتیں بڑھاتے ہیں اور نئے ٹیکسز لگاتے ہیں۔ سال بعد قرضوں کی سود کی ادائیگی کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک موبائل کارڈ پر مجموعی طور پر 41فی صد ٹیکس لاگو ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات پر بھی 30 سے 40 فی صد ٹیکس ہے۔ دو ڈھائی سال بعد اعلان کرتے ہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی پاگل پن ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کے لیے دو وقت کھانے کا پیسہ نہ ہو اور وہ لوگوں سے قرضہ لے کر اعلان کرے کہ میں لکھ پتی بن گیا ہوں؟

پاکستان میں پارلیمانی نظام مکمل طور پر فیل ہو چکا ہے۔ اب وقت ہے ۔ اس سے پہلے کہ ملک مکمل طور پر دیوالیہ ہو جائے ، صدارتی نظام کو ازمانے چاہئے۔ ممبران اسمبلی کی تعداد کو کم سے کم کر دیا جائے۔ ان کو مراعات دے کر تنخواہوں میں کمی کی جائے۔ ہر شہری کو تعلیم، صحت اور رہائش جیسی سہولیات مفت فراہم کی جائے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ چودہ سالہ اور سولہ سالہ تعلیمی ڈگری کی حامل افراد کو نوکری دینے تک مستقل مناسب وظیفہ دیا جائے۔ سیاست کے لیے مخصوص شرائط لگائی جائے نہ یہ کہ ہر ایک اس فیلڈ میں آسکے۔ جن نمائندوں کی رکنیت جعلی ڈگری اور غیر قانونی اثاثوں وغیرہ کی وجہ سے ختم ہو ان پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔ جن نمائندوں کو تین بار کسی بھی قسم کی انتخاب میں شکست ہو ان کے دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگائی جائے۔ زیادہ سے زیادہ تین بار منتخب ہونے کی شرط لگائی جائے۔

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ 73ء کا آئین تقریبا اسلام کے مطابق ہے۔ آئین میں یہ بھی درج ہے کہ اگر کوئی شق اسلام سے متصادم ہو تو اس کو چیلنج کیا جاسکے گا۔ آج اگر دیکھا جائے تو شراب نوشی عام ہے، زنا بالرضا کی کھلی اجازت ہے، رشوت پر حقوق بک جاتے ہیں، عدالتوں میں غیر مسلم تو چیف جسٹس بنائے جاتے ہیں لیکن حافظ قرآن کو اس لیے چیف جسٹس نہیں بنایا جاتا کیونکہ اس کے سینے میں قرآن ہے جس کا اثر غالب آسکتا ہے۔ آج ہمارے عدالتوں میں 1890ء کے انگریز قانون کے مطابق تو فیصلے کئے جاتے ہیں لیکن قرآن و حدیث کے فیصلے ناپید ہیں۔

اسی طرح اردو جو ملک کی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی اب انگلوردو میں تبدیل ہو چکی ہے اور عنقریب اپنی شناخت کھو بیٹھی گی۔ نظام تعلیم انگلش میں، دفتری زبان انگلش، عدلیہ کی زبان انگلش، ڈاکٹری زبان انگلش، انجنئیرنگ زبان انگلش۔ اسمبلیوں کے دوران بھی تقاریر انگلش میں کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی ملکی دار الخلافہ میں تاریخ کے پہلے میئر سے انگلش زبان میں حلف لیا گیا۔

ہم اپنی پہچان جو ہماری زبان، ہمارا مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت تھی، پہلے ہی کھو چکے ہیں۔صرف ایک ملک ہی رہ گیا ہے۔ خدارا حکمرانوں ہوش کے ناخن لو۔ پاکستان کو قائم رہنے دو۔ ہمیں بیرونی قرضیں نہیں چاہئیں۔ ملک بھر میں ایک وقت سے زائد کی روٹی پر پابندی لگاؤ لیکن بیرونی قرضوں سے نجات دلاؤ۔ آخر کب تک ہم غلامی کی زندگی جیتے رہیں گے؟
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76118 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.